عیدالفطر مہنگائی اور چینی کی قیمت
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
عید کا موقع تھا، تین براعظموں کے فرمانروا کے بچوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ ’’ عیدالفطر آرہی ہے ہمیں نئے کپڑے چاہئیں۔‘‘ شام کو آپؒ تشریف لائے تو زوجہ محترمہ نے کہا کہ ’’ بچے کپڑے مانگ رہے ہیں‘‘ کہا ’’ میرے پاس تو بچوں کے کپڑوں کے لیے بالکل پیسے نہیں ہیں۔‘‘ ادھر ملکی خزانہ لبالب بھرا ہوا تھا۔
یوں سمجھ لیں آج کے دور کے زرمبادلہ کی کثرت تھی۔ کسی سے بھی قرض مانگنے کا تو سوال ہی نہ تھا۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ اسلامی بیت المال کے امین سے ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس بطور قرض مانگ لیتا ہوں اور پھر مملکت اسلامیہ کے خزانچی جس کا نام مزاحم بتایا جاتا ہے اس کی منت کرنے لگے کہ ’’ مجھے صرف ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس دے دو تاکہ بچوں کے لیے کپڑے بنوا لوں۔‘‘
بیت المال کا امین جوکہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ماتحت تھا۔ اس نے تاریخی جملہ کہا کہ ’’آپ مجھے لکھ کر دے دیں کہ آپ اگلے مہینے تک زندہ رہیں گے۔‘‘ ایسے حکام تھے اور جب حکمران ایسے ہوں کہ ان کے بچوں نے عید والے دن پرانے کپڑے پہن رکھے تھے تو پوری رعایا کا حال سب نے دیکھ لیا تھا کہ پوری رعایا خوشحال ہوگئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں زکوٰۃ ادا کرنے والے کثرت سے تھے لیکن زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ ملتا تھا اور پوری مملکت اسلامیہ خوشحال ہو چکی تھی۔
مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان آج قرضوں تلے دبی ہوئی ہے جب ہم قرض مانگتے ہیں تو ظاہر ہے ان کی شرائط بھی تسلیم کرنا ہوتی ہیں اور جب شرائط تسلیم کرتے ہیں تو اس کا سارا بوجھ عوام پر پڑتا ہے چونکہ حکومت قرض خواہ کے طور پر ’’پاکستانی عوام‘‘ کا نام لکھواتی ہے، لہٰذا قرض وصولی پروگرام بھی عوام کے لیے ہی طے کیا جاتا ہے اور بالآخر مہنگائی کا جن بوتل سے نکل کر بے قابو ہو جاتا ہے۔ ڈالرکی اڑان اونچی سے اونچی ہوتی چلی جاتی ہے۔ امیر امیر سے مزید امیر اور پھر امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف اکثریت غریب سے غریب تر ہوکر رہ جاتے ہیں۔
بجلی اتنی مہنگی ہو کر رہ جاتی ہے کہ کوئی ادائیگی کے لیے قرض لیتا ہے، کوئی اپنے زیورات فروخت کرتا ہے اور کوئی پنکھے سے لٹک جاتا ہے۔ بھائی بھائی بجلی کے زائد بلوں کی ادائیگی پر آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ گیس کے بل بھی بڑھ گئے ہیں کہ تندور والے روٹی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔
