انڈے امریکہ میں معاش کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکے ہیں ، عالمی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
انڈے امریکہ میں معاش کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکے ہیں ، عالمی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 24 March, 2025 سب نیوز
واشنگٹن :اس وقت انڈے امریکہ میں معاش کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔ امریکی محکمہ زراعت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں سال مارچ کے پہلے ہفتے میں امریکہ کے مڈ ویسٹ میں انڈوں کی اوسط ہول سیل قیمت 6.
عالمی میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ بھر کی بڑی سپر مارکیٹوں میں انڈوں کی محدود خریداری”معمول” بن گئی ہیں۔ “انڈوں کی کمی” کے تناظر میں، کچھ کم آمدنی والے خاندانوں نے انڈوں کے استعمال کو کم کر دیا ہے. نیویارک سے تعلق رکھنے والے ایک صارف نے ہچکچاہٹ سے کہا کہ “انڈوں کی مہنگائی مضحکہ خیز حد تک پہنچ چکی ہے، ایک ہفتہ پہلے قوت خرید دو درجن تھی ، لیکن اب صرف ایک درجن خرید سکتا ہوں، اور انڈے کھانے میں بھی حساب کتاب سے کام لینا پڑتا ہے۔ “کچھ امریکی اسکولوں کے کیفے ٹیریاز کو مجبوراً انڈوں کی فراہمی کم کرنا پڑی ہے، یا مینو کو ایڈجسٹ کرنا پڑا ہے، یا انڈوں کو دیگر اجزاء کے ساتھ تبدیل کرنا پڑا ہے، جس سے بچوں کی غذائی ضروریات بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور والدین میں شدید عدم اطمینان پایا جاتا ہے.
امریکی حکومت بھی اس صورتحال سے غافل نہیں ہے۔ امریکی محکمہ زراعت نے متعدد طریقوں سے انڈوں کی قلت کو دور کرنے کی کوشش میں فوری طور پر 1 ارب امریکی ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے ڈنمارک، فن لینڈ، نیدرلینڈز اور دیگر ممالک کو امداد کی فراہمی کے لئے تحریر کردہ خطوط کسی ڈکیتوں سے کم نہیں جو جبراً مالی مدد کے لئے نمودار ہو جاتے ہیں ۔ آخر کار ان یورپی ممالک کو ابھی بھی امریکی حکومت کے ٹیرف اسٹک کے خطرے کا سامنا ہے اور ڈنمارک کا جزیرہ گرین لینڈ اب بھی وائٹ ہاؤس کی “شاپنگ لسٹ” میں پڑا ہے۔ نیدرلینڈز پولٹری ایسوسی ایشن کا یہ تحریری جواب کہ “صلاحیت نہیں” “امریکہ فرسٹ” پالیسی کے منہ پر طمانچہ کی طرح ہے۔ اس طرح کا مضحکہ خیز ڈرامہ جو ایک جانب لوگوں کو ٹیرف چاقو سے کاٹنا چاہتا ہے جبکہ دوسری جانب چاہتا ہے کہ لوگوں کو مسکراتے ہوئے انڈے بھیجنے چاہیئیں ، شاید ہالی ووڈ کے اسکرین رائٹرز کو بھی ایسی تحریر کا تخیل نہ ہو۔امریکی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب وہ دوسرے ممالک کے لیے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے، اس کی مضحکہ خیز پالیسیاں عالمی سپلائی چین کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہیں۔ ٹرمپ نے ترکیہ سے چار سو بیس ملین انڈے مانگے، اور ساتھ ہی ساتھ نائب صدر وینس سے پوڈیم سے گلوبلائزیشن مخالف بیانیہ کے لئے کہا گیا – ایسا شیزوفرینیا آپریشن اس بات کی بھرپور وضاحت کرتا ہے کہ “کھانے کے وقت پیالے کی قدر اور کھانے کے بعد برتن توڑنے”کا معنیٰ کیا ہے۔
امریکی محکمہ زراعت کو دنیا بھر میں انڈے تلاش کرنے میں جلدی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک نشے میں دھت شخص اپنے گھر میں آگ لگا کرآگ بجھانے کے لیے پانی دوسروں سے مانگتا ہے۔درحقیقت ، امریکہ میں انڈے مرغیوں کی صنعت انتہائی مرکوز ہے ، جس میں 76فیصد انڈے ٹاپ 10 کمپنیوں کے ذریعہ تیار کیے جاتے ہیں ، اور نام نہاد “آزاد مارکیٹ” صرف انجیر کا پتہ ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ صرف چند مہینوں میں امریکہ میں انڈے پیدا کرنے والی سب سے بڑی کمپنی کارمل فوڈز کی آمدنی میں سال بہ سال 82 فیصد اور منافع میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس کے اسٹاک کی قیمت دگنی ہو گئی ہے- یہ بیل آؤٹ کہاں ہے؟ یہ واضح طور پر سرمایےکا کارنیوال ہے.
