UrduPoint:
2025-07-26@16:35:57 GMT

جنوبی شام میں اسرائیلی حملے، پانچ افراد ہلاک

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

جنوبی شام میں اسرائیلی حملے، پانچ افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مارچ 2025ء) شام میں انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے گروپ 'سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ نے بتایا ہے کہ شام کے جنوبی علاقے میں یہ جانی نقصان اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد سامنے آیا۔ شام کے جس جنوبی حصے میں یہ کارروائی کی گئی ہے، وہ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی گولان ہائٹس کے بفر زون کے قریب ہے۔

اسرائیلی فوج کی طرف سے منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی دفاعی افواج نے تدمر اور تیاس (ٹی فور) فوجی اڈوں پر حملے کیے تاکہ شامی جنگجوؤں کی حملہ کرنے کی صلاحیتوں کو کم کیا جا سکے۔

یہ دونوں اڈے صوبے حمص میں واقع ہیں۔ حالیہ مہینوں میں اسرائیلی فورسز متعدد مرتبہ ان اڈوں کو نشانہ بنا چکی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ فوجی اڈے عسکری حکمت عملی کے حوالے سے اہم تصور کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ اسلحے کی ترسیل کے راستوں پر واقع ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ان فوجی مقامات کو نشانہ بنا رہا ہے، جو ایرانی فورسز اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیا سے منسلک ہیں۔یہ حملے اس وقت شدت اختیار کر گئے جب باغیوں نے آٹھ دسمبر کو شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔

اسرائیل کے لیے شام اتنا اہم کیوں؟

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ جنوبی شام میں ہوئی ایک الگ کارروائی میں عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم ہوا۔

بتایا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں نے اسرائیلی سپاہیوں پر فائرنگ شروع کر دی تھی، جس کا مؤثر جواب دیا گیا۔ اس کارروائی میں اسرائیلی فضائیہ بھی شامل ہوئی۔

دمشق کی جانب سے فوری طور پر اسرائیلی حملوں یا شامی ہلاکتوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔

اسرائیل شام کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کیونکہ چند ماہ قبل صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد سے وہاں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔

ہیئت تحریر الشام (HTS) نامی گروپ اسد حکومت کے خاتمے میں پیش پیش تھا۔ یہ گروہ ماضی میں القاعدہ سے بھی منسلک رہا ہے۔ اس لیے اسرائیل اس گروہ کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔

اسرائیل بارہا کہہ چکا ہے کہ وہ جنوبی شام میں اسلام پسند عسکریت پسندوں کی موجودگی کو برداشت نہیں کرے گا۔ اسرائیل ان علاقوں کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ بھی کر چکا ہے۔

اسرائیل شام کے ساحلی شہر لاذقیہ اور لبنان کے ساتھ شامی سرحد کے قریب بھی اپنے حملوں میں اضافہ کر چکا ہے۔ اس کی وجہ وہاں ایرانی موجودگی کو قرار دیا جاتا ہے۔

اسرائیلی فوج نے منگل کے روز مزید کہا کہ اسرائیلی دفاعی افواج شہریوں کو لاحق کسی بھی خطرے کو ختم کرنے کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی۔

ادارت: عاطف توقیر، مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے

وہی ہوا جو منطقی تسلسل میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں باقاعدہ ضم کرنے کی علامتی قرار داد گذرے بدھ تیرہ کے مقابلے میں اکہتر ووٹوں سے منظور کر لی۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر نیتن یاہو حکومت مستقبلِ قریب میں ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پارلیمان اس کے پیچھے کھڑی ہے۔گزشتہ برس نو کے مقابلے میں اڑسٹھ ووٹوں سے دو ریاستی حل کا فارمولا مسترد کرنے کی قرار داد بھی کنیسٹ منظور کر چکی ہے۔

مغربی کنارے کو باقاعدہ ضم کرنے کی قرار داد کی مخالفت میں جو تیرہ ووٹ آئے وہ پارلیمنٹ میں عرب بلاک کے نمایندوں اور بائیں بازو بشمول لیبر ارکان نے دیے۔نام نہاد اعتدال پسند صیہونی جماعتوں ، دائیں بازو کی حکمران لیخود پارٹی اور اس کی حواری متشدد مذہبی پارٹیوں نے مقبوضہ علاقے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے سے اتفاق کیا۔

تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مقبوضہ غربِ اردن کی فلسطینی آبادی کو ضم ہونے کی صورت میں برابر کا اسرائیلی شہری تسلیم کیا جائے گا اور ان پر موجودہ فوجی قوانین کے بجائے وہی سویلین قوانین لاگو ہوں گے جو اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔

 اس کا عملی مطلب یہ ہے کہ انضمام کے بعد مسلح یہودی آبادکاروں کے حملے اور تیز ہو جائیں گے ، فلسطینیوں کی باقی ماندہ نجی زمینوں پر فوجی سنگینوں کے سائے میں ’’ دفاعی مقاصد ‘‘ کے نام پر قبضے کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ان زمینوں پر نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔یعنی ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ لاکھوں فلسطینیوں کا آخری ریلا بھی ’’ رضاکارانہ ‘‘ طور پر اپنی زمین سے نکل جائے اور جوڈیا سماریا (غربِ اردن ) ایک مکمل یہودی خطہ بن جائے۔

یہ قرار داد اسرائیلی کابینہ کے پندرہ وزرا کے بنام سرکار خط کی روشنی میں لکھی گئی۔ خط کے مطابق ’’ ایرانی شیطانی تکون ( حزب اللہ ، بشار الاسد ، یمنی ہوثی ) پر فتح کے بعد اب اندر موجود بقائی خطرے ( مقبوضہ فلسطینی ) سے بھی موثر انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔امریکا اور اسرائیل کی اسٹرٹیجک ساجھے داری اور صدر ٹرمپ کی مکمل حمائیت کے سبب یہی مناسب وقت ہے کہ آیندہ اسرائیلی نسلوں کا جغرافیائی مستقبل محفوظ کیا جائے۔ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے المیے نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست ہر شکل میں اسرائیل کی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہے۔لہٰذا جوڈیا سماریا ( مقبوضہ کنارہ ) پر اسرائیل کا مکمل اختیار نافذ کیا جائے ‘‘۔

قرار داد کی علامتی اہمیت اپنی جگہ مگر عملاً اسرائیل بیشتر مقبوضہ علاقے کو پہلے ہی بتدریج ہضم کر چکا ہے۔مغربی یروشلم انیس سو اڑتالیس میں ہی اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔فلسطینی اکثریتی مشرقی یروشلم انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد گریٹر یروشلم میونسپلٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔ فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یروشلم کے چاروں طرف آبادکار بستیوں کا جال بچھا دیا گیا۔

حالانکہ اقوامِ متحدہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جو قرار داد منظور کی تھی اور جس کی بنیاد پر چھ ماہ بعد اسرائیل کا وجود عمل میں آیا۔ اس قرار داد کے تحت یروشلم ایک کھلا بین الاقوامی شہر ہو گا۔مگر اسرائیلی پارلیمان نے انیس سو اسی میں متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا تاریخی دارالحکومت قرار دے کے قصہ چکتا کر دیا۔

 اسرائیل نے شام سے انیس سو سڑسٹھ میں چھینی گئی گولان پہاڑیوں کو انیس سو اکیاسی میں باقاعدہ ضم کر لیا۔اگرچہ سلامتی کونسل نے اس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔مگر پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے دو ہزار انیس میں نہ صرف گولان کو اسرائیل کا جائز حصہ مان لیا بلکہ یروشلم پر بھی اسرائیل کی حاکمیت کو قانونی تسلیم کر کے وہاں سفارت خانہ منتقل کر کے عشروں پرانی مبہم امریکی پالیسی ٹھکانے لگا دی۔

غزہ کے المئے نے نہ صرف وہاں کی پوری آبادی کو غذائی و عسکری نسل کشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے بلکہ مغربی کنارے کی قسمت بھی سربمہر کر دی ہے۔اس بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر اکتیس نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔مزید چالیس ہزار سے زائد فلسطینی خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ فصلیں اور باغات نذرِ آتش ہو چکے ہیں یا اجاڑے جا رہے ہیں ، لگ بھگ ایک ہزار فلسطینی شہید اور چار گنا زخمی ہو چکے ہیں۔

انیس سو چورانوے کے نام نہاد اوسلو سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ ایریا سی کے نام پر اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے مختص ہے۔یہاں کوئی فلسطینی باشندہ کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔اکیس فیصد علاقہ ایریا بی کے نام سے اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ عملاً اسرائیلی فوج مسلح آباد کاروں کو آگے رکھ کے ایریا بی کو بھی مقامی آبادی سے صاف کر رہی ہے۔

اب رہ جاتا ہے انیس فیصد ایریا اے۔کہنے کو یہاں فلسطینی اتھارٹی کی اتھارٹی چلنی چاہیے۔مگر اسرائیلی فوج دھشت گردوں کے قلع قمع کے نام پر ایریا اے کے شہروں اور قصبوں میں جس وقت جہاں اور جب چاہے گھس جاتی ہے ، ناکہ بندی کرتی ہے اور برسوں سے قائم پناہ گزین کیمپوں کو بھی مکمل منہدم کر رہی ہے۔

مسجدِ اقصی کا احاطہ اگرچہ قانوناً غیر مسلموں پر بند ہے اور اس احاطے کی علامتی نگرانی اردن کے ہاتھ میں ہے۔مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی صیہونی جتھہ اس احاطے میں نہ گھسے اور نمازیوں کو بے دخل نہ ہونا پڑے۔

مسجد مسلسل فوج اور پولیس کے محاصرے میں رہتی ہے۔یعنی یروشلم سمیت مغربی کنارہ عملاً اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔بس باضابطہ اعلان کی کسر ہے تاکہ عرب ممالک ، او آئی سی ، اقوامِ متحدہ اور کچھ غیر عرب ریاستیں بین الاقوامی قوانین کا علم اٹھائے پہلے کی طرح کچھ ہفتے ماتم کر سکیں۔

اگلا منصوبہ یہ ہے کہ اسرائیل کس طرح غزہ سے تمام فلسطینیوں کو زندہ یا مردہ نکالتا ہے ، جنوبی لبنان کی سرحدی پٹی پر مستقل پنجے گاڑنا ہے اور جنوبی شام کے گولان سے متصل کچھ اور علاقے ہڑپ کرنے کے عمل میں قبائلی و علاقائی خانہ جنگی کو ہوا دے کر شام کے چار ٹکڑے ( دروز ، علوی ، سنی ، کرد ) کرواتا ہے۔

 علاقے میں بس ترکی آخری طاقت رہ گیا ہے جو اسرائیل کو کبھی منہ دے سکے۔چنانچہ ان سب ہتھکنڈوں کا ہدف اگلے مرحلے میں ترکی کو تنہا کرنا ہے۔

آپ کے علم میں ہے کہ اسرائیلی بچوں کو اسکول میں کیا پڑھایا جاتا ہے ؟

’’ خدا نے دریاِ نیل تا فرات پھیلی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے بخشی ہے ‘‘۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • غزہ جنگبندی کے مذاکرات میں 3 اہم رکاوٹیں موجود ہیں، ترکیہ
  • غزہ کی آڑ میں مغربی کنارہ نگلنے کی اسرائیلی پیش قدمی
  • ایران کے جنوبی شہر زاہدان میں دہشتگردانہ حملہ، کم از کم 5 افراد جاں بحق، 13 زخمی
  • تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کا سرحدی تنازع شدت اختیار کر گیا، ایک دوسرے پر فضائی حملے اور راکٹ باری
  • غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
  • جنوبی افریقا میں ہاتھی نے کروڑ پتی مالک کو حملہ کرکے مار دیا
  • اسرائیلی فوج کے لیے دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی فیکٹری ہیک کر لی گئی
  • اسرائیل کا ایک اور متنازع قدم، پارلیمنٹ میں مغربی کنارے پر قبضے کی قرارداد منظور
  • غزہ کے لیے امداد لے جانے والے جہاز حنظلہ سے رابطہ منقطع، اسرائیلی ڈرون حملے کا خدشہ
  • کچھ حقائق جو سامنے نہ آ سکے