یوکرین جنگ بندی مذاکرات: امریکہ اور روس کی توقعات مختلف
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مارچ 2025ء) وائٹ ہاؤس یوکرین اور روس کے درمیان جنگ میں 20 اپریل تک ایک وسیع جنگ بندی پر زور دے رہا ہے۔ 20 اپریل کو اس سال مغربی اور آرتھوڈوکس دونوں عقائد کے مسیحیوں کا ایسٹر نامی مذہبی تہوار منایا جائے گا۔ تاہم بلومبرگ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق کییف اور ماسکو کے موقف میں موجود وسیع خلا کے مدنظر مجوزہ تاریخ آگے بڑھ سکتی ہے۔
سعودی عرب میں مذاکرات میں ’پیش رفت‘ کی امید ہے، ماسکو
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تین سال پرانی اس جنگ کے فوری خاتمے کے لیے کوشاں ہیں، جس کے لیے امریکی حکام ریاض میں روسی اور یوکرینی نمائندوں کے ساتھ الگ الگ بات چیت کر رہے ہیں۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ اس طرح کی پہلی بات چیت ہے۔
(جاری ہے)
مذاکرات اصل میں شٹل ڈپلومیسی کو فعال کرنے کے لیے بیک وقت ہونے والے تھے، لیکن دونوں متحارب فریقوں نے عارضی جنگ بندی کے لیے مختلف منصوبے تجویز کیے، جب کہ حملے بھی بلا روک ٹوک جاری ہیں۔
امریکہ کو امید ہے کہ وفود کے درمیان بار بار ملاقاتوں سے کسی پیش رفت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔یوکرین بھی جزوی جنگ بندی پر راضی
وزیر دفاع رستم عمروف کی قیادت میں یوکرینی ٹیم اور امریکیوں کے درمیان بات چیت اتوار کی رات دیر گئے ختم ہوئی۔ عمروف نے سوشل میڈیا پر کہا، ''بات چیت نتیجہ خیز اور مرکوز تھی- ہم نے توانائی سمیت اہم نکات پر توجہ دی۔
‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین ایک ''منصفانہ اور دیرپا امن‘‘ کے اپنے ہدف کو حقیقت بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔یوکرین نے پہلے کہا تھا کہ توانائی کی تنصیبات اور اہم بنیادی ڈھانچے کے تحفظ کی تجاویز ایجنڈے میں شامل ہوں گی۔
قوم کے نام اپنے ایک خطاب میں، یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا، ''صرف روس ہی اس جنگ کو طول دے رہا ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ کیا بات کرتے ہیں، ہمیں پوٹن کے حملوں کو روکنے کے لیے ایک حقیقی حکم دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ جس نے یہ جنگ مسلط کی، اسے ہی اس کو واپس لینا چاہیے۔‘‘
صدر زیلنسکی نے اپنے ملک کے اتحادیوں پر بھی زور دیا کہ وہ روس پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالیں۔
انہوں نے کہا، ''ان حملوں اور اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے ماسکو کے خلاف نئے فیصلوں اور نئے دباؤ کی ضرورت ہے۔‘‘ روسی امریکی مذاکراتامریکہ اور روس کے درمیان بات چیت پیر کو طے ہے۔ روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق ماسکو کا وفد اتوار کو ریاض پہنچ گیا۔
اس دوران امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے امید ظاہر کی کہ کوئی بھی معاہدہ ''مکمل‘‘ جنگ بندی کی راہ ہموار کرے گا۔
انہوں نے کہا، ''مجھے لگتا ہے کہ آپ پیر کو سعودی عرب میں کچھ حقیقی پیش رفت دیکھنے جا رہے ہیں، خاص طور پر اس لیے بھی کہ اس جنگ بندی سے دونوں ممالک کے درمیان بحیرہ اسود میں بحری جہازوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اس کے بعد فطری طور پر آپ ایک مکمل جنگ بندی کی امید کرسکتے ہیں۔‘‘
لیکن کریملن نے اتوار کے روز تیز رفتار حل کی توقعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت ابھی شروع ہوئی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روس کے سرکاری ٹی وی کو بتایا، ''ہم نے اس راستے پر ابھی صرف پہلا قدم رکھا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ممکنہ جنگ بندی کو کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے، اس حوالے سے بہت سے سوالات موجود ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے 30 دن کی مکمل اور فوری جنگ بندی کے لیے امریکہ اور یوکرین کے مشترکہ مطالبے کو مسترد کر دیا ہے، اس کے بجائے صرف توانائی کی تنصیبات پر حملوں کو روکنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں پیسکوف نے کہا، ''آئندہ مذاکرات مزید مشکل ہوں گے۔‘‘ٹرمپ کی قیادت میں واشنگٹن کے ساتھ مفاہمت کے بعد، جس سے کریملن کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، ماسکو سعودی مذاکرات کی طرف بڑھ رہا ہے۔
