بھارت کے بڑی طاقت ہونے کا جھوٹا تاثر ختم ہو گیا، جلیل عباس جیلانی
اشاعت کی تاریخ: 8th, June 2025 GMT
لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ بھارت نے جارحیت کی ہے، پاکستان امن پسند ملک ہے، ہم کافی عرصے سے بھارت کو کہہ رہے تھے کہ مسائل پُرامن طریقے سے حل کیے جائیں، بھارت کی جارحیت پر پاکستان کے جواب سے دنیا میں بھارت کے امیج کو دھچکا لگا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستانی سفارتی وفد کے رکن جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن تمام ممبران کے ساتھ اچھی بات چیت ہوئی، یو این کے سیکرٹری جنرل اور صدر جنرل اسمبلی سے بھی ملاقات ہوئی۔ لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ بھارت نے جارحیت کی ہے، پاکستان امن پسند ملک ہے، ہم کافی عرصے سے بھارت کو کہہ رہے تھے کہ مسائل پُرامن طریقے سے حل کیے جائیں، بھارت کی جارحیت پر پاکستان کے جواب سے دنیا میں بھارت کے امیج کو دھچکا لگا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کافی عرصے سے الزام تراشی کر رہا تھا اب کسی نے بھارت کے بیانیے کو قبول نہیں کیا، بھارت نے کچھ ممالک کو بھی قائل کرنے کی کوشش کہ وہ بڑی طاقت ہے۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا بھارت کے بڑی طاقت ہونے کا جھوٹا تاثر ختم ہو گیا ہے، پاکستان نے بھارت کے 6 جہاز گرائے، سسٹم جام کیا، فوجی تنصیبات کو ہٹ کیا، حالیہ جنگ کے بعد مسئلہ کشمیر پوری دنیا میں عالمی مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔
دریں اثناء پاکستانی سفارتی وفد کی رکن سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ اور مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کے ارکان کے ساتھ بات کی، آج سندھ طاس معاہدہ نظر انداز کیا جاتا ہے تو پھر مستقبل میں کسی معاہدے کی وقعت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں لیکن اس کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے کہا کہ تجارت اور معیشت سے متعلق ٹرمپ کی فلاسفی کے ساتھ وزیرِاعظم شہباز شریف کی فلاسفی میچ کرتی ہے، پاکستان اور بھارت جنگ میں جاتے ہیں تو پورا خطہ متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں ہمیں بہتر رسپانس ملا ہے، پاکستان اس کو سیز فائر کہہ رہا ہے اور بھارت اس کو ایک وقفہ کہہ رہا ہے، آج کشمیر اور سندھ طاس معاہدے کا مسئلہ حل نہ ہوا تو 6 ماہ بعد معاملہ پھر بڑھ جائے گا، ہم چاہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اس معاملے میں کردار ادا کریں تاکہ خطہ جنگ سے متاثر نہ ہو۔
پاکستانی سفارتی وفد کے رکن اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پانی کا معاملہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا ہے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کا یہ خیال تھا کہ ٹرمپ نے سیز فائر کرا دیا مزید مداخلت کی ضرورت نہیں، ہمارا مشن ان کو یہ سمجھانا تھا کہ مداخلت کی ضرورت ہے، بھارت نہ غیر جانبدار انکوائری اور نہ بات کرنا چاہتا ہے۔ خرم دستگیر نے یہ بھی کہا کہ ہم نے یہ بات سمجھائی کہ پانی کے ساتھ 24 کروڑ لوگوں کی زندگی منسلک ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ میڈیا سے گفتگو کہا کہ ہم بھارت کے کے ساتھ
پڑھیں:
ہم اتنے بھی غلط نہیں تھے
ہمارے ہاں یہ رواج بن چکا ہے کہ اپنی قوم پر لعن طعن کی جائے، اپنے ماضی میں غلطیاں نکالی جائیں اور ہر ایک پر کیچڑ اچھالا جائے۔ ایک بات اتنی بار سنی ہے کہ گویا کان پک گئے، ’ ہم نے سب کچھ غلط کیا، ہم بری طرح ناکام ہوگئے۔ پاکستان دنیا بھر میں اکیلا اور تنہا رہ گیا وغیرہ وغیرہ۔‘
بعض سیاہ بخت تو یہ کہتے ہوئے ملک او رقوم کے حوالے سے بہت سخت، درشت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ تان اسی پر توڑی جاتی ہے،’ ہم ایک قوم بن ہی نہیں سکے، بکھرا ہوا،منتشر ہجوم ہیں، ریاست بھی ناکام ہوگئی اورقوم بھی۔ ‘
کیا واقعی ایسا ہے؟
کیا واقعی پاکستانی ریاست نے اپنے قومی سفر میں کوئی درست فیصلہ نہیں کیا؟