پانی کا بھاری بھرکم بل شہریوں سے وصول کیا جاتا ہے لیکن نلکوں میں کئی کئی روز سے پانی نہ آنے کے سبب وہ مجبور ہیں کہ ٹینکرز کے ذریعے پانی خریدیں اور بھاری قیمت ادا کریں۔عید کے روز اپنے اردگرد پر سرسری نظر نہیں بلکہ بڑی گہری نظر ڈالیں تو سیکڑوں بچے پرانے پھٹے کپڑوں میں ملبوس نظر آئیں گے۔ چھوٹے معصوم بچے تپتی ہوئی دھوپ میں ننگے پیر چلتے ہوئے نظر آ جائیں گے۔ جو صاحب حیثیت ہوں ان کی مدد کریں، ان کے سر پر دست شفقت رکھیں۔
بہرحال ایک رپورٹ آگئی ہے کہ ماہ اپریل میں مہنگائی 3 فی صد مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ فروری، مارچ میں بہت سی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہ تسلسل اپریل میں بھی برقرار رہے گا۔ عید کے موقع پر ہر گھر میں یہ مشترکہ موضوع رہتا ہے کہ عید کے دن بریانی، قورمے کے لیے فارمی مرغی کتنی خریدی جائے۔
بعض افراد اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کون سی چکن شاپ سے زندہ مرغی خرید کر وزن کروا لی جائے اور اس کا گوشت اپنے سامنے بنوا لیا جائے کیوں کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرغی کا گوشت بنانے سے پہلے مرغی ذبح کرنے کے بعد اسے صاف کرکے اسے پانی میں ڈبو کر نکالا جاتا ہے جس سے دکاندار کو فائدہ ہوتا ہے، گوشت کا وزن قدرے زیادہ ہو جاتا ہے۔
ہو سکتا ہے ایسا کہیں ہوتا ہو اور کہیں نہ ہوتا ہو۔ بہرحال غریب متوسط طبقہ عموماً اس مبارک موقع پر بھرپور کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح اس کے گھر میں مرغی پکا لی جائے، لیکن اگر جیب اجازت نہ دے تو سمجھ لیں کہ بہت سے افراد اس مقولے پر عمل کر رہے ہوتے ہیں کہ ’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘ اور دال پکا لیتے ہیں،کیونکہ ڈاکٹرز حضرات نے انھیں تسلی دے رکھی ہوتی ہے کہ دالیں پروٹین سے بھرپور ہوتی ہیں۔
اب حکومت کی رٹ بھی شاید نہیں چلتی کیونکہ حکام نے بھی بہت کوشش کی لیکن چینی 150 روپے فی کلو سے بڑھ کر اب 200 روپے فی کلو کی طرف مراجعت کرنے والی ہے۔ کوکنگ آئل کے دام پہلے ہی بڑھ گئے ہیں۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ چینی کی برآمدات میں اضافے کے باعث چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
دراصل یہ افواہیں پھیلا دی جاتی ہیں کہ برآمدات کے باعث چینی غائب ہوگئی ہے، اگر برآمدی اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو وہ کچھ یوں ہے کہ جولائی تا فروری 2025 کے دوران 7 لاکھ 57 ہزار 779 میٹرک ٹن چینی کی برآمد کی گئی جس سے 40 کروڑ69 لاکھ 99 ہزار ڈالرز کا زرمبادلہ حاصل ہوا۔ برآمدات کے باعث یا چینی کی ذخیرہ اندوزی کے باعث قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ بہرحال پاکستان شوگرملز ایسوسی ایشن (پنجاب زون) نے برآمدات کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ملک میں چینی کافی مقدار میں موجود ہے۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ عید الفطر کے مبارک دن سے بہت پہلے چینی کی قیمت کو کم سے کم کر دیتی۔ چونکہ ان دنوں وزارت خزانہ نے بھی بڑی اچھی رپورٹ دی ہے کہ مالیاتی خسارہ 1.