پیسکوف نے اتوار کے روز کہا، ''ہم کچھ چیزوں پر اختلاف کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود کو باہمی فائدے سے محروم رکھیں۔
‘‘ ماسکو کا بحیرہ اسود کا ایجنڈاماسکو نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس کی بات چیت میں ''اہم‘‘ توجہ 2022 کے بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے کی ممکنہ بحالی ہو گی، جس نے بحیرہ اسود کے راستے یوکرینی زرعی برآمدات کے لیے محفوظ راستے کو یقینی بنایا۔ پیسکوف نے کہا، ''پیر کے روز ہم بنیادی طور پر صدر پوٹن کے بحیرہ اسود کے اقدام کو دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے پر بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور ہمارے مذاکرات کار اس مسئلے کی باریکیوں پر بات کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
‘‘ماسکو، ترکی اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے اس معاہدے سے 2023 میں دستبردار ہو گیا تھا۔ اس نے مغرب پر الزام لگایا تھا کہ وہ روس کی زرعی پیداوار اور کھادوں کی اس کی برآمدات پر پابندیوں کو کم کرنے کے اپنے وعدوں کو برقرار رکھنے میں ناکام رہا تھا۔
یوکرین کے ایک سینئر اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو پہلے بتایا تھا کہ کییف ایک وسیع جنگ بندی کی تجویز پیش کرے گا، جس میں توانائی کی تنصیبات، بنیادی ڈھانچے اور بحری حملوں کا احاطہ کیا جائے گا۔
مذاکرات سے پہلے ڈرون حملےریاض مذاکرات کے موقع پر دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر تازہ ڈرون حملے کیے ہیں۔ یوکرینی حکام نے بتایا کہ روسی ڈرون حملوں میں کییف میں تین شہری ہلاک ہوئے، جن میں ایک پانچ سالہ بچی اور اس کے والد بھی شامل ہیں۔ یوکرین کی فضائیہ نے کہا ہے کہ روس نے تازہ حملوں میں یوکرین کی طرف 147 ڈرونز داغے۔
اس دوران روس نے کہا کہ اس نے گزشتہ رات تقریباً 60 یوکرینی ڈرونز کو ناکام بنا دیا۔
حکام نے بتایا کہ روس کے جنوبی علاقے روستوف میں ایک شخص اس وقت ہلاک ہو گیا، جب اس کی کار ڈرون کا ملبہ گرنے سے جل گئی، اور بیلگورود کے سرحدی علاقے میں بھی ایک خاتون ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئی۔دریں اثنا یوکرینی فوج نے کہا کہ اس نے مشرقی یوکرینی علاقے لوگانسک میں ایک چھوٹے گاؤں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے، جو کییف کی افواج کے لیے میدان جنگ میں ایک اہم کامیابی ہے۔
ادارت : مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے درمیان انہوں نے کے ساتھ بات چیت کرنے کے میں ایک روس کے رہا ہے کے لیے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
ترک و مصری وزرائے خارجہ کا رابطہ، غزہ کی صورتحال پر تشویش اور فوری جنگ بندی پر زور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: ترک وزیر خارجہ حکان فدان اور ان کے مصری ہم منصب بدر عبدالطیف کے درمیان غزہ کی صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
ترک سفارتی ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ایک ٹیلی فونک گفتگو میں نہ صرف فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر تبادلہ خیال کیا بلکہ باہمی تعلقات اور خطے کے دیگر اہم امور پر بھی بات کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فدان اور عبدالطیف نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے باعث پیدا ہونے والے انسانی المیے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ عالمی برادری فوری طور پر کردار ادا کرے تاکہ فلسطینی عوام کو مزید جانی اور مالی نقصان سے بچایا جاسکے، دونوں وزرائے خارجہ نے انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی اور امدادی سامان کی بلا رکاوٹ ترسیل پر بھی زور دیا۔
ترکی اور مصر کے درمیان اس اہم رابطے کو خطے میں جاری بحران کے تناظر میں خصوصی اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ دونوں ممالک ماضی میں فلسطینی عوام کی حمایت اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ اس تمام صورتحال میں یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ غزہ میں امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کررہے ہیں اور عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ مسلم حکمران بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