WE News:
2025-09-18@15:53:22 GMT

قیام کے وقت سجدے میں گرجانا کیسا ہوتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

اگر کوئی قیام کے وقت سجدے میں گر جائے تو یہ ایک بڑی غلطی ہوتی ہے۔ اگر کوئی ظالم اور قابض قوت کے خلاف برسوں نہیں عشروں کی جدوجہد کے بعد عین اس وقت ہتھیار پھینک دے جب پھل ملنے والا ہو تو اس مجاہد کے بارے میں افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

خبر یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس سے وابستہ 3 حریت پسند تنظیموں نے آزادی کا نعرہ مزید لگاتے رہنے کے بجائے اب چپ سادھ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان میں جے اینڈ کے پیپلزموومنٹ، ڈیموکریٹک پولیٹکل موومنٹ اور ریاست جموں میں قائم جموں و کشمیر فریڈم موومنٹ ہے۔ اگرچہ یہ تنظیمیں حجم کے اعتبار سے بہت بڑی نہیں ہیں تاہم ان کا تحریک حریت سے منہ پھیر لینا آزادی کے جذبے سے سرشار کشمیری قوم کے لیے افسوس کا باعث ضرور بنے گا۔

دراصل مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارت کی نریندرمودی سرکار کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد یہاں ایک ایسا سیاسی نظام رائج کرنا چاہتی ہے جس میں کوئی حریت پسند نظر نہ آئے۔ چنانچہ وہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے دو طرح کی حکمت عملی سے کام لے رہی ہے۔

مودی سرکار کی خواہش ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے کل جماعتی حریت کانفرنس کا وجود سرے ہی سے ختم ہوجائے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو حریت کانفرنس کی جگہ کشمیر کی مسلمان تنظیموں پر ایک نیا اتحاد قائم کیا جائے یا پھر حریت کانفرنس ہی کے اندر ایک فاورڈ بلاک کی تشکیل دیدیا جائے۔ اس حکمت عملی پر کام کرتے ہوئے قابض بھارتی سرکار ہرقسم کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔

25 جنوری کو بھارت نواز پولیس نے قائد حریت کشمیر مرحوم سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کی تلاشی لی اور  اس کے ایک حصہ پر قبضے کرلیا۔  اس کے بعد پولیس نے مقبوضہ کشمیر کے کتب خانوں اور دکانوں پر چھاپے مارنا شروع کردیے اور انھیں جماعت اسلامی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابیں رکھنے سے منع کردیا۔ اس کے بعد بھارتی حکومت مزید آگے بڑھی اور  میر واعظ عمر فاروق کی ’عوامی ایکشن کمیٹی‘  اور ’جموں و کشمیر اتحاد المسلمین ‘ پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان پر الزام عائد کیا کہ وہ علیحدگی پسند نظریہ کی حامی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حریت کانفرنس کے رہنماؤں کی رہائش گاہوں پر پولیس کے چھاپوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ حریت کانفرنس سے اعلان لاتعلقی کریں۔ اطلاعات کے مطابق اب تک  36 رہنماؤں کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے جاچکے ہیں ہیں۔ان چھاپوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ حریت کانفرنس میں شامل 6 رہنماؤں نے اتحاد سے الگ ہونے کے بیانات جاری کردیے ہیں۔ بھارت دیگر حریت پسند رہنماؤں کے بھی پیچھے لگا ہوا ہے۔

دراصل  گزشتہ کئی مہینوں سے انڈین وزارت داخلہ کی ایک ٹیم انٹیلی جنس بیورو کی سرکردگی میں حریت کانفرنس کے خاتمے یا پھر اسے کمزور کرنے پر کام کر رہی ہے۔ اس ٹیم کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے اذہان و قلوب سے پاکستان کے بارے میں محبت بھرے جذبات ختم کردیے جائیں۔ یہ ٹیم جیل میں بند کئی رہنماؤں سے بھی ملاقات کرچکی ہے، جن میں تہاڑ جیل، کوٹ بھلوال جیل اور جموں میں قید شبیر شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی، مسرت عالم بٹ، مشتاق الاسلام شامل ہیں۔ ان رہنماؤں پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ آزادی کا مطالبہ چھوڑ دیں۔ اور پاکستان کا نام لینا بند کردیں۔ تاہم انہوں نے آزادی کشمیر کی راہ سے پیچھے پلٹنے سے صاف انکار کردیا۔