حکومت نے “نگرانی کم کرو” کا نعرہ لگایا، اور اس کے نتیجے میں، ضابطے کمزور ہو گئے، اشرافیہ کی جیبیں کھل گئیں، اور لوگوں کی میزیں خالی ہو گئیں۔ ایک طرف جہاں عام خاندان ناشتے کے بارے میں فکرمند ہیں، وہیں امریکی سیاست دان ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں: محکمہ زراعت اپنی کوتاہیوں کا ملبہ سابقہ بائیڈن انتظامیہ پر ڈال رہا ہے. سوشل میڈیا پر لوگوں کی جانب سے”امریکی چکن کو دوبارہ عظیم بنائیں” کے مذاق نےنادانستہ طور پر “امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے” کے بلبلے کو پنکچر کر دیا ہے۔سپر مارکیٹ میں “3 باکس فی شخص” کا نشان نہ صرف امریکی عوام کی روزی روٹی کی حالت زار کی عکاسی کرتا ہے، بلکہ بالادستی کی منطق کے دیوالیہ پن کا ایک زندہ نمونہ بھی ہے۔ اپنے پھٹے ہوئے پرس کو چھوتے ہوئے امریکی عوام کو شاید واشنگٹن سے یہ پوچھنا ہوگا کہ کیا محصولات کے ذریعے تعمیر کی گئی دیوار امریکی مفادات کی حفاظت کر رہی ہے یا یہ خود کو کسی جزیرے میں پھنسا رہی ہے؟ چھوٹے انڈوں کے باعث پیدا ہونے والے اس طوفان نے دنیا کو سمجھایا ہےکہ محصولات کاہتھیار کے طور پر استعمال کرنابالآخر خود کو ہی نقصان پہنچائے گا۔ چھڑی گھمانے والا ہاتھ کبھی بھی انڈوں سے بھری پلیٹ کو مستقل طور پر نہیں پکڑ سکتا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: امریکہ میں
پڑھیں:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف کی جنگ چھیڑ تو بیٹھے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ چین اور جاپان کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی بدولت وہ امریکی ڈالر کی قدر گراسکتے ہیں۔ چین نے ابھی اس ہتھیار کا ایک راؤنڈ ہی فائر کیا ہے اور امریکہ کو جھٹکے لگنا شروع ہوگئے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں سونے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہے کہ پاکستان میں جلد ہی سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ ہو جائے گی۔
یہ کیا معاملہ ہے؟ ڈالر اور سونے کا آپس میں کیا تعلق ہے اور ڈالر کی قدر گرنے اور سونے کی قدر بڑھنے سے امریکی ٹیرف کا کیا تعلق ہے، اسے سمجھنے کے لیے بات بالکل ابتدا سے شروع کرتے ہیں۔
شاید آپ نے سنا ہوگا کہ امریکہ پر اربوں ڈالر کا قرض ہے۔ یا یہ کہ چین کے پاس بہت بڑی مقدار میں ڈالرز موجود ہیں۔
امریکہ نے اربوں ڈالر کا یہ قرض ٹریژری بانڈز بیچ کر حاصل کیا ہے۔ امریکی حکومت کے جاری کردہ ٹریژری بانڈز چین، جاپان سمیت مختلف ممالک نے خرید رکھے ہیں۔ بانڈز خریدنے والے ملکوں کو ان پر منافع ملتا ہے اور یہ منافع امریکی حکومت دیتی ہے۔
جاپان کے پاس سب سے زیادہ امریکی ٹریژری بانڈز ہیں جن کی مالیت 1126 ارب ڈالر بنتی ہے۔ فروری 2025 کے ڈیٹا کے مطابق چین کے پاس 784 ارب ڈالر کے ٹریژری بانڈز تھے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے بھی امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں اور امریکہ سے ان پر منافع لیتے ہیں۔
اس منافع کی شرح حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور کمرشل بینکوں کے شرح منافع سے کم ہوتی ہے۔ نو اپریل کو جب صدر ٹرمپ نے ٹیرف کا اعلان کیا تو یہ شرح 4 اعشاریہ 20 فیصد تھی۔ لیکن ٹیرف کے جھٹکے کے سبب ایک ہفتے میں اس شرح میں 50 بیسس پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا اور یہ 4 اعشاریہ 49 فیصد پر پہنچ گئی۔
امریکی ٹریژری بانڈ کی شرح منافع میں جب بھی 100 بیسس پوائنٹس اضافہ ہوتا ہے امریکہ کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