اگر سنجیدگی کے ساتھ، غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو جواب مایوس کن نہیں۔ یہ درست ہے اور سو فی صد درست ہے کہ آج ہمیں جہاں ہونا چاہیے تھا، وہاں نہیں ہیں۔ ہمارے دامن میں ناکامیاں ہیں اور انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری اکانومی کمزور اور ادارے روبہ زوال ہیں۔سماج میں مذہبی شدت پسندی اور عدم برداشت بھی بڑھی ہے، اس پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ ہمیں مثبت جمہوری روایات مستحکم کرنے کی ضرورت ہے،اپوزیشن کو سپیس دی جائے، رول آف لا قائم کیا جائے اور ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے تو بہت کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
ایک بڑا اہم پہلو جو پچھلے تین چار ہفتوں میں سامنے آیا ہے، وہ ہمارا دفاع اور ہماری خارجہ پالیسی ہے۔پاکستان ایک بڑے چیلنج سے دوچار ہوا، دشمن بڑی بے رحمی اور بے پناہ وحشی قوت کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہوا۔یہ ٹیسٹ کیس تھا۔ ہمارا دفاعی نظام، ہمارے عسکری ادارے اس میں سرخرو ہوئے۔ اندازہ ہوا کہ ہمارا دفاع محفوظ ہاتھوں میں تھا۔ ہمارے ہتھیار کم قیمت ہونے کے باوجود زیادہ بہتر ثابت ہوئے، ہمارے پائلٹ، ہمارے انجینئرز، منصوبہ ساز، افسر اور جوان سب کے سب اپنی صلاحیتوں، جذبے اور کمٹمنٹ کی انتہائی اعلیٰ سطح پر پائے گئے۔ یہ نہایت خوش آئند بات ہے۔
سب سے بڑھ کر ہماری خارجہ پالیسی کامیاب ثابت ہوئی۔ ہمارے منفی سوچ رکھنے والے دانشور، لکھاری، تجزیہ کار پاکستانی خارجہ پالیسیوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان دنیا میں تنہا اور لاچار ہوچکا تھا۔ اچانک ہی اندازہ ہوا کہ پاکستان دنیا بھر میں قابل اعتماد بہترین دوستوں سے گھرا ہے، جنہوں نے مشکل وقت میں اس کا ہاتھ پکڑا اور بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اصل میں تو دنیا بھر میں تنہا، لاچار اور فرسٹریٹ ہمارا ازلی دشمن ملک ہوا ہے جسے اپنی خارجہ پالیسی پر بڑا ناز تھا، اب ہر جگہ سے پسپائی اس کا مقدر بن چکی۔
اگر کوئی دیانت داری سے تجزیہ کرے تو یہ بھی ماننا ہوگا کہ ریاست پاکستان نے ہمیشہ غلط فیصلے نہیں کیے۔کئی نازک امور پر نہایت سلیقے سے آگے بڑھا گیا، جن کے ثمرات ہمیں ملتے رہے۔ ہمارے ہاں لیفٹ کے دانشور اور لکھنے والے ہمیشہ یہ لکھتے اور کہتے آئے ہیں کہ لیاقت علی خان نے دورہ سوویت یونین کی دعوت مسترد کر کے امریکا کا دورہ کیا اور یوں ایک غلط انتخاب کیا۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یقیناً یہ بات صدمے کا باعث ہوگی کہ پاکستانی قیادت نے سوویت یونین کا انتخاب نہیں کیا اور اس کے بجائے مغربی بلاک کا حصہ بنناپسند کیا، مگر آج وہ 70 سال پہلے کا فیصلہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے، جب سوویت یونین نام کا ملک دنیا کے نقشے سے غائب ہوچکا، لیفٹ بلاک شکست سے دوچار ہوا اور روس حامی ممالک میں سے اکثر کے پاس امریکا اور مغرب کے پاس لوٹنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں بچی۔ پاکستان کا فیصلہ درست تھا، اس کے فوائد بھی حاصل ہوئے، اگرچہ امریکا کے ساتھ ہمارا تعلق اتار چڑھاؤ کا شکار رہا، مگر اس کی بڑی وجہ ہماری ضرورت سے زیادہ توقعات تھیں۔ عالمی تعلقات میں ہر کوئی اپنے مفادات کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔
ویسے ایمانداری کی بات تو یہ بھی ہے کہ اگر ایک وقت میں امریکا نے ہمیں استعمال کیا تو بعد میں ہم نے بھی امریکا جیسی سپر پاور کو نہایت ہوشیاری کے ساتھ اپنے مفاد میں استعمال کیا۔ اسی (1980)کے عشرے میں افغان تحریک مزاحمت کے دوران اگر پاکستانی عسکری قیادت اس موقع کو استعمال کر کے ایٹم بم نہ بنا لیتی تو بعد میں یہ موقع قطعی طور پر نہیں ملنا تھا۔ بعد کے برسوں میں جن مسلم ممالک نے ایسی کوشش کی، سب کو ناکامی ہوئی۔
