معیاری بیج کی فراہمی سے ملک میں زرعی انقلاب لایا جاسکتا ہے، وزیراعظم شہبازشریف
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اسلام آباد:وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور کسانوں کو معیاری بیج کی فراہمی سے ملک میں زرعی انقلاب لایا جاسکتا ہے جب کہ آج بھی پاکستان کی آبادی کا تقریباً 65 فیصد حصہ دیہاتوں میں زندگی گزار کر پاکستان کے لیے اناج پیدا کرتا ہے۔
پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) میں جدید ایرو پانکس طریقے سے کاشت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پی اے آر سی میں زرعی ترقی کے لیے کام ہورہا ہے، یقین ہے آپ کی محنت کی بدولت زراعت ترقی کرے گی، آلو کے بیچ سے متعلق جمہوریہ کوریا کے تعاون سے ادارہ قائم کیا گیا ہے، آلو کے بیج کے حوالے سے ادارے کے قیام پر جمہوریہ کوریا کے مشکور ہیں، جمہوریہ کوریا مضبوط معیشت والا ملک ہے، مختلف شعبوں میں کوریا کے ساتھ شراکت داری چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسان دن رات محنت کرتا ہے اور اسے آج انہیں بہترین بیج، کھاد، اصل ادویات کی ضرورت ہے، اگر وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر کسانوں کو یہ اشیا مناسب قیمتوں پر مہیا کردے تو مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے اندر دوبارہ ایک ذرعی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہماری آبادی کا 65 فیصد دیہات میں زراعت سے منسلک ہے، ہمارا محنتی اور قابل کسان بہترین بیج کی فراہمی سے پیداوار میں اضافہ کرے گا کیوں کہ اللہ نے پاکستان کو بہت زرخیز زمین دی ہے اور انہیں بہترین ماحول فراہم کیا گیا تو اگلے چند سالوں میں ملکی زراعت اتنی توانا ہوجائے گی کہ ملکی ضروریات بھی پوری ہوں گی اور ایکسپورٹ کے لیے سرپلس بھی مہیا ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ بہترین بیج، کھاد اور معیاری ادویات کی بروقت فراہمی سے زرعی انقلاب آئے گا، زرعی گریجویٹس کو زرعی شعبے میں کام کرنے کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنا ہے، ایک زمانے میں پاکستان میں تقریباً 16 ملین کاٹن کی بیلز کے قریب پہنچ گئے تھے اور آج کاٹن کی پیداوار بہت کم ہے اور ہم اربوں ڈالر خرچ کرکے کاٹن امپورٹ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کاٹن میں بھی ہماری ہمسایہ ہم سے آگے نکل گیا اور ہم کمشکش میں رہے اور 20، 25 سال سے کوئی معاہدہ نہیں کرسکے، اگر کوئی رسک تھا تو وہ لے لیتا تاکہ آج پاکستان کے اندر کاٹن کی پیداوار بہت بہتر ہوجاتی یا پھر اس کا متبادل ہم لے آتے، چین میں آج اس طرح کی سکت موجود ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہی حال، گنے کی پیداوار کا ہے جس میں دیگر ممالک بہت آگے نکل گئے لیکن ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں، اس پر ہمیں اپنے کسانوں، ایکسپرٹس کو دعائیں دینی چاہیے جن کی محنت سے یہ معاملہ آج چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو زراعت کو چار چاند لگائیں گے تو لوگ آپ کو ہاتھوں میں اٹھائیں گے کیوں کہ اسی میں پاکستان کی معیشت بہتر ہوگی۔
