جنگ بندی کے باوجود غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری ہے، حاجی حنیف طیب
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
ایک بیان میں چیئرمین نظام مصطفی پارٹی نے کہا کہ غزہ میں درجنوں تاریخی مساجد اور چرچ منہدم ہوچکے ہیں، غزہ لہو لہو ہے، اقوام متحدہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، عالمی ادارے، بین المذاہب ہم آہنگی کے ادارے بالخصوص مسلم حکمران غفلت کی نیند سے کب بیدار ہونگے۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین نظام مصطفی پارٹی سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر حاجی محمد حنیف طیب نے ایک بیان میں فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کا مسئلہ صرف فلسطینی عوام کا نہیں بلکہ عالم اسلام، عالم انسانیت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اسرائیلی جارحیت کیخلاف، قبلہ اول کے تحفظ اور آزادی کیلئے اُمت مسلمہ کو متحد ہوکر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر حاجی محمد حنیف طیب نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چند دنوں کے امن کے بعد غزہ میں اسرائیلی حملے دوبارہ شروع ہونا لمحہ فکریہ ہے۔
حاجی حنیف طیب نے کہا کہ اسرائیلی بمباری سے چند دنوں میں مزید ایک ہزار سے زائد لوگ شہید ہوگئے جبکہ 7 اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 52 ہزار سے تجاوز کرگئی، ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہیں، غزہ میں تعلیمی مراکز بھی بمباری سے مکمل تباہ ہوچکے ہیں، طبی سہولتیں میسر نہیں، درجنوں تاریخی مساجد اور چرچ منہدم ہوچکے ہیں، غزہ لہو لہو ہے، اقوام متحدہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، عالمی ادارے، بین المذاہب ہم آہنگی کے ادارے بالخصوص مسلم حکمران غفلت کی نیند سے کب بیدار ہونگے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ہم نے جنگبندی کے معاہدے کی تجاویز کا جواب دیدیا، حماس
فلسطین کی اس مقاومتی تحریک کی یہ سٹیٹمنٹ ایسے موقع پر سامنے آئی جب عالمی سطح پر حماس کے جواب کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ ابھی کچھ دیر قبل فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کی تجاویز کا جواب دینے کی خبر دی۔ اس حوالے سے حماس نے ایک بیان جاری کیا۔ جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ ہم نے ثالثین کو اپنی اور دیگر مقاومتی تحریکوں کی جانب سے جنگ بندی کا جواب ارسال کر دیا۔ المیادین کے مطابق، حماس نے اپنے بیان میں مجوزہ جنگ بندی کے لئے دئیے گئے جواب کی کوئی تفصیل جاری نہیں کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ فلسطین کی اس مقاومتی تحریک کی یہ سٹیٹمنٹ ایسے موقع پر سامنے آئی جب عالمی سطح پر حماس کے جواب کا انتظار کیا جا رہا تھا اور امریکی نمائندہ برائے امور مشرق وسطیٰ "سٹیون وائٹکوف" کی نگرانی میں مذکورہ معاہدے پر بات چیت کے لیے اجلاس جاری تھا۔