عرب و اسلامی ممالک کے ایک ہنگامی سربراہی اجلاس میں تُرک صدر کا کہنا تھا کہ جب تک اسرائیل کا سخت اور کڑا محاسبہ نہیں کیا جاتا، تل ابیب اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کے صدر "رجب طیب اردگان" نے دوحہ میں عرب و اسلامی ممالک کے ہنگامی سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا کہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت خطے کے لئے براہ راست خطرہ بن چکی ہے۔ صیہونی حملے اب قطر تک پہنچ گئے ہیں، حالانکہ قطر تو امن کے لئے ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آج کے اجلاس کے فیصلے ایک تحریری اعلامیے کی صورت میں دنیا کے لئے ایک پیغام ہوں گے۔ رجب طیب اردگان نے کہا کہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ نتین یاہو کی انتہاء پسند کابینہ، فلسطینی عوام کا قتل عام جاری رکھنا چاہتی ہے اور پورے خطے کو انتشار میں دھکیل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی سیاستدان گریٹر اسرائیل جیسے اپنے ناپاک عزائم کو بار بار دہرا رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی حکام کو بین الاقوامی قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہئے۔ انہوں نے اسلامی ممالک پر زور دیا کہ وہ ترقی کے مختلف شعبوں میں خودکفیل بنیں اور باہمی تعاون کو فروغ دیں۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیل تک اپنی بندرگاہوں کے راستے مصنوعات بھیجنے والے رجب طیب اردگان نے کہا کہ اسرائیل پر اقتصادی دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ماضی میں ایسے دباؤ کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے فلسطینی عوام کو جبراً بےدخل کرنے کی کوششوں کو ناقابل قبول قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک اسرائیل کا سخت اور کڑا محاسبہ نہیں کیا جاتا، تل ابیب اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل پر مؤثر اور ٹھوس پابندیاں لگائی جائیں۔ اس کے حکام کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اس وقت تک اپنی کوششیں جاری رکھے گا جب تک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہ ہو جائے، جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ انتہاء پسند صیہونی رژیم، خطے میں قیام امن اور استحکام میں شراکت دار نہیں بن سکتی، اس لئے اسرائیل کو اقتصادی دباؤ میں لانا ضروری ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ رجب طیب اردگان کہ اسرائیل

پڑھیں:

پاک افغان جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-2

 

پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے تحت نگرانی اور تصدیق کا باقاعدہ نظام قائم کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا اور ٹھیرایا جائے گا۔ پاکستان اور افغانستان دونوں اسلامی اور ہمسایہ ممالک ہیں، اسلام میں ہمسایوں کے بہت زیادہ حقوق بیان کیے گئے ہیں، قرآن حکیم اور رسول اکرم نے مسلمانوں کو اپنے ہمسایوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کے لیے کسی بھی صورت پریشانی اور تکلیف کا باعث نہ بننے کی ہدایات دی ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے مگر اسے بدقسمتی کے علاوہ اور کیا نام دیا جائے کہ پاکستان میں آئے روز کی دہشت گردی کے مسئلہ پر دونوںملکوں کے مابین کشیدگی آخر باقاعدہ جنگ تک جا پہنچی حالانکہ مسلمانوں کے لیے قرآن حکیم کی سورۂ انفال کی آیت 46 میں باہم لڑائی اور جھگڑوں سے ہر صورت دور رہیں کیونکہ یہ پوری امت مسلمہ کے لیے کمزوری کا سبب ہو گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو واضح حکم دیا گیا ہے کہ: ’’اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے اس دو ٹوک حکم کے باوجود اگر مسلمان آپس میں برسر پیکار ہو ہی جائیں تب بھی خالق کائنات نے سورۂ الحجرات کی آیت 9 میں ہدایت فرمائی ہے کہ:۔ ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ مقام شکر ہے کہ اسی حکم قرآنی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ترکیہ اور قطر نے پاکستان اور افغانستان کو مذاکرات کی میز پربٹھایا۔ دونوں میں 18 اور 19 اکتوبر کے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی عمل میں آگئی۔ جسے ’دوحا معاہدہ‘ کا نام دیا گیا جنگ بندی کی شرائط اور وعدوں پر عمل درآمد کو ٹھوس شکل دینے کے لیے فریقین میں ترکیہ کی میزبانی میں 25 اکتوبر سے استنبول میں مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ چار روز تک مذاکرات کا عمل جاری رہا مگر فریقین کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے اور بدھ کے روز پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات نے مذاکرات کی ناکامی کا باضابطہ اعلان کر دیا تاہم ثالث ممالک ترکیہ اور قطر نے فریقین کو بات چیت جاری رکھنے پر آمادہ کیا اور جمعرات تیس اکتوبر کو مذاکرات سے متعلق ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ 25 سے 30 اکتوبر تک جاری رہنے والے مذاکرات کا مقصد دوحا مذاکرات میں طے پانے والی جنگ بندی کو مضبوط بنانا تھا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیش رفت حاصل کرنا تھا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکا جائے اور بھارت کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں، یہ مذاکرات کئی موقعوں پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ خاص طور پر ایک روز قبل صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا، تاہم میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اعلامیہ کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات میں تمام فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے، جنگ بندی کے نفاذ کی مزید تفصیلات اور طریقہ کار 6 نومبر 2025ء کو استنبول میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں طے کیے جائیں گے، جنگ بندی پر رضا مندی اس بات سے مشروط ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح، قابل تصدیق اور موثر کارروائی کریںگے۔ اعلامیہ کے مطابق تمام فریقین اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ جنگ بندی کی نگرانی اور تصدیق کے لیے ایک باقاعدہ نظام قائم کیا جائے گا، جو امن کی خلاف ورزی کی صورت میں خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا وار ٹھیرائے گا۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ بطور ثالث، ترکیہ اور قطر دونوں فریقوں کی فعال شرکت کی قدر کرتے ہیں اور دائمی امن اور استحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی کروانے اور اس کے تسلسل پر فریقین کو متفق کرنے میں ثالث اور میزبان ممالک کا کردار یقینا قابل ستائش ہے اگرچہ بعض دیگر مسلمان ممالک بھی اس تنازع کو طے کرانے اور جنگ کو پھیلنے سے روکنے میں پس پردہ خاصے متحرک رہے اور برسر جنگ برادر ملکوں پاکستان اور افغانستان کو باہم مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر آمادہ کرنے میں موثر اور فعال کردار ادا کیا تاہم ترکی اور قطر کے مذاکراتی وفود نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ان تھک اور شب و روز محنت کی ہے جس کا اعتراف کیا جانا ضروری بھی ہے اور مذاکرات کے اختتام پر جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں فراخدلی سے یہ اعتراف کیا بھی گیا ہے توقع رکھنا چاہیے کہ ان کی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا اور امت مسلمہ اور دونوں مسلم ممالک کے بدخواہوں کو خوش ہونے کا موقع دینے کے بجائے جنگ بندی کو مزید مستحکم بنایا جائے گا تاکہ دونوں ملکوں کے برادر عوام امن اور دوستی کی فضا میں ترقی و خوش حالی کی جانب سفر جاری رکھ سکیں اور ماضی کی طرح اس سفر میں دونوں برادر اسلامی اور ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہوئے اندرونی استحکام حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک اپنے انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر کو معاملات بگاڑنے کا موقع نہ دیں۔ پاکستان ہمیشہ سے عالمی سطح پر امن کا علم بردار رہا ہے خصوصاً اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات اس کی ترجیحات میں شامل رہے ہیں، مگر بدقسمتی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ افغانستان سے کشیدگی اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ دونوں ملک آمادہ جنگ ہو گئے امید ہے کہ اب دوبارہ حالات کو اس رخ پر جانے سے ہر صورت روکا جائے گا جس کا نتیجہ تباہی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں مسلسل اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلال عباس قادری
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں ترکیہ کے 102 ویں یوم جمہوریہ پر تقریب کے موقع پر ترک قونصل جنرل ارگل کادک، دیگر عہدیداروں کاگروپ فوٹو
  • غزہ کی امداد روکنے کیلئے "بنی اسرائیل" والے بہانے
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • اپنی چھت اپنا گھر اسکیم، ایک ماہ میں ریکارڈ قرضے بلا سود جاری
  • پاک افغان جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق ہونا خوش آئند اقدام ہے، حنیف طیب
  • پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کو چیک اپ کیلئے پی کے ایل آئی لایا گیا
  • آزاد کشمیر میں نئے قائد ایوان کا نام تحریک عدم اعتماد جمع کراتے وقت سامنے لایا جائے گا، پیپلز پارٹی