شہباز شریف نے کہا کہ سرگودھا پاکستان کا کیلی فورنیا ہے، محنت کریں، اب ماضی پر رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں، ایک ہزار گریجوایٹس کو میرٹ پر چین بھجوارہے ہیں، یہ گریجوایٹس واپس آکر کسان کا ساتھ دیں، ہم آئل امپورٹ کرنے پر4 ارب ڈالرزکا ذرمبادلہ ضائع کررہے ہیں، لائیواسٹاک میں بھی بے پناہ پوٹینشل ہے، ہم نے اپنی زراعت کی قسمت بدلنی ہے، عید کے بعد نوجوان اور تجربہ کاروں کو ساتھ بٹھائیں گے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فراہمی سے نے کہا کہ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
جعلی بیج زراعت اور کلائیمیٹ چینج
جی آپ نے درست سنا کہ 19 جولائی کو حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بیج فراہم کرنے والی 400 کمپنیوں کے لائسنس معطل کر دیے گئے ہیں۔ یہ اقدام زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ کمپنیاں کسانوں کو جعلی بیج فراہم کرنے میں ملوث پائی گئیں۔ کسان ان کمپنیز کے بیجوں پر بھروسہ کرتے تھے لیکن اب یہ سن کر زمین اور کسان دونوں کو جھٹکا لگا ہوگا۔ زمین کے نیچے سے زمین سرک گئی ہوگی اور کسان کے سر پر سے سایہ چھن گیا ہوگا۔
جن کمپنیز پر آسرا کیا ہوا تھا معلوم ہوا کہ یہ وہی بیج ہیں جو مٹی میں جب مل جاتے تو ان بیجوں کی ناکامی سے زمین بانجھ ہو جایا کرتی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ جتنے بیج استعمال ہو رہے تھے اس کا نصف جعلی بیج کہلاتے تھے لیکن کسانوں کو کیا معلوم اور زمین خاموشی سے یہ ظلم کب سے سہے جا رہی تھی۔
ہر سال فی ایکڑ پیداوار میں کمی بھی ہو رہی تھی تو اس کا الزام ماہرین زراعت سے لے کر کسان اور کالم نگار سب بیج کے علاوہ دیگر امور کو مورد الزام ٹھہراتے۔ کسان ہر سال زمین کی تیاری پر پہلے سے زیادہ محنت کرتا، پانی ڈالتا، راتوں کو اٹھ اٹھ کر پانی کی باری لگاتا، خوب محنت و مشقت کرتا رہا لیکن جب فصل کم ہوتی تو پانی کی کمی کا رونا، کبھی زمین کی زرخیزی کی شکایت۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ کمپنیاں سالہا سال سے جعلی بیج زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں بیچ رہی تھیں۔ جس کے نتیجے میں کم پیداوار اور ملک کی مجموعی پیداوار میں زبردست کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
چند سالوں سے اب کلائیمیٹ چینج کا کاندھا بازار میں دستیاب ہے، جعلی بیج بونے کے بعد پیداوار میں کمی کا رونا رونے کے لیے موسمی تبدیلی کے کندھے پر سر رکھ کر رو لیتے ہیں۔ ٹھیک ہے کلائیمیٹ چینج کے اثرات اپنی جگہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن موسمی تبدیلی کو خواہ مخواہ دھر لینے کا فیشن بھی چل نکلا ہے۔
اس کی آڑ میں وہ جعلی بیج فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنا دامن بچائے جا رہی تھیں۔ حکومت کو دیر بلکہ بہت زیادہ دیر سے معلوم ہوا کہ اصل مجرم تو یہ ناقص بیج ہیں جو زمین میں مل کر دھرتی کو خون کے آنسو رلا دیتے ہیں۔ اصلی کھاد ہاتھ جوڑ لیتی کہ آپ کے کیے دھرے کا الزام اب میرے سر لگے گا۔ بات کچھ یوں ہے کہ جعلی کھاد بھی دستیاب ہے جو کم دام میں مل جائے اور جب جعلی بیج اور جعلی کھاد مل کر کھیتوں میں خوب دھما چوکڑی مچاتے ہیں کہ اس جرم کے پیچھے ہر کوئی موسمیاتی تبدیلی کا ذکر لے بیٹھتا ہے۔ بات مکمل نہیں ہوتی جب تک مثلث کو مکمل نہ کیا جائے۔ حیران نہ ہوں کسان بھائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیسے بچانے کی خاطر سستی ادویات کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
