یوٹیوب صارفین کیلئے اچھی خبر ،ایک بہت بڑی تبدیلی کر دی گئی
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
یوٹیوب میں ایک بہت بڑی تبدیلی کی جا رہی ہے جو بیشتر صارفین کو پسند آئے گی خصوصاً وہ افراد جو مختصر ویڈیوز پوسٹ کرنا پسند کرتے ہیں۔
یوٹیوب کی جانب سے یوٹیوب شارٹس کے ویوز کاؤنٹ کو تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ صارفین زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں کہ ان کی مختصر ویڈیوز کس حد تک بہتر کام کر رہی ہیں۔اب یوٹیوب شارٹس میں کسی مختصر ویڈیو کو پلے یا ری پلے کرنے کے نمبر نظر آئیں گے۔
اس سے قبل شارٹس میں ویوز نمبروں کی بجائے یہ دکھایا جاتا تھا کہ کسی شارٹ ویڈیو کو کتنے وقت کے لیے دیکھا گیا۔کمپنی کے مطابق اس تبدیلی کی وجہ صارفین کا مطالبہ تھا جن کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ شارٹس ویڈیوز کو حقیقت میں کتنی بار دیکھا جاتا ہے۔
کمپنی کے مطابق اس تبدیلی سے صارفین کو بہتر اندازہ ہوسکے گا کہ ان کی ویڈیوز کی رسائی کتنی ہے اور اس کے مطابق وہ مواد تیار کرکے پوسٹ کرسکیں گے اور انہیں برانڈز کے ساتھ شراکت داری کرنے کا موقع بھی ملے گا۔اس اپ ڈیٹ کے بعد یوٹیوب شارٹس میں ویڈیوز ویوز کا سسٹم ٹک ٹاک اور انسٹا گرام ریلز جیسا ہوگیا ہے جن میں ویڈیو کو دیکھے جانے یا ری پلے کے نمبروں کو دکھایا جاتا ہے۔
صارفین اب بھی شارٹس ویڈیوز دیکھے جانے کے دورانیے کو ایڈوانسڈ موڈ میں جا کر دیکھ سکیں گے اور اب اسے انگیجڈ ویوز کا نام دیا گیا ہے۔کمپنی کے مطابق اس تبدیلی سے صارفین کی وہ آمدنی متاثر نہیں ہوگی جو ویڈیوز دیکھے جانے پر انہیں ملتی ہے یا یوٹیوب پارٹنر پروگرام میں شمولیت کی اہلیت پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔اس نئی تبدیلی کا اطلاق 31 مارچ سے ہوگا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے مطابق
پڑھیں:
اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
سوشل میڈیا پر آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے بنائی گئی ویڈیوز کا سیلاب آ گیا ہے لیکن ان جعلی ویڈیوز کو پہچاننے کا ایک اہم اشارہ ہے کہ کیا ویڈیو کی کوالٹی اتنی خراب ہے جیسے یہ کسی پرانے موبائل یا کمزور کیمرے سے بنائی گئی ہو؟
’یہ تو اصلی لگ رہی تھی‘ماہرین کے مطابق پچھلے 6 ماہ میں اے آئی ویڈیو بنانے والے ٹولز اتنے ترقی یافتہ ہو گئے ہیں کہ اب ہمیں حقیقت اور نقل میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روسی صدر پیوٹن کی پاکستان کے خلاف جعلی ویڈیو بے نقاب، یہ ویڈیوز کیسے پھیلائی جاتی ہیں؟
کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے کے کمپیوٹر سائنسدان اور ڈیجیٹل فرانزکس کے ماہر ہینی فرید کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم ویڈیو کی کوالٹی پر نظر ڈالتے ہیں۔ اگر تصویر دھندلی یا دانے دار ہے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
