جرمن اسٹارٹ اپ کمپنیوں کے بانیوں میں خواتین کی شرح کم کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اپریل 2025ء) ایک حالیہ مطالعے کے نتیجے میں سامنے آیا ہے کہ جرمنی میں اسٹارٹ اپ کمپنیوں کے بانیوں میں خواتین کی شرح پچھلے سال کچھ کم ہوئی اور اب صرف 19 فیصد ہے۔ یعنی ہر پانچ میں سے چار اسٹارٹ اپس کے قیام کے وقت ان کمپنیوں کے مالکان مرد ہوتے ہیں۔
یہ سروے اسٹارٹ اپ ایسوسی ایشن کی جانب سے بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کے لیے کیا گیا، جس میں 1800 اسٹارٹ اپس کے مالکان اور 1000 طلبہ نے حصہ لیا۔
اس جائزے میں اسٹارٹ اپس کے بانیوں میں خواتین کی کم شرح کی مختلف وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے، جیسے کہ رول ماڈلز کا نہ ہونا اور معاشرے میں ان کے کردار کا روایتی تصور یا اسٹیریوٹائپس۔ اس اسٹڈی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کاروبار چلانے اور گھریلو زندگی میں توازن رکھنا خواتین کے لیے مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ اب بھی گھر اور بچوں کا خیال رکھنے کی زیادہ تر ذمہ داریاں خواتین ہی کے حصے میں آتی ہیں اور بچوں کی پیدائش کے ساتھ کاروبار کا آغاز ان کے لیے زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔
(جاری ہے)
اس مطالعے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مردوں کی نسبت خواتین زیادہ بڑی عمر میں کاروبار شروع کرنے کا سوچتی ہیں۔ اس سروے میں شامل اسٹارٹ اپ مالکان میں سے دو تہائی مردوں نے نوجوانی یا طالب علمی میں ہی کاروبار شروع کرنے کا سوچ لیا تھا، جبکہ اکثر خواتین نے اس بارے میں زیادہ بڑی عمر میں سوچا کیوں کہ اس سے قبل ان کی ترجیحات دوسری تھیں۔
سروے کے جواب دہندگان میں سے 60 فیصد طالبات نے مستقبل میں ایسی ملازمت کرنے کی خواہش ظاہر کی جو اپنے دورانیے کے لحاظ سے محفوظ ہو۔ تاہم یہی پہلو ایک تہائی سے بھی کم مرد طلبہ کی ترجیح تھا۔
نتیجتاﹰ نوجوانی میں چند ہی خواتین اسٹارٹ اپس کا آغاز کرتی ہیں اور اس حوالے سے ان کی سوچ آگے جا کر تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس مطالعے کے مطابق اسٹارٹ اپس کے بانیوں میں سے صرف ایک تہائی خواتین نے اپنا کیریئر شروع کرنے کے پہلے سال میں کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ ایک چوتھائی نے یہ فیصلہ اس کے بھی بعد کیا۔
اس مطالعے کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ کاروبار کے شعبے میں خواتین کی شمولیت ان کی عدم دلچسپی کے باعث نہیں بلکہ دیگر عوامل کی وجہ ہے اور اس سلسلے میں حالات کو خواتین کے لیے بہتر بنایا جانا چاہیے۔ اسٹارٹ اپ ایسوسی ایشن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جرمنی خواتین کی صلاحیتوں کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، بالخصوص معاشی جمود کے دور میں کیونکہ اسٹارٹ اپس اس جمود کو کم کرنے اور معیشت میں جدت کا سبب بنتی ہیں۔
م ا / م م (ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں خواتین کی اسٹارٹ اپس کے کے بانیوں میں اسٹارٹ اپ کرنے کا کے لیے
پڑھیں:
غزہ: حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کو تباہ کن حالات کا سامنا، یو این ادارہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے بتایا ہے کہ غزہ میں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کو غیرفعال طبی نظام، نفسیاتی دباؤ اور خوراک سے محرومی سمیت تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔
ادارے کے مطابق، رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران غزہ میں 17 ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی جو گزشتہ تین سال کی شرح کے مقابلے میں 41 فیصد کم تعداد ہے۔
Tweet URL'یو این ایف پی اے' میں عرب ممالک کے لیے ریجنل ڈائریکٹر لیلیٰ بکر نے کہا ہے کہ ہر ماں اور بچے کو محفوظ پیدائش اور زندگی کے صحت مند آغاز کا حق حاصل ہے۔
(جاری ہے)
لیکن غزہ میں ماؤں اور بچوں کو ان حقوق سے دانستہ محروم رکھا جا رہا ہے اور پوری نسل تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے۔ایسے پریشان کن حالات کے علاوہ غزہ پر اسرائیل کی بمباری بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی تمام آبادی کم از کم ایک مرتبہ بے گھر ہو چکی ہے اور 60 ہزار سے زیادہ لوگ اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
قابل انسداد اموات'یو این ایف پی اے' نے کہا ہے کہ طبی نگہداشت کے نظام کو منظم طور سے حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو پہلے ہی تباہی سے دوچار ہے اور اس کے نتیجے میں ماؤں اور نومولود بچوں کو ناقابل برداشت صورتحال کا سامنا ہے۔
بیشتر ہسپتال اور طبی مراکز تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ ادویات اور طبی سازو سامان کی شدید قلت ہے۔لیلیٰ بکر نے بتایا ہے کہ غزہ میں ایمبولینس گاڑیاں چلانے میں بھی سنگین مشکلات حائل ہیں جس کے باعث حاملہ خواتین کو طبی خدمات کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں زچگی کے دوران قابل انسداد پیچیدگیاں بھی موت کا باعث بن جاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں نوزائیدہ ماؤں اور ان کے بچوں کی تکالیف ناقابل تصور ہیں۔امداد کی بحالی کا مطالبہ'یو این ایف پی اے' نے بتایا ہے کہ اس کے 170 ٹرک مارچ سے امدادی سامان لے کر غزہ کی سرحد پر کھڑے ہیں جس میں الٹراساؤنڈ مشینیں، پورٹیبل انکیوبیٹر اور زچگی میں علاج معالجے کا سامنا موجود ہے لیکن انہیں غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ادارے نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ علاقے میں ایندھن، طبی سازوسامان اور مقوی خوراک سمیت ہر طرح کی انسانی امداد کی بلارکاوٹ اور مسلسل فراہمی کو بحال کرے۔ اس معاملے میں ہر لمحے ہونے والی تاخیر کے نتیجے میں مزید لوگ قابل انسداد وجوہات کی بنا پر موت کا شکار ہو جائیں گے اور غزہ کی آبادی کو درپیش ناقابل بیان تکالیف میں اضافہ ہوتا جائے گا۔