اب تینوں جب مل جاتے ہیں تو نتائج کا ذمے دار آج کل صرف اور صرف کلائیمیٹ چینج کو قرار دیا جاتا ہے اب یہ حقیقت بھی بنتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کلائیمیٹ چینج کے اثرات ہیں جو زمین کی اداسی کو بڑھا رہی ہے اسے گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ زمین ان اثرات کے زیر اثر بہے چلی جا رہی ہے اور کھوکھلی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جس طرح جعلی بیجوں کا خیال حکومت کو 15 سے 20 سال کے بعد آیا اسی طرح کچھ نہ کچھ اب موسمیاتی تبدیلی کا خیال بھی آ ہی گیا ہے لیکن اسے ایک فی صد کہہ سکتے ہیں۔
اسی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث چکوال میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تھا۔ 450 ملی میٹر بارش ہوئی۔ نصف درجن سے زائد ڈیمز ٹوٹ گئے۔ پورے شہر میں اور ارد گرد کے مختلف گاؤں دیہاتوں میں لوگوں کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ اس کلائیمیٹ چینج کے اثرات زمینوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں چند ایک تنظیمیں ہیں جو اس پر کام کر رہی ہیں بلکہ ملک کے ایک نام ور ماہر کلائیمیٹ چینج جناب مجتبیٰ بیگ اپنے ذاتی وسائل اور قیمتی وقت خرچ کرکے کلائیمیٹ جرنلسٹ تیار کر رہے ہیں جوکہ موسمیاتی تبدیلی کے برے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہر اول دستے کا کام کریں گے۔
اب زراعت کو بچانے کے لیے بھی کلائیمیٹ چینج کے اثرات کم کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ اب پاکستان کی زراعت کو جعلی بیجوں، جعلی کھاد اور جعلی ادویات کے ساتھ ساتھ کلائیمیٹ چینج کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے جعلی بیجوں کے سلسلے میں 400کمپنیوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح اب جعلی کھاد کے علاوہ جب کھاد کا سیزن ہوتا ہے تو اصلی کھاد چھپا لی جاتی ہے۔ کئی عشرے قبل یہ کام ذخیرہ اندوز کیا کرتے تھے۔ وہ لالچ کے تحت معمولی منافع کے عوض پھر کھاد فروخت بھی کر دیتے تھے۔
اسی طرح جعلی ادویات کا اسٹاک ختم ہوتا تو مارکیٹ میں اصلی ادویات تھوڑے مہنگے داموں فروخت کر دیتے۔ اب بات ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھ سے نکل کر مافیا کے ہاتھ آ گئی ہے۔ جو انتہائی ذہانت، مہارت اور سائنسی انداز میں بڑے کیلکولیشن کے ساتھ مارکیٹ پر قبضہ کرتے ہیں اور سائنسی اصولوں کے تحت بڑی ذہانت کے ساتھ اپنے حق میں نتائج حاصل کرتے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے حکام کے پاس کار سرکار کے ہزاروں کام ہوتے ہیں، ان کا ایک ایک منٹ ، ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہوتا ہے اور اب موسمیاتی تبدیلی کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے لہٰذا اتنا وقت نہیں ہوتا کہ توجہ دی جائے لہٰذا جب تک زراعت کو ترجیح نہیں دی جائے گی اسی طرح جعلی بیج ادویات کھاد مہنگی ہو کر ملتی رہیں گی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کسانوں اور شہروں میں شہریوں تک سب کو شدید متاثر کرتے رہیں گے۔ لہٰذا موسمیاتی تبدیلی کو بھی ترجیحات میں شامل کیا جائے اور اس کے لیے فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