کشمیر میں عسکریت پسندی عوامی حمایت کے بغیر ختم نہیں ہو سکتی ہے، عمر عبداللہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی نے کہا کہ آپریشن سرحدی گاؤں میں ہورہا ہے اور یہ ممکن ہے کہ عسکریت پسند سرحد پار سے آئے ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے پیر کے روز کہا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندوں کو عوام کی حمایت کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت یونین ہوم منسٹری کے ساتھ تعاون کر رہی ہے تاکہ یونین ٹیریٹری میں سکیورٹی کی صورتحال پُرامن رہے۔ جموں کشمیر اسمبلی کے باہر جموں میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلٰی نے کہا کہ اگرچہ سکیورٹی براہ راست ہماری ذمہ داری نہیں ہے، لیکن میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ عسکریت پسندی کو عوام کی حمایت کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
عمر عبداللہ نے دعویٰ کیا کہ منتخب حکومت صورتحال کو قابو میں رکھنے اور امن قائم رکھنے کے لئے لیفٹیننٹ گورنر کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے۔ عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار ہیرانگر سیکٹر کے سنیال گل گاؤں میں بین الاقوامی سرحد کے قریب جاری انسداد عسکریت پسندی آپریشن کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کارروائیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ میری معلومات کے مطابق عسکریت پسندوں کے ساتھ اب تک کوئی براہ راست رابطہ قائم نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشکوک نقل و حرکت کی بنیاد پر سرچ آپریشن جاری ہے اور ہمیں دیکھنا ہوگا کہ صورتحال کیسے آگے بڑھتی ہے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ آپریشن سرحدی گاؤں میں ہو رہا ہے اور یہ ممکن ہے کہ عسکریت پسند سرحد پار سے آئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال اس بارے میں کوئی بیان دینا قبل از وقت ہوگا، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ حالات کیسے بدلتے ہیں۔ سرحدی ضلع کٹھوعہ اور بلاور میں عسکریت پسندوں کے بار بار حملوں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں بیلٹ کے کئی علاقوں میں پچھلے کچھ برسوں میں عسکریت پسندوں کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ عمر عبداللہ کے مطابق "ہم نے راجوری، پونچھ اور دیگر علاقوں میں بھی ایسی سرگرمیاں دیکھی ہیںِ ان کا مقصد خطے میں امن کو خراب کرنا ہے"۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ نے عسکریت پسندوں میں عسکریت
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی، بھارتی ریاست کی بوکھلاہٹ آشکار
مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں عوامی نمائندوں کو نظر بند کر کے نام نہاد جمہوریت کو بے نقاب کر دیا۔
کشمیری شہداء کی توہین ہندوتوا نظریے کے تحت مسلم شناخت کو دبانے کی گھناؤنی سازش ہے۔
بھارتی اخبار دی وائر کے مطابق جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے 13 جولائی کو منتخب سرکاری عہدیداران بشمول وزیر اعلیٰ کو گھروں میں نظر بند کر دیا۔
دی وائر نیوز کے مطابق حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور یوم شہداء کی سرکاری تعطیل ختم کر دی گئی تھی، 1931 کا واقعہ کشمیری عوام کی خود مختار سیاسی اور آئینی تشخص کی نمائندگی کرتا ہے۔ بی جے پی کے اپوزیشن لیڈر نے 1931 میں ڈوگرہ حکمران کے ہاتھوں مارے گئے 22 افراد کو غدار قرار دیا۔
بھارتی اخبار کے مطابق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، بی جے پی جلد از جلد جموں و کشمیر کو باقی ملک کے قوانین کے تحت ضم کرنے کی کوشش میں ہے، لیفٹیننٹ گورنر کے آئینی طور پر مشکوک اقدامات جموں و کشمیر کے ساتھ دیگر ریاستوں کے لیے بھی باعث تشویش ہونے چاہئیں۔
دی وائر کے مطابق بی جے پی کے اقدامات کا پہلا مسئلہ قوم پرست تاریخ اور شناخت کی یک جہتی کی سوچ سے جڑا ہے، بی جے پی مرکزی حکومت وفاقی اکائیوں پر اپنا تاریخی بیانیہ تھوپ رہی ہے۔
بی جے پی کا 1931 کے شہداء کو ’’غدار‘‘ کہنا کشمیری جدوجہد کو دبانے کوشش ہے، کشمیریوں کے یادگار دنوں پر پابندی لگانا مودی سرکار کی ذہنی شکست کی علامت ہے۔
مقبوضہ کشمیر پر زبردستی حکمرانی مودی سرکار کی غیر جمہوری سوچ اور آمریت کی عکاس ہے۔ مودی سرکار کے ان جارحانہ اقدامات سے مقبوضہ جموں و کشمیر پر گرفت مضبوط نہیں بلکہ غیر مستحکم ہو رہی ہے۔