چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی انٹراسپیکرز کانفرنس کے بانی چیئرمین نامزد
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی انٹراسپیکرز کانفرنس کے بانی چیئرمین نامزد WhatsAppFacebookTwitter 0 2 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز) چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کو انٹرپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس(آئی ایس سی) کا بانی چیئرمین نامزد کر دیا گیا ہے۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں قائم عالمی فورم دنیا بھر میں پارلیمانی مکالمے کو فروغ دینے، پائیدار ترقی کے اہداف کو آگے بڑھانے اور اہم عالمی چیلنجز جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، قابل تجدید توانائی، اور پانی کی قلت پر بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے وقف ہے۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کو اس اہم فورم کا بانی چیئرمین حالیہ کامیاب دورہ کوالالمپور کے دوران نامزد کیا گیا، جہاں انہوں نےآئی ایس سی کے آئندہ اجلاس سے متعلق خصوصی بریفنگ میں شرکت کی۔
یونیورسل پیس فیڈریشن(یو پی ایف) کے زیر اہتمام سیئول میں منعقد بین الاقوامی سربراہی اجلاس 2025 کے دوران ہوگی جہاں اس نامزدگی کی باقاعدہ تقریب ہوگی اور اجلاس میں 150 ممالک کے 500 مندوبین اور 45 پارلیمانی اسپیکرز شرکت کریں گے۔
یوسف رضا گیلانی کو ایک خصوصی ایوارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں ان کے پارلیمانی سفارت کاری کے کردار اور عالمی امن و ترقی کے لیے کوششوں کو سراہا گیا، ان کی یہ نامزدگی نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی پارلیمانی ساکھ کو تقویت دیتی ہے بلکہ خطے میں پارلیمانی تعاون اور مکالمے کو بھی فروغ دیتی ہے۔
بریفنگ سیشن کے دوران اپنے خطاب میں یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ آئی ایس سی محض ایک کانفرنس نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی وژن ہے جو باہمی انحصار، مشترکہ خوش حالی اور عالمی اقدار پر مبنی ہے۔
انہوں نے تین ترجیحی شعبوں موسمیاتی تبدیلی، قابل تجدید توانائی اور پانی کی قلت پر خصوصی توجہ دینے کا اعلان کیا۔
عالمی پارلیمانی قیادت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ مشترکہ نظریات کو پالیسی اقدامات میں تبدیل کریں تاکہ عالمی امن، علاقائی استحکام اور پائیدار ترقی کو ممکن بنایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس سی عالمی سطح پر پارلیمانی اشتراک، پالیسی سازی اور سفارتی شراکت داری کے ایک مؤثر فورم کے طور پر کردار ادا کرے گا۔
اس موقع پر چیئرمین سینیٹ کے ہمراہ اسپیکر ملائشیا معالی تن سری داتو’ ڈاکٹر جوہری بن عبدل، آئی ایس سی کے شریک چیئرمین آن چنگ وو لی، چیئرمین یو پی ایف انٹرنیشنل ڈاکٹر چارلس ایس یانگ، رکن پارلیمان نیپال ایک ناتھ دھکل، سینیٹر ملائشیا ڈاکٹر محمد متا مد رملی، سیکریٹری جنرل ایشین واٹر کونسل ڈاکٹر چو یونگ ڈاک اور معروف پاکستانی کاروباری شخصیت عثمان چوہدری پر مشتمل وفد بھی تھا۔
مزید برآں، چیئرمین سینیٹ نے اسپیکر ملائشیا سے ملاقات میں دو طرفہ پارلیمانی تعلقات اور تعاون کو مزید فروغ دینے پر بات چیت کی، جس کے بعد اسپیکر ملائشیا نے معزز مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا جبکہ سفیر پاکستان سید احسن رضا نے بھی چیئرمین گیلانی کے اعزاز میں خصوصی عشائیہ ترتیب دیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ بانی چیئرمین
پڑھیں:
سیول کا عہد نامہ عالمی تعاون پر اعتماد سازی میں اہم ہوگا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 03 جولائی 2025ء) سول سوسائٹی کے اداروں نے سپین کے شہر سیویلا میں اقوام متحدہ کی مالیات برائے ترقی کانفرنس (ایف ایف ڈی 4) میں طے پانے والے اتفاق رائے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقیقی پیش رفت کا دارومدار پائیدار اقدامات پر ہو گا۔
کانفرنس میں شرکت کرنے والے سول سوسائٹی کے نمائندوں کی بڑی تعداد جنوبی دنیا کے ممالک سے تعلق رکھتی ہے جنہوں نے امیر ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طویل عرصہ سے چلی آ رہی بنیادی عدم مساوات سے نمٹںے کے لیے خاطرخواہ عزم اور قائدانہ کردار کا مظاہرہ کریں۔
Tweet URLیہ کانفرنس مضبوط علامتی اہمیت کی حامل ہے جس کا اظہار اس میں طے پانے والے 'سیویل عہد نامے' کی ترجیحات سے ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
تاہم، سول سوسائٹی نے خبردار کیا ہے کہ اس موقع پر کیے جانے والے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت سا کام کرنا ہو گا۔سیویل عہد نامے کے اہم نکاتکانفرنس میں طے پانے والے سیویل عہد نامے میں پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے اور اس سے متعلقہ گزشتہ بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد کو آگے بڑھانے کے لیے ہر سال درکار کئی ٹریلین ڈالر جمع کرنے کی غرض سے نیا عالمگیر لائحہ عمل طے کیا گیا ہے۔
