WE News:
2025-07-26@21:17:59 GMT

وادی کاغان کا دل ’جھیل سیف الملوک‘ خطرے سے دوچار کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT

وادی کاغان کا دل ’جھیل سیف الملوک‘ خطرے سے دوچار کیوں؟

وادی کاغان کا سب سے زیادہ حسین اور دلفریب مقام ناران ہے۔ مانسہرہ سے ناران کا فاصلہ 122کلو میٹر ہے۔ کاغان سے ناران کی دوری صرف 23کلو میٹر ہے۔ یہ سطح سمندر سے 7904فٹ کی بلندی پر واقع ہے، یہاں پر ناران سے 10کلومیٹر سطح سمندر سے 10500فٹ کی بلندی پر واقع گہرے نیلے سبز پانی سے مزین پیالہ نما جھیل ’سیف الملوک‘ کا دلفریب نظارہ دلوں کو مول لیتی ہے۔ شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کے عشق کی داستان بھی یہاں ہی پروان چڑھی۔

ایڈونچز بھرے جیپ کے ایک گھنٹے کے سفر کے بعد پہاڑوں میں گھری ہوئی دیو مالائی اور طلسماتی جھیل کے نیلگوں پانی اور ارد گرد کے خوش کن مناظرنے اپنے سحر میں جھکڑ لیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاحوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے اس کے قدرتی حسن کو تو پہلے ہی خطرات لاحق تھے لیکن تیز بارشوں کے باعث اب اس کا وجود ہی خطرے میں پڑنے لگا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کاغان: مہانڈری پل ہر طرح کی ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال تیز بارشوں کے نتیجے میں اطراف میں موجود بلند وبالا پہاڑوں سے آنے والے ملبے کی وجہ سے جھیل کا قطر تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ پہاڑوں سے مٹی اور پتھر جھیل میں گر رہے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر جھیل سیف الملوک کے اندر جانے والے پہاڑی ملبے کو نہ روکا گیا تو شدید بارشوں کے دوران جھیل کا پانی اوور فلو ہو کر ناران کے قصبے اور بازار کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔

کاغان میں بڑھتی ہوئی بھیڑ بھاڑ اور آلودگی کی وجہ سے وہاں کی طلسماتی جھیلوں کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔

جھیل کے ساحل پر کچی آبادی کی طرز پر ایک پورا بازار وجود میں آ چکا ہے جس میں بغیر کسی روک ٹوک کے سیاحوں کو مہنگے داموں چیزیں فروخت کی جاتی ہیں۔

گرمیوں کے موسم میں گنجان آباد شہروں کے تنگ بازاروں سے بھاگ کر آنے والے لوگوں کو یہاں بھی راہِ فرار نہیں ملتی،سینکڑوں جیپوں کا اڈہ قائم ہے جس نے سڑک پر مکمل اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ناران سے جھیل تک کے9کلومیٹر کے جیب ڈرائیور 2 ہزار روپے لیتے ہیں۔

جھیل کے دہانے پر واقع پل کو پار کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہر طرف لوگ ایک دوسرے کی تصاویر اور اپنی سیلفیاں لیتے نظر آتے ہیں۔ناران سے 48 کلومیٹر دور واقع وادیِ کاغان کی سب سے بڑی جھیل لولوسر کا بھی تقریباً یہی حال ہے ۔

لولوسر کے ساحل پر پکوڑوں اور سموسوں کی عارضی دکانیں اس جھیل کے قدرتی حسن پر بدنما داغ بن گئی ہیں۔ اس بارے میں وزیراعلی کے مشیر برائے سیاحت و ثقافت اور آثار قدیمہ زاہد چن زیب کا کہنا ہے کہ وادیِ ناران بالخصوص دیو مالائی قصوں کا حامل جھیل سیف الملوک پاکستان کا اہم ترین سیاحتی مرکز ہے جس کی بین الاقوامی اہمیت مسلمہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جھیل سیف الملوک کاغان لولوسر ناران.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جھیل سیف الملوک کاغان لولوسر کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تحریر: سید اسد عباس

9 جولائی 2024ء کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 11 ماہرین نے غزہ میں قحط کے حوالے سے شدید خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان ماہرین نے مشترکہ بیان میں کہا: ”فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی باہدف، سوچی سمجھی قحط کی صورتحال نسلی کشی کی ایک شکل ہے اور اس کے نتیجے میں پورے غزہ میں قحط پھیل چکا ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ضروری طریقے سے زمینی راستے سے انسانی امداد کی فراہمی کو ترجیح دے۔ اسرائیل کے محاصرے کو ختم کرے اور جنگ بندی قائم کرے۔" ان ماہرین میں "Right to food" کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری، محفوظ پینے کے پانی اورسینیٹیشن کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی نمائندے پیڈرو آروجو-آگوڈو، اور 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیز شامل تھے۔

