آئی پی ایل: ہربھجن سنگھ کے جوفرا آرچر کیخلاف نسلی ریمارکس پر تنازع
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
سابق بھارتی اسپنر ہربھجن سنگھ انگلش فاسٹ بولر جوفرا آرچر کیخلاف نسلی ریمارکس پر تنازع میں پھنس گئے۔
اتوار کو سن رائزرز حیدرآباد اور راجستھان رائلز کے درمیان ہونے والے میچ کے دوران انڈین پریمیئر لیگ کے کمنٹیٹر ہربھجن سنگھ نے انگلش فاسٹ بولر جوفرا آرچر کے بارے میں نسلی تعصب پر مبنی الفاظ استعمال کیے۔
ہربھجن سنگھ نے دورانِ کمنٹری کہا کہ لندن میں کالی ٹیکسی کا میٹر تیز بھاگتا ہے اور یہاں پر آرچر صاحب کا میٹر بھی تیز بھاگا ہے۔
یہ بیان سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان آگیا اور کئی صارفین نے ہربھجن سنگھ پر نسلی تعصب کا الزام عائد کرتے ہوئے ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: جوفرا آرچر نے آئی پی ایل کی تاریخ کا مہنگا ترین اسپیل کروا دیا
ایک صارف نے لکھا کہ یہ شرمناک اور ناقابلِ قبول ہے، ہربھجن سنگھ کو فوری طور پر کمنٹری پینل سے معطل کرنا چاہیے۔
ایک اور صارف نے کہا کہ آئی پی ایل جیسے بڑے ایونٹ میں اس قسم کے بیانات کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
سوشل میڈیا پر شدید تنقید اور ردعمل کے باوجود ہربھجن سنگھ نے اب تک اس معاملے پر کوئی وضاحت یا معذرت پیش نہیں کی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز راجستھان رائلز کیخلاف میچ میں سن رائزرز حیدرآباد نے 286 رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا، جو آئی پی ایل کی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا اسکور تھا۔
ایشان کشن اور ٹریوس ہیڈ کی شاندار بیٹنگ کی بدولت یہ اسکور ممکن ہوا۔ دوسری جانب راجستھان رائلز 242 رنز بنا کر ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
جوفرا آرچر کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی، انہوں نے 4 اوورز میں 76 رنز دیے اور ایک بھی وکٹ حاصل نہ کر سکے، انکا یہ اسپیل آئی پی ایل کی تاریخ کا مہنگا ترین اسپیل ثابت ہوا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہربھجن سنگھ پی ایل
پڑھیں:
جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-6
سید آصف محفوظ
پاکستان کی سیاسی اور فکری تاریخ میں جماعت ِ اسلامی ہمیشہ ایک اصولی اور نظریاتی تحریک کے طور پر نمایاں رہی ہے۔ یہ محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک فکری و اخلاقی مدرسہ ہے۔ جس کا نصب العین دینِ اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں غالب کرنا ہے۔
قیام اور نظریاتی بنیاد: 26 اگست 1941ء کو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ اْس وقت برصغیر میں آزادی کی تحریکیں عروج پر تھیں، مگر مولانا مودودی نے ان سب سے ہٹ کر ایک نیا زاویہ فکر پیش کیا: ’’اسلامی انقلاب‘‘۔ ان کے نزدیک سیاست، معیشت، اخلاق اور سماج سب کچھ اسلام کے تابع ہونا چاہیے۔ یہی فکر آگے چل کر جماعت ِ اسلامی کے منشور اور تحریک کی اساس بنی۔
تحریک سے جماعت تک: قیامِ پاکستان کے بعد جماعت اسلامی نے نئے ملک کو ’’نعمت ِ الٰہی‘‘ قرار دیا اور اس کے نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی جدوجہد شروع کی۔ تعلیمی ادارے، فلاحی تنظیمیں، مزدور و طلبہ ونگ؛ سب اسی فکر کے عملی مظاہر ہیں۔ یہ جماعت ہمیشہ ایک متوازن اور باوقار آواز کے طور پر ابھری۔ آمریت کے خلاف، بدعنوانی کے مقابل، اور آئین میں اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے۔
قیادت کا تسلسل: سید مودودیؒ سے میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ، سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن تک جماعت کی قیادت نے نظریے کو وقت کے تقاضوں کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھایا۔ یہ قیادت محض سیاسی نہیں بلکہ فکری و تربیتی بھی ہے۔ جماعت ہمیشہ کردار کو اقتدار پر مقدم رکھتی آئی ہے۔
اجتماعِ عام 2025: حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ جماعت اسلامی کا اجتماعِ عام 21 تا 23 نومبر 2025ء کو مینارِ پاکستان، لاہور میں منعقد ہوگا۔ موضوع ہے: ’’بدل دو نظام‘‘ جو محض نعرہ نہیں بلکہ ایک عزم کا اظہار ہے۔ یہ اجتماع پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی بحران کے پس منظر میں اسلامی نظامِ عدل و انصاف کی طرف دعوت ہے۔
مقاصدِ اجتماع: 1۔ عوام میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا شعور بیدار کرنا۔ 2۔ نوجوانوں کو زمانے کے بدلتے حالات تعلیم، قیادت اور اخلاقی کردار کے لیے تیار کرنا۔ 3۔ پرامن، منظم اور اصولی جدوجہد کی راہ دکھانا۔ 4۔ آئینی و جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے نظامِ زندگی کی اصلاح۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنان اس اجتماع کی تیاری میں مصروف ہیں۔ ہر ضلع، ہر یونٹ، ہر ونگ اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کارکنوں کے مطابق یہ اجتماع محض ایک سیاسی اجتماع نہیں بلکہ ’’تحریکی تجدید‘‘ ہے، جہاں نظریہ، تنظیم، اور عوامی رابطہ تینوں کا حسین امتزاج دکھائی دے گا۔
جماعت اسلامی کی پوری تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ یہ وقتی مفادات نہیں، اصولوں کی سیاست کرتی ہے۔ اجتماعِ عام ’’بدل دو نظام‘‘ اسی تسلسل کی نئی کڑی ہے۔ ایک اعلان کہ تبدیلی تب آتی ہے جب ایمان، کردار اور قیادت ایک سمت میں چلیں۔ ممکن ہے کہ نومبر 2025 کا یہ اجتماع پاکستان کی سیاست میں ایک نیا باب رقم کرے، وہ باب جہاں سیاست نظریے کی بنیاد پر ہو، نہ کہ مفاد کی۔