اقتصادی خودمختاری، پابندیوں کا مؤثر جواب یا محض خواب؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
اگر امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ فیکٹ شیٹ پرنظردوڑائیں تواس میں دو ٹوک اورسخت پاندیاں لگاتے ہوئے کہاگیاہے کہ ان چاروں کمپنیوں کے امریکا میں موجودیا امریکی افرادکی تحویل میں موجود تمام تراثاثے منجمد کردئیے جائیں گے۔ان کمپنیوں کی ملکیت رکھنے والے افرادکے امریکامیں داخلے پربھی پابندی لگادی جائے گی اورامریکی شہریوں کوان کے ساتھ کاروبار کرنے سے روک دیاجائے گا۔
چین کی42کمپنیاں ہیں جوجدیدالیکٹرانک اورمیزائل ٹیکنالوجی سے منسلک ہیں جن میں اہم نام ہوائے کلاڈ،سینوٹیک الیکٹرانکس اورچینجڈو ایروسپیس ہیں۔ان کمپنیوں