ان کی رائے میں، وسطی غزہ میں بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے باوجود بھوک سے ان کی اموات نے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ غزہ قحط کا شکار ہوچکا ہے۔ "قحط" کو عام طور پر غذائیت کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کے ایک گروہ یا پوری آبادی کی بھوک اور موت کا باعث بنتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی قانون میں قحط کے تصور کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ 2004ء میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) تیار کی، جو آبادی کی غذائی عدم تحفظ کا نقشہ بنانے کے لیے ایک پانچ مراحل پر مشتمل پیمانہ ہے۔ اس تشخیصی نظام کا مقصد یہ ہے کہ جب غذائی عدم تحفظ کی نشاندہی کی جائے تو اجتماعی کارروائی کو تیز کیا جائے اور ایسی صورتحال کو IPC پیمانے پر لیول 5 تک پہنچنے سے روکا جائے، جہاں قحط کی تصدیق اور اعلان کیا جاتا ہے۔ اسے FAO، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور ان کے شراکت داروں نے گذشتہ 20 سالوں سے ایک سائنسی، ڈیٹا پر مبنی پیمانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کے تحت قحط کے اعلان کے لیے قابلِ پیمائش معیار خوفناک حد تک سیدھے سادھے ہیں: کسی علاقے میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ گھرانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو اور ان کے پاس مقابلہ کرنے کی محدود صلاحیت ہو؛ بچوں میں شدید غذائی قلت 30 فیصد سے تجاوز کر جائے اور یومیہ اموات کی شرح فی 10,000 افراد میں دو سے زیادہ ہو تو یہ قحط ہے۔ جب یہ تینوں معیار پورے ہو جائیں، تو "قحط" کا اعلان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی قانونی یا اداراتی ذمہ داری کے نفاذ کا باعث نہیں بنتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی کارروائی کو راغب کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی اشارہ ہے۔ اگر مذکورہ بالا ماہرین ایک سال سے بھی پہلے، متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کرسکتے تھے کہ محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں قحط موجود ہے، تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ متعلقہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ایگزیکٹو سربراہان اب تک اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچے کہ اس سال جولائی تک غزہ میں قحط کی سطح 5 (Level 5) تک پہنچ چکی ہے۔

آج جبکہ حقیقی معلومات سمٹ کر اسمارٹ فونز پر منتقل ہوچکی ہیں، غذائی عدم تحفظ کے مہلک درجے کی حقیقت عیاں اور قابل مشاہدہ ہے۔ لاغر جسموں کی تصاویر جو نازی حراستی کیمپوں میں لی گئی تصاویر کی یاد دلاتی ہیں، غزہ کی حقیقت کی المناک کہانی بیان کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، 20 جولائی کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کی ان وارننگز کے باوجود کہ غزہ میں دس لاکھ بچوں کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، "قحط" کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی اداروں کے پاس IPC کے لیے درکار ضروری ڈیٹا موجود نہیں ہے، اسرائیلی پابندیوں کے باعث IPC کے تجزیہ کار غزہ نہیں جا پا رہے یا جانا نہیں چاہ رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں بیٹھے افسران اپنی نوکریوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

امریکی حکومت کے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر ذاتی حملے اور ان پر عائد پابندیاں اس بات کی واضح یاد دہانی ہیں کہ یہ ملازمتیں خطرات سے خالی نہیں ہیں، نیز یہ کہ امریکہ اقوام متحدہ کے نظام میں سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ کسی بھی ادارے یا افسر کے لیے امریکی ناراضگی مول لینا  آسان نہیں ہے۔ آج فلسطینی دنیا کی گونجتی خاموشی کے درمیان بھوک سے مر رہے ہیں، جبکہ سرحد کے مصری حصے پر ٹنوں خوراک غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار کرتے ہوئے ضائع ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے غیر ملکی کرائے کے فوجیوں نے نام نہاد انسانی امداد کی تقسیم کی جگہوں پر امداد کے خواہاں 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے مطابق تقریباً 90,000 بچے اور خواتین غذائی قلت کے فوری علاج کے محتاج ہیں؛ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ 20 جولائی کو ایک ہی دن میں 19 افراد بھوک سے ہلاک ہوئے اور اس سے بدتر حالات ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔

اقوام متحدہ کے قیام سے قبل ہمارے پاس انسانی المیوں سے نمٹنے کا نظام اور معیارات موجود نہیں تھے، تاہم آج ہمارے پاس نظام اور معیارات تو ہیں، تاہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ایک مرتبہ پھر یاد آگیا، جنھوں نے لیگ آف نیشنز کے قیام کے وقت کہا تھا:
برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازیں بینش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
جہاں کا دُکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے، تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے، لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مسلمان ممالک میں مشترکہ طور پر یک نکاتی ایجنڈے پر امریکی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے ہوں، جس میں فقط ایک مطالبہ کیا جائے کہ مصر سے خوراک کے ٹرک بلا روک ٹوک غزہ پہنچنے چاہییں۔ یقیناً ہم سب مل کر یہ تو کر ہی سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مفتی مدثر احمد قادری کا وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال پر خصوصی انٹرویو
  • جھیل سیف الملوک کے راستے میں پھنسے 500 سیاح بحفاظت ریسکیو کرلیے گئے
  • خیبرپختونخواہ انتظامیہ نے کاغان میں 500 سیاحوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا
  • کلاؤڈ برسٹ سے جھیل سیف الملوک روڈ بند، 500 سے زائد سیاحوں کو ریسکیو کرلیا گیا
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • پرائم استعمال کرنے والے صارفین کے اکاؤنٹس خطرے میں، ایمازون نے خبردار کردیا
  • مودی راج میں ریاستی الیکشنز سے پہلے ہی انتخابی نظام کی ساکھ خطرے میں
  • شاہراہِ تھک بابوسر تاحال بند، وادی تھور میں مزید 2 افراد کے سیلاب میں بہنے کی اطلاع
  • چین کا نئے J-35 اسٹیلتھ فائٹر طیارے نے امریکی بحریہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی
  • امیر ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کا تدارک کریں، عالمی عدالت انصاف