اللہ کو راضی کرنا ہے تو مظلوموں کو انصاف دیں، ڈاکٹر طاہرالقادری
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
بانی قائد تحریک منہاج القرآن کا شہراعتکاف سے خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستان مشکل میں ہے، فروعی اختلاف ختم کر دیئے جائیں، پاکستان شب قدر کا تحفہ ہے ،کوئی منفی سوچ نقصان نہیں پہنچا سکتی، ہمارے زوال کی وجہ قرآن سے دُوری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور میں تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام شہرِ اعتکاف میں شبِ قدر کی مناسبت سے خصوصی عبادات کا اہتمام کیا گیا۔ شب قدر کے اجتماع میں ہزار ہا مرد و خواتین نے شرکت کی۔ معتکفین نے اللہ کے حضور رقت آمیز دعائیں کی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان کی سلامتی اور امن و خوشحالی کیلئے دعا کروائی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے شہراعتکاف سے خطاب کرتے ہوئے کہا اللہ کو راضی کرنا ہے تو مظلوموں کو انصاف دیں، جہاں عدل نہیں وہاں امن نہیں، ہمارے زوال کی وجہ قرآن سے دُوری ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ پاکستان مشکل میں ہے، فروعی اختلاف ختم کر دیئے جائیں، پاکستان شب قدر کا تحفہ ہے، کوئی منفی سوچ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کو نہ توڑا جائے، نوجوان امت کا مستقبل ہیں، اللہ کو معافی بہت پسند ہے۔ آئندہ گناہ نہ کرنے کے عزم کیساتھ مغفرت طلب کی جائے، جبکہ شب قدر کی بابرکت رات ہے، اجتماعی توبہ کی جائے۔ شب قدر کے روحانی اجتماع میں علماء و مشائخ بڑی تعداد میں شریک تھے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ہزاروں افراد کو شہراعتکاف میں خوش آمدید کہا۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
آشنائی اور پسند کی شادی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قرآن کریم اور خاتم النبیینؐ نے جن بڑے گناہوں سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے‘ ان میں چوری چھپے یا بغیر چوری کے آشنائی اپنی شدت کے لحاظ سے کفر وشرک سے کمتر نہیں کہی جاسکتی ہے۔ ایک حدیث صحیح میں یہ بات بیان فرمائی گئی ہے کہ جب ایک شخص زنا کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو اس کے قلب میں ایمان موجود نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ یہ فعل کرتے وقت کفر کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اللہ تو اپنے بندوں کو پاک بازی‘ عبادت اور تقویٰ کا حکم دیتا ہے‘ جب کہ شیطان فحش‘ منکر اور ظلم و شرک کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص جب زنا کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو وہ شیطان کی مرضی پوری کرتا ہے اور اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کررہا ہوتا ہے۔ گویا کہ اس لمحے وہ شیطان کا بندہ بن کر ہی یہ کام کرتا ہے۔
جہاں تک سوال عذاب کا ہے‘ عذاب اور اچھے اجر کا اختیار صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ہے۔ ہم یہ بات تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے مشاہدے اور تحقیق کی روشنی میں فلاں شخص نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے لیکن اس کا آخری فیصلہ رب کریم ہی کرے گا۔ یہ نہ میرے اور آپ کے سوچنے کا مسئلہ ہے‘ اور نہ اس پر کوئی مثبت یا منفی رائے ایسے فرد کے آخرت میں حساب کتاب پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
٭—٭—٭
کسی غیرمحرم کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا یا لگاوٹ کی بات کرنا زنا ہی کی ایک شکل ہے۔ گو‘ ایسے کام میں پوری گنجایش ہوتی ہے کہ اگر ایسے فعل کا عملاً ارتکاب نہیں کیا گیا اور توبہ و استغفار کو اختیار کرلیا گیا تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔
٭—٭—٭
کسی کا یہ کہنا کہ اگر وہ برائی کا ارتکاب کر رہا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے اور اس کی بہن‘ ماں‘ باپ‘ بھائی‘ دوست یا کسی اور مسلمان کو اس پر نہ پریشان ہونا چاہیے‘ نہ اس سے بازپرس کرنی چاہیے‘ ایک مکمل غیراسلامی رویہ ہے۔ قرآن کریم نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے اولیا ہیں جو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ شارع اعظمؐ نے دین کو نصیحہ‘ یعنی بھلائی کی طرف متوجہ کرنا‘ اصلاح اور برائی سے روکنے اور نیکی کی طرف راغب کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
اسلام کا بنیادی نقطۂ نظر جو دیگر مذاہب سے مختلف ہے‘ یہی ہے کہ یہاں مسئلہ ایک شخص کی ’ذاتی نجات‘ (personal salvation) کا نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کے الفاظ میں اپنے نفس اور اپنے اہلِ خانہ کو جہنم کی آگ سے بچانے کا ہے۔ اس لیے بھائی بہن ہوں یا اولاد یا پڑوسی یا اجنبی مسلمان‘ جب بھی اور جہاں بھی برائی نظر آئے اس کی اصلاح اور بھلائی کی حمایت و تقویت قرآنی حکم ہے۔ آپ کے بھائی صاحب کا خیال بالکل درست نہیں ہے۔
٭—٭—٭
اپنی پسند کی شادی کے نتیجے میں خاندان کے دیگر افراد آنے والی لڑکی کا وہ استقبال نہیں کرسکتے جو وہ مشورے کے بعد ایک لڑکی کے انتخاب کی شکل میں کریں گے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔ اس کے باوجود اپنی پسند کا اظہار کرنا لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے ضروری ہے۔ دین کا غالب رجحان یہی ہے کہ شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب میں والدین اور اعزہ کے حق کو تسلیم کیا جائے۔
٭—٭—٭
شادی سے قبل یا بعد‘ غیرمحرم سے بات کرنے کا حکم یکساں ہے۔ قرآن کریم نے اُمہات المومنینؓ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ اصول بیان کیا ہے کہ وہ کسی سوال کرنے والے کا جواب ایسے لہجے میں دیں جس میں لگاوٹ نہ ہو۔ بات صرف اتنی ہو جتنی ضرورت ہے‘ بلاوجہ حکایت کو طول دینے کی ممانعت ہے۔ اگر ایک کالج یا یونیورسٹی میں ایک لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے سے کسی درسی موضوع پر بات کرتے ہیں تو یہ بات حرام نہیں ہوگی۔ ہاں‘ اگر اس کا مقصد دوستی پیدا کرنا‘ لطائف کا تبادلہ کرنا اور اس طرح بے تکلفی پیدا کرنا ہے تو یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی اور حرام ہے۔
٭—٭—٭
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ایک ہی گھر میں تربیت پانے کے باوجود کردار کا یہ فرق کیوں‘ تو اس میں بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہر شخص حالتِ امتحان میں ہے۔ ہر ایک کو اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہونا ہے۔ لازمی نہیں کہ باپ کے راستے پر بیٹا بھی چلے۔ سیدنا نوحؑ کے بیٹے کی مثال معروف ہے۔ ایسے میں آپ کو خدا کے ہاں جواب دہی اور اخلاقی ذمے داری کا احساس دلانا چاہیے۔ اس کے علاوہ خاندان کے بزرگوں کو بھی توجہ دلانی چاہیے اور معاشرتی دبائو بھی بڑھانا چاہیے۔ کوئی تادیبی اقدام بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں منفی معاشرتی رجحانات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد
گلزار