ایران کا آج امریکا اور یورپ نے جس طرح گھیرا تنگ کر رکھا ہے اور اسے ایٹمی پروگرام آگے نہیں بڑھانے دے رہے، اس کے بعد تو ہمیں بطور قوم اپنے ان محسنوں کا شکرگزار ہونا چاہیے جنہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد ڈالی۔ ایٹمی پروگرام کامیاب بنایا، ایٹم بم بنا اور پھر کامیاب تجربات کیے۔ یوں پاکستان نیوکلیئر قوت بن گیا۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے دو تین بڑے اہم بنیادی فیصلے 60 کے عشرے میں کیے گئے۔
امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات اور چین کے لیے تب امریکا کی شدید ناپسندیدگی کے باوجود پاکستان نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے جو بتدریج اسٹریٹجک پارٹنرشپ میں بدل گئے۔ چین کا بطور دوست انتخاب پاکستانی منصوبہ سازوں کی اچھی سلیکشن کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس پالیسی کو ایوب خان سے بھٹو اور جنرل ضیا الحق سے بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، پرویز مشرف اور آصف زرداری، عمران خان تک ہر ایک نے آگے بڑھایا بلکہ اس میں کچھ نئے رنگ شامل کرنے کی کوشش کی۔ چین کے ساتھ پاکستان کا فوجی اور دفاعی اشتراک بہت ہی درست اور دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ پاکستان نے چینی ہتھیاروں، ٹیکنالوجی پر بھروسہ کیا اور اب یہ ثابت ہوگیا کہ ہم نے اپنے انڈے ایک ٹھیک اور مضبوط ٹوکری میں رکھے تھے۔
اسی طرح 60 کے عشرے ہی سے دوست مسلمان ممالک کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم کیے، سعودی عرب، عرب امارات، کویت اور بحرین وغیرہ کے ساتھ قربت کا ایسا تعلق قائم ہوا، جسے بعد میں تواتر سے جاری رکھا گیا۔ سعودی عرب کے ساتھ ہر پاکستانی حکمران نے تعلق برقرار رکھا بلکہ اس میں گہرائی لانے کی کوشش کی۔
کمال دانش مندی یہ برتی گئی کہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات ایران کی قیمت پر قائم نہیں رکھے گئے۔ ایران عراق جنگ میں عرب بلاک کے تمام تر دبائو کے باوجود پاکستان نہ صرف غیر جانبدار رہا، بلکہ ایران کے ساتھ خوشگوار تعلقات بھی برقرار رکھے گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پالیسی اس شخص نے اپنائی جو آج پاکستانی تاریخ کے متنازع ترین کرداروں میں سے ایک ہے، …جنرل ضیا الحق۔
پاکستان کے ایران کے ساتھ کچھ مسائل بھی رہے، گاہے تلخی بھی در آئی مگر پاکستان ایران کے خلاف عالمی یا کسی ریجنل گٹھ جوڑ کا حصہ نہیں بنا۔ افغانستان البتہ تاریخ کے مختلف ادوار میں درد سر بنا رہا۔ پچھلے 70 برسوں میں سکون کے چند برس ہی میسر آئے۔ کیا ملا، کیا اینٹی ملا، کیاشاہ اور کیا کمیونسٹ، کم وبیش ہر ایک نے پاکستان کو کسی نہ کسی طرح ٹف ٹائم ہی دیا۔
مسلم دنیا کے دیگر ممالک پر نظر ڈالی جائے اور پھر پاکستان کو دیکھا جائے تو دو باتیں تسلیم کرنا پڑیں گی۔ ہمارے فیصلہ سازوں نے لچکدار رویہ اپنایا اور عالمی قوتوں کے ٹکراؤ میں اپنے لیے بہتر دوستوں کا انتخاب کیا، بدلتے حالات میں اپنے دفاع کو مضبوط کیا اور غیر ملکی امداد سے مسلم دنیا کی سب سے بہتر، منظم اور پروفیشنل فوج تیار کر لی۔ آج اس کا فائدہ کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ الحمداللہ ہم اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور اقوام عالم میں سربلند بھی ہوچکے۔
پاکستانی عوام میں مزاحمت کی جو سطح ہے، جس طرح بری گورننس، آفات، خراب معیشت اور اندرونی وبیرونی دہشتگردی کے عفریت سے یہ نبرد آزما رہی، اس کی مثال مسلم دنیا میں کم ہی نظر آتی ہے۔ہمارے اندر خامیاں بھی بہت سی ہیں، بڑھتی کرپشن، اداروں کے زوال، سیاستدانوں کی قلابازیوں، اسٹیبلشمنٹ کی بار بار مداخلت درست نہیں۔
ہمیں اپنے آپ کو بہتر بنانا ہے، اپنی غلطیوں، خامیوں کو دور کرنا ہے۔ سب کچھ مگر ہم غلط نہیں کرتے رہے، کچھ فیصلے ہم نے درست بھی کیے ہیں۔ ہماری تاریخ اور ماضی میں سب سیاہ نہیں۔ روشن، جگمگاتے ابواب بھی موجود ہیں۔ ان سب کا ذکر ہونا چاہیے۔ اپنااحتساب بے رحمی سے کیا جائے، مگر ایسا کرتے ہوئے انصاف ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
عامر خاکوانی