نئی صورت حال میں امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والوں کی دلچسپی کم ہوگئی تھی اور اس کے نتیجے میں امریکہ کو اس پر زیادہ منافع کی پیشکش کرنا پڑی۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والا کوئی نہ ہو تو ان پر امریکہ کو بہت زیادہ شرح منافع کی پیشکش کرنا پڑے گی اور اگر ٹریژری بانڈز رکھنے والے ممالک انہیں بیچنا شروع کردیں تو نہ صرف امریکہ کو منافع کی شرح مزید بڑھانا پڑے گی بلکہ ڈالر کی قدر بھی گرنا شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ امریکہ ڈالر چھاپ کر ہی بانڈز پر منافع ادا کرتا ہے۔
عالمی منڈی میں ڈالر پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ 20 برس پہلے دنیا میں 70 فیصد تجارت ڈالر سے ہوتی تھی۔ اب صرف 58 فیصد عالمی لین دین ڈالر سے ہوتا ہے۔
امریکہ نہیں چاہتا کہ بانڈز کی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو یا ڈالر کی قدر گرے۔ یا امریکہ کو بانڈز پر بہت زیادہ منافع دینا پڑے۔
اسی لیے صدر ٹرمپ نے چین کے سوا تمام ممالک کیلئے اضافی ٹیرف پر عمل درآمد تین ماہ کیلئے موخر کردیا۔
دوسری جانب امریکہ کا مرکزی بینک ٹریژری بانڈز پر شرح منافع کو زبردستی کم رکھنے کی کوشش کو رہا ہے۔
لیکن یہ کوشش بھی بد اعتمادی کا سبب بن رہی ہے۔
ایسے میں چین نے مزید ٹریژری بانڈز خریدنے کے بجائے سونا خریدنا شروع کردیا ہے۔ پچھلے مسلسل پانچ ماہ سے چین ہر ماہ اپنے ذخائر میں سونے کا اضافہ کر رہا ہے۔
اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی ہوا ہے اور وہاں بھی مرکزی بینک سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھنے لگے ہیں۔
بلوم برگ جیسے ممتاز امریکی مالیاتی ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ڈالر کی جگہ سونا لینے والا ہے۔
ان حالات میں مارکیٹ میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ چین اور جاپان اپنے پاس موجود ٹریژی بانڈز فروخت کریں گے یا نہیں۔
امریکہ میں کئی مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان اور چین کم از کم اعلانیہ طور پر ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں خود بھی نقصان ہوگا۔ ان کے پاس موجود بانڈز کی مالیت بھی کم ہو جائے گی۔
لیکن قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ چین نے 24 ارب ڈالر کے بانڈز فروخت کیے ہیں۔
حقیقت میں چین خاموشی سے اپنے پاس موجود ٹریژری بانڈز کو بیچ رہا ہے۔ 2013 میں چین کے پاس 1350 ارب ڈالر کے امریکی ٹریژری بانڈز تھے جن کی مالیت اب 780 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
لیکن یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس امریکی بانڈز کی مالیت اس سے زیادہ تھی کیونکہ یورپی اکاونٹس استعمال کرتے ہوئے بھی اس نے بانڈز خریدے تھے اور اب چین یہ بانڈز مارکیٹ میں پھینک رہا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق دیگر عالمی سرمایہ کار بھی ڈالر کے بجائے متبادل جگہ سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ کینڈا کا پنشن فنڈ اپنا سرمایہ یورپ منتقل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
ڈالر پر اعتماد ختم ہوا تو اس کی قدر میں لا محالہ کمی ہوگی۔ دوسری جانب سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی سپلائی محدود ہے اور قدر گرنے کا امکان نہیں۔
ڈالر کا استعمال کم ہونے یا De dollarization کے نتیجے میں سونے کی قدر میں اضافہ ناگزیر ہے۔
پاکستان میں سونے کی قیمت پہلے ہی 3 لاکھ 57 ہزار روپے فی تولہ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ ٹیرف جنگ کے دوران عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔
اگر چین اور امریکہ کی ٹیرف جنگ نے طول پکڑا تو سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ پر پہنچتے دیر نہیں لگے گی۔
مزیدپڑھیں:قائد اعظم سے ملاقات کر چکا ہوں، فیصل رحمٰن