لازم تھا کہ غریب افراد بھی ان خوشخبریوں کے سلسلے میں حکومت کا ساتھ دیتے اور عید کے موقع پر میٹھے پکوان اور شیرخورمہ وغیرہ بنا کر خود بھی کھاتے اور تقسیم بھی کرتے، لیکن چینی اتنی زیادہ مہنگی ہو کر رہ گئی ہے کہ اب میٹھی ڈش غریب افراد کیسے بنا سکتے ہیں؟
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چینی کی قیمت جاتا ہے کے باعث عید کے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
خبردار! پراٹھا پکاتے ہوئے یہ غلطی نہ کریں، صحت کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)نسلوں سے دیسی کچن میں صبح کا آغاز گھی میں پکے ہوئے پراٹھے کی خوشبو سے ہوتا آیا ہے۔ توا پر سنہری رنگ میں دھیرے دھیرے پکتا پراٹھا نہ صرف آنکھوں کو بھاتا ہے، بلکہ اس کی خوشبو دل کو بھی بہلا دیتی ہے۔ دیسی گھی سے لبریز پرانٹھا کئی گھرانوں کے لیے ناشتہ کا معیار سمجھا جاتا ہے۔
لیکن جیسے جیسے خوراک سے متعلق سائنسی شعور بڑھا ہے، ویسے ویسے یہ سوال ابھرنے لگاہے کہ کیا ہم واقعی اپنی صحت کے لیے وہی کھا رہے ہیں جو ہمارے آبا و اجداد کھایا کرتے تھےاور کیا ہم وہی طریقہ اختیار کر رہے ہیں جو آج کے دور میں محفوظ ہے؟
کیا گھی میں پراٹھا پکانا نقصان دہ ہے؟
جی ہاں، اگر غلط طریقے سے پکایا جائے اور اگر مقدار کا خیال نہ رکھا جائے۔
گھی، بلاشبہ، ایک روایتی اور غذائیت سے بھرپور چکنائی ہے۔ اس میں موجود وٹامنز اے ڈی ای اور کے بیوٹریٹ جیسا فیٹی ایسڈ، ہاضمے، آنتوں کی صحت اور سوزش میں کمی کے لیے مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے دیسی گھی ہمارے کھانوں کا حصہ رہا ہے۔
لیکن اس کے اندر ایک پوشیدہ خطرہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس کے استعمال میں احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔
ماہر غذائیت ایک اہم نکتہ بیان کرتے ہیں کہ
”جب گھی کو اس کے دھواں نکالنے والے درجہ حرارت (تقریباً 250°C) سے اوپر گرم کیا جاتا ہے، تو وہ اپنی اصل ساخت کھو بیٹھتا ہے۔“
ایسی حالت میں گھی سے خطرناک مرکبات جیسے ایکرولین، ٹرانس فیٹس جیسے آئسومرزخارج ہوتے ہیں، جن کا ہاضمہ انسانی جسم کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
طویل عرصے تک اس طرح کے گھی میں پکا ہوا کھانا کھانے سے دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، چاہے باقی اجزاء کتنے ہی صحت بخش کیوں نہ ہوں۔
زیادہ درجہ حرارت کے دیگر نقصانات
جب گھی میں پراٹھا تیز آنچ پر پکایا جاتا ہے، تو نہ صرف گھی کے مفید وٹامنز تباہ ہو جاتے ہیں، بلکہ گندم جیسے کاربوہائیڈریٹ سے ”ایڈوانسڈ گلائی کیشن اینڈ پروڈکٹس“ (AGEs) پیدا ہوتے ہیں۔
یہ مالیکیولز آکسیڈیٹیو اسٹریس، جلدی بڑھاپے، دائمی سوزش اور انسولین کی مزاحمت (جو آگے چل کر ذیابطیس کی وجہ بن سکتی ہے) سےمنسلک ہوتے ہیں
پراٹھا کھائیں لیکن احتیاط سے
درمیانی آنچ پر پراٹھا پکائیں تاکہ گھی کا درجہ حرارت دھوئیں تک نہ پہنچے۔
ہیوی باٹم پین استعمال کریں تاکہ گرمی یکساں پھیلے۔
نان اسٹک برتن اور کم گھی کا استعمال کریں۔
اگر گھی استعمال کرنا بھی ہو تو محدود مقدار میں اور کم درجہ حرارت پر کریں۔
پراٹھا اور گھی، دیسی کچن کا روایتی جوڑ، اب بھی ہماری پلیٹ میں شامل رہ سکتا ہے بس طریقہ شعور کے ساتھ بدلنے کی ضرورت ہے۔
یار رکھیں پراٹھے کو لذت بھرا ناشتا بنائیں، نہ کہ زہریلا خطرہ۔ خیال رکھیں! اپنے کھانے کا، اپنی صحت کا اور سب سے بڑھ کر درجہ حرارت کا۔
مزیدپڑھیں:وکیل کی نامناسب حالت میں پیشی پر عدالت حیران، جج شدید برہم