اس میں محصولاتی نظام منصفانہ بنانے، ٹیکس سے بچنے کے رجحان کا خاتمہ کرنے، غیرقانونی مالیاتی بہاؤ پر قابو پانے اور سرکاری ترقیاتی بینکوں کو قومی ترجیحات کے حصول میں مدد دینے کے لیے مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
عہدنامے میں کہا گیا ہے کہ کمزور ممالک پر قرضوں کے بوجھ میں کمی لانے کے لیے نئے ذرائع سے کام لینا ہو گا جن میں قرضوں کے تبادلے کے منصوبے، بحرانوں کے دوران قرضوں کی ادائیگی میں وقفے کی سہولت اور شفافیت کو بہتر بنانا شامل ہیں۔
اس میں رکن ممالک نے کثیرفریقی بینکوں کی صلاحیت میں اضافہ کرنے، خصوصی قرضوں کے حصول کے حقوق کو بڑھانے اور ترقی میں مدد کے لیے نجی شعبے سے مزید سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا عزم بھی کیا ہے۔
عہد نامے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عالمگیر مالیاتی نظام کو مزید مشمولہ اور جوابدہ ہونا چاہیے جس کے لیے ارتباط میں اضافہ، معلوماتی نظام کی مضبوطی اور سول سوسائٹی و دیگر کی وسیع تر شرکت خاص طور پر اہم ہیں۔
اس عہد کے تحت 'سیویل لائحہ عمل' کا اجرا کیا گیا ہے جس میں شامل 130 سے زیادہ اقدامات کے ذریعے پہلے ہی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔
اعتماد بحال کرنے کی کوششلندن میں قائم تحقیقی مرکز 'بین الاقوامی ادارہ برائے ماحولیات و ترقی' (آئی آئی ای ڈی) کی نمائندہ پاؤلا سیویل کئی دہائیوں تک لاطینی امریکہ، ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں استحکام اور موسمیاتی انصاف کے لیے کام کر چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر بین الاقوامی تعاون پر اعتماد بحال کرنے کے لیے منعقد ہوئی ہے جب دنیا میں یکجہتی کا فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے اور کووڈ۔19 وبا کے بعد یہ صورتحال کہیں زیادہ خراب دکھائی دیتی ہے۔اس کانفرنس میں 'آئی آئی ای ڈی' کا ایک اہم مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ اعلان کردہ مالیاتی وعدوں کے عملی نتائج نچلی سطح پر ان لوگوں تک بھی پہنچیں جو موسمیاتی بحران کا سب سے پہلے نشانہ بنتے ہیں۔
ان کے ادارے نے کانفرنس کے شرکا سے غیرملکی قرضوں کے مسائل سے نمٹنے اور متوازن مالیات جیسے اختراعی طریقہ کار کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان لوگوں کو مالی وسائل تک رسائی ملنی چاہیے جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔کانفرنس کے موقع پر ایک احتجاجی مظاہرے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاؤلا سیویل نے کہا کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک کو اپنے ہاں صحت و تعلیم سے کہیں زیادہ وسائل قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑتے ہیں جبکہ عدم مساوات شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
کانفرنس کی حتمی دستاویز میں پائیدار ترقی کے تناظر میں رہائشی مسائل کا حل شامل نہیں ہے۔ پاؤلا سیویل نے اسے افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کو رہائشی اخراجات کے بحران کا سامنا ہے اور یہ صورتحال صرف جنوبی دنیا کے ممالک میں ہی نہیں بلکہ سپین میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے شہریوں کو تکلیف کا سامنا ہوتا ہے اور حکومتوں پر ان کے اعتماد میں کمی آتی ہے لیکن کانفرنس میں اسے مکمل طور سے نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کے باوجود ان کا ادارہ کانفرنس کے نتائج سے ایسے طریقے ڈھونڈے گا جن کی بدولت لوگوں کو مزید سستی رہائش مہیا کرنے کے لیے مالی وسائل کا اہتمام ہو سکے۔
محصولاتی نظام کو منصفانہ بنانے اور دنیا کے امیر ترین لوگوں کی جانب سے ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے رجحان کا خاتمہ کرنے کے لیے سپین اور برازیل کے زیرقیادت اقدام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے شفافیت اور احتساب کو فروغ ملے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ اقدام بنیادی عدم مساوات پر قابو پانے کا ایک مفید ذریعہ ہو سکتا ہے۔محصول برائے ترقیانہوں نے کہا کہ شمالی دنیا کے ممالک کی جانب سے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے جبکہ ٹیکس نہ دینے یا بہت کم ٹیکس دینے والے دنیا کے متعدد بڑے کاروباری اداروں کا تعلق شمال سے ہے۔ ان کی جانب سے اس معاملے میں بہتری لانے کے عزم کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہو گا۔
انہوں نے کانفرنس میں امریکہ کی عدم شرکت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناصرف ایک سفارتی ناکامی بلکہ اس کے بین الاقوامی ادارہ برائے ترقی (یو ایس ایڈ) کا خاتمہ ہونے کے بعد ایک پریشان کن مثال بھی ہے۔
پاؤلا سیویل نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کی تکمیل کے لیے مقررہ مدت ختم ہونے میں محض پانچ سال باقی ہیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور حقیقی تبدیلی لانے کے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ عہد نامہ بے معنی ہو گا۔اس مقصد کے لیے سیاسی قیادت، تعاون کا ارادہ اور جمہوری گنجائش کو تحفظ دینے کا عزم درکار ہے۔ آخر میں منظم لوگ ہی امید کو زندہ رکھتے اور اپنے رہنماؤں سے جواب طلبی کرتے ہیں۔