اسی طرح یہ ٹیم کشمیری حریت پسند جماعتوں کے ان رہنماؤں سے بھی الگ الگ مل رہی ہے جو زیر حراست نہیں ہیں۔ ان پر بھی مسلسل زور دیا جارہا ہے کہ وہ بھارت نواز سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ ان بھی وہی مطالبہ ہے کہ حریت کانفرنس چھوڑنے کا برسرعام اعلان کریں بصورت دیگر جیل جانے کے لیے تیار ہوجائیں۔

ریاست جموں و کشمیر پر قابض بھارتی قیادت کو کشمیری رہنماؤں پر چڑھائی کی ہمت کیوں ہوئی؟ اس کے چند جو اہم ترین اسباب ہیں، ان میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ  حریت پسند رہنما اور مسلح مزاحمتی گروہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد خاموش ہو چکے ہیں۔ ان کا عام کشمیریوں سے رابطہ بھی ختم ہو کے رہ گیا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک سبب پاکستان کا اندرونی سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات بھی ہیں۔تاہم حکومتوں کی ترجیحات کا بھی عمل دخل ہے۔ یہ کوئی ایک دو برس کا قصہ نہیں ہے۔ عشروں سے پاکستانی حکومتیں ان کشمیریوں کو نظر انداز کر رہی ہیں جو پاکستان کی محبت میں جیتے اور مرتے ہیں۔

پاکستان میں عالم یہ ہے کہ یہاں عشروں سے ایک کشمیر کمیٹی بنی ہوئی ہے۔ کوئی اس کشمیر کمیٹی کی اب تک ہونے والی سرگرمیوں ہی کی ایک فہرست تیار کرنا شروع کردے۔ پچھلے تیس، پینتیس برس سے کشمیر کمیٹی کی کارکردگی صرف ایک جملے میں بیان کی جاسکتی ہے کہ اس کی کوئی کارکردگی نہیں ہے۔ نہ اس کے چیئرمین کو پتہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کہاں ہے اور نہ ہی اس کے ارکان کو۔

اگر صرف ایک کشمیر کمیٹی فعال ہوجائے اور کام کا حق ادا کرنا شروع کردے تو بھارت کے بڑھتے ہوئے قدم فی الفور رک سکتے ہیں، وہ پسپائی پر مجبور ہوسکتا ہے، اس کے نتیجے میں مایوس ہونے والے کشمیری ایک بار پھر شیر بن سکتے ہیں۔

پاکستانی حکومتیں کچھ کرنے کا ارادہ کریں، کشمیر کو اپنی اولین ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ لیکن یہاں ایک حکمران آیا، اس نے اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے کا نام ’سری نگر ہائی وے‘ رکھ دیا، ایک چوک کا نام ’کشمیر چوک‘ رکھ دیا اور  سمجھ لیا کہ اس سے کشمیریوں کو حق خود ارادیت مل جائے گا۔

مودی سرکار کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے اب تک کشمیریوں کو اپنا مکمل غلام بنانے کی راہ پر جس تیز قدمی سے آگے بڑھ رہی ہے، پاکستانی حکمران اسے دیکھ لیں اور اپنی حرکتیں دیکھ لیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ایک نئے عزم و ہمت سے پاکستانی حکمران کشمیریوں کا مقدمہ دنیا بھر میں لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

تین چھوٹی حریت پسند تنظیموں نے آزادی کا نعرہ لگانا بند کیا، بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ آزادی پسندوں کی کمر توڑنے کے دعوے کرتے پھر رہے ہیں۔  حالانکہ کشمیریوں کی عظیم الشان اکثریت اب بھی اپنے خوبصورت سرزمین سے بھارتی فوج کو نکل جانے کو کہہ رہی ہے۔اس کے آزادی پسند جذبات مضبوط ہیں۔ وہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی سرکار کے مقابل بلند اور مضبوط عزم و ہمت رکھتی ہے۔

کشمیریوں کی یہ عظیم الشان اکثریت تین چھوٹی تنظیموں کی طرف سے حریت کی راہ ترک کرنے کے اعلان پر حیران ہیں۔ ایک ایسے وقت میں یہ نادان سجدے میں گر گئیں جب ایک بار پھر کھڑے ہونے کا وقت آ گیا تھا۔

ذرا پنجاب سے منی پور اور ناگا لینڈ تک کے علاقوں کو دیکھیے، بھارت سے آزادی چاہنے والے کیسے ایک وقفے کے بعد پھر سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بھارتی حکمران اپنے ہاں مختلف طبقات پر بدترین مظالم ڈھا کر مزید علیحدگی پسندوں کو پیدا کر رہے ہیں۔

