2024 ء میں مہاجرت کے راستوں پر تارکین وطن کی ریکارڈ تعداد میں اموات
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کا کہنا ہے کہ سن 2024 کے دوران دنیا بھر میں بہتر مستقبل کی تلاش میں نکلنے والے تارکین وطن کی سفر کے دوران کم از کم 8,938 اموات ہوئیں۔ یہ تعداد سن 2014 میں اعداد و شمار جمع کرنے کے آغاز کے بعد سے کسی ایک سال میں ہونے والی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
بحیرہ روم میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے چھ افراد ہلاک، 40 لاپتہ: اقوام متحدہ
تارکین وطن کی ایک اور کشتی غرق: متعدد پاکستانی ہلاک
یہ تعداد سن 2023 کے مقابلے میں تقریبا 200 زیادہ ہے، جو خود ایک ریکارڈ سال تھا۔ 2020ء کے بعد سے مہاجرت کے راستوں پر ہونے والی اموات کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہو گئی ہے۔
آئی او ایم کے ڈپٹی ڈائریکٹر اوگوچی ڈینیئلز نے کہا کہ دنیا بھر میں تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا المیہ ناقابل قبول مگر قابل روک تھام ہے۔
(جاری ہے)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ''ہر نمبر کے پیچھے ایک انسان ہوتا ہے، جس کی موت کسی کے لیے تباہ کن نقصان ہوتا ہے۔‘‘
تارکین وطن کی ہلاکتوں کی فہرست میں ایشیا سرفہرستآئی او ایم سے وابستہ مسنگ مائیگرنٹس پراجیکٹ کے مطابق صرف ایشیا میں کم از کم 2,778 تارکین وطن ہلاک ہوئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 624 زیادہ ہیں۔
اس کے بعد سب سے زیادہ اموات بحیرہ روم میں ہوئیں، جن کی تعداد 2,452 ہے۔
2023ء کے مقابلے میں یہ تعداد 703 کم ہے ۔ ہجرت کے راستوں پر ہلاکتوں کی تیسری سب سے بڑی تعداد افریقہ میں ریکارڈ کی گئی، جہاں متاثرین کی تعداد 2023ء کے مقابلے میں 367 کے اضافے کے ساتھ 2,242 ریکارڈ کی گئی۔امریکہ کے بارے میں حتمی اعداد و شمار ابھی تک دستیاب نہیں ہیں، لیکن اب تک کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کم از کم 1،233 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اس میں سن 2024 میں کیریبین میں 341 اموات اور کولمبیا اور پاناما کے درمیان ڈیرین جنگل عبور کرنے والے تارکین وطن کی ریکارڈ 174 اموات شامل ہیں۔آئی او ایم کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی ہلاکتوں اور گمشدگیوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے تارکین وطن کے اعداد وشمار مرتب ہی نہیں ہو پاتے۔
پانچ سال سے اموات کی تعداد میں اضافہآئی او ایم کی طرف سےسن 2014 سے سروے کرائے جا رہے ہیں۔
اس کے بعد سے اب تک 74 ہزار سے زائد تارکین وطن کے ہلاک یا لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔دنیا بھر میں ریکارڈ شدہ اموات کی تعداد پانچ سال سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آئی او ایم کی رپورٹ کے مطابق 2022 ء کے بعد سے کم از کم 10 فیصد ہلاکتیں تشدد کی وجہ سے ہوئی ہیں۔
اسمگلر اور گینگ اکثر تارکین وطن کو پیسے بٹورنے کے لیے ہراساں کرتے ہیں۔ پھر بھی متعدد لوگ ایسی کشتیوں میں دوسرے ممالک کے ساحلوں تک پہنچنے کی کوشش میں مر جاتے ہیں، جو اکثر سمندری سفر کے قابل ہی نہیں ہوتیں۔
آئی او ایم کے مطابق تارکین وطن وہ تمام افراد ہیں جو کسی بھی وجہ سے، کسی بھی عرصے کے لیے، چاہے رضاکارانہ طور پر یا غیر رضاکارانہ طور پر، اپنی رہائش گاہ چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ پناہ کی تلاش میں ایسا کرتے ہیں کیونکہ وہ جنگ یا تشدد سے فرار ہو رہے ہیں۔
ادارت: عاطف بلوچ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تارکین وطن کی کے مقابلے میں آئی او ایم کے بعد سے کی تعداد
پڑھیں:
امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔
جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