دھندلی ویڈیوز زیادہ خطرناک کیوں ہیں؟ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت جو اے آئی ویڈیوز ہمیں دھوکہ دے رہی ہیں وہ عموماً کم معیار کی ہوتی ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ جب ویڈیو کو جان بوجھ کر دھندلا یا کم ریزولوشن میں رکھا جائے تو اس میں موجود چھوٹے نقائص جیسے عجیب حرکات، غیر فطری چہرے کے تاثرات یا پس منظر کی غلطیاں چھپ جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر خرگوشوں کے ٹرامپولین پر اچھلنے والی جعلی ویڈیو کو ٹک ٹاک پر 24 کروڑ سے زیادہ بار دیکھا گیا۔
نیویارک سب وے میں 2 افراد کے ’محبت میں مبتلا‘ ہونے والی ویڈیو بھی لاکھوں لوگوں کو دھوکا دے گئی۔
اور ایک جعلی پادری کی ویڈیو، جس میں وہ دولت مند طبقے کے خلاف تقریر کر رہا تھا، لاکھوں لوگوں کو اصلی لگی۔
ان سب ویڈیوز میں ایک بات مشترک تھی جو یہ تھی کہ وہ سب کم معیار کی فوٹیجز تھیں۔
ویڈیوز اتنی مختصر کیوں ہوتی ہیں؟فرید کے مطابق جعلی ویڈیوز کی ایک اور پہچان ان کی لمبائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر ویڈیوز صرف 6 سے 10 سیکنڈ کی ہوتی ہیں کیونکہ طویل ویڈیو بنانا مہنگا اور مشکل ہے۔
مزید پڑھیے: ٹک ٹاک نے پاکستان میں مزید ڈھائی کروڑ ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں
اسی طرح کم ریزولوشن اور زیادہ کمپریشن بھی ایک نشانی ہو سکتی ہے کیونکہ دھوکہ دینے والے اکثر ویڈیو کو جان بوجھ کر دھندلا کرتے ہیں تاکہ نقائص چھپ جائیں۔
اب آگے کیا ہوگا؟ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ مشورہ ہمیشہ کام نہیں کرے گا کیونکہ اے آئی تیزی سے بہتر ہو رہا ہے۔
ڈریکسل یونیورسٹی کے پروفیسر میتھیو اسٹام کہتے ہیں کہ 2 سال کے اندر یہ ظاہری نشانات ختم ہو جائیں گے اور ہم اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں کر سکیں گے تاہم امید ابھی باقی ہے۔
ڈیجیٹل فورینسک کے ماہرین ایسے ڈیجیٹل فنگر پرنٹس پر کام کر رہے ہیں جن سے ویڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتا لگایا جا سکے۔ مستقبل میں ممکن ہے کیمرے خود ویڈیو میں تصدیقی ڈیٹا (میٹا ڈیٹا) شامل کریں تاکہ اس کی اصلیت ثابت ہو سکے۔
ڈیجیٹل لٹریسی ماہر مائیک کولفیلڈ کے مطابق مسئلے کا حل ٹیکنالوجی نہیں بلکہ ہمارا رویہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ویڈیوز کو بھی تحریر کی طرح دیکھیں صرف دیکھنے سے یقین نہ کریں بلکہ اس کا ماخذ، سیاق و سباق اور پوسٹ کرنے والے شخص کو پرکھیں۔
مائیک کولفیلڈ نے کہا کہ اب کسی ویڈیو کو صرف دیکھ کر اصلی سمجھنا خطرناک ہو گیا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ پوچھیں کہ یہ ویڈیو کہاں سے آئی؟
مزید پڑھیں: ڈیپ فیک چہرے کے ساتھ پہلی سرٹیفائیڈ جعلی ویڈیو جاری کر دی گئی
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھیں کہ یہ ویڈیو کس نے اپلوڈ کی ہے اور کیا کسی معتبر ذریعے نے اس کی تصدیق کی ہے؟
جیسا کہ پروفیسر اسٹام کہتے ہیں یہ 21ویں صدی کا سب سے بڑا انفارمیشن سیکیورٹی چیلنج ہے لیکن ہم ابھی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اصلی اور نقلی ویڈیو میں پہچان اے آئی ویڈیو ڈیپ فیک