یہ بات تسلیم کہ بھارت حریت پسند رہنماؤں کی جائیدادیں ضبط کرکے، ان کے روزگار بند کرکے،  ان کے بچوں کو ڈرا دھمکا کر، ان کی رشتہ دار خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرکے انہیں راہ حریت سے پسپا ہونے کے لیے مجبور کر رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بھارت نواز سیاست کا حصہ بن کر وہی کچھ حاصل کرپائیں گے جو شیخ محمد عبداللہ سے عمر عبداللہ تک نے حاصل کیا۔ جبر کے سامنے ہمیشہ کے لیے دب جانا ہی تو غلامی ہوتی ہے۔ اور غلامی سے بدتر زندگی کی کوئی شکل ہو نہیں سکتی۔ آزاد قومیں ہی خوشحال ہوسکتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

بھارت پاکستانی حکومت ریاست جموں کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارت پاکستانی حکومت ریاست جموں کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس حریت کانفرنس کشمیر کمیٹی حریت پسند کشمیر کی کے بعد کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

زندگی بھر بھارتی مظالم کے خلاف برسرپیکار رہنے والے عبدالغنی بھٹ کون تھے؟

معروف آزادی پسند کشمیری رہنما اورکل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بھٹ مختصر علالت کے بعد مقبوضہ کشمیر کے علاقے سوپور میں انتقال کرگئے۔

عبدالغنی بھٹ کی عمر قریباً 90 برس تھی، وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم کانفرنس کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔

افسوسناک خبر ؛ مقبوضہ کشمیر کے بزرگ حریت راہنما و سابق چیئرمین کُل جماعتی حریت کانفرنس پروفیسر عبدالغنی بھٹ بھی آزادی کشمیر کا خواب دل میں سجائے اللہ کو پیارے ہو گئے۔
اناللہ وانا الیہ راجعون
اللہ پاک مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔آمین pic.twitter.com/3CRwN1JJQj

— Asaad Fakharuddin???? (@AsaadFakhar) September 17, 2025

مرحوم نے فارسی، اقتصادیات اور سیاسیات میں گریجویشن کی ڈگریاں حاصل کی تھیں جبکہ فارسی میں ماسٹرز بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری بھی حاصل کی تھی، جبکہ وہ فارسی کے پروفیسر بھی رہے۔

قابض بھارتی انتظامیہ نے آزادی پسند سرگرمیوں کی پاداش میں انہیں بطور پروفیسر ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ مرحوم 1987 میں بننے والے آزادی پسند تنظیموں کے اتحاد ’مسلم متحدہ محاذ‘ میں بھی پیش پیش رہے۔

بھارتی انتظامیہ نے1987 کے مقبوضہ علاقے کے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے محاذ کے امیدواروں کو ہروا دیا تھا۔ پروفیسر عبدالغنی بھٹ کو انتخابات کے بعد گرفتار کیا گیا اور وہ کئی ماہ تک جیل میں رہے۔

پروفیسر عبدالغنی بھٹ نے 1993 میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل پر یقین رکھتے تھے اور اس مقصد کے لیے ان کی خدمات اور جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

پروفیسر عبدالغنی بھٹ زندگی بھر بھارتی ظلم و ستم کے خلاف برسرپیکار رہے، اور آزادی کا خواب آنکھوں میں لے کر ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: حریت پسند رہنما 15 سال پرانے مقدمے سے بری

کشمیری حریت رہنما کے انتقال پر وفاقی وزیر امور کشمیر انجینیئر امیر مقام، وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق سمیت کشمیری قیادت نے عبدالغنی بھٹ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور سوگواران کو صبر جمیل دے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews انتقال برسرپیکار بھارتی مظالم عبدالغنی بھٹ کشمیری حریت رہنما مقبوضہ کشمیر وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رکھنا ناقابل برداشت اقدام ہے، مولوی محمد عمر فاروق
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • بھارت مقوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • بہادر اور جری حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ 89 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
  • زندگی بھر بھارتی مظالم کے خلاف برسرپیکار رہنے والے عبدالغنی بھٹ کون تھے؟
  • سابق چیئرمین کل جماعتی حریت کانفرنس پروفیسر عبدالغنی بٹ انتقال کرگئے
  • حریت پسندکشمیری رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ  داعی اجل کو لبیک کہہ گئے
  • عالمی برادری کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرے، حریت کانفرنس
  • مظفر آباد، آل پارٹیز حریت کانفرنس کے زیراہتمام سیمینار
  • سید علی گیلانی کی چوتھی برسی، آل پارٹیز حریت کانفرنس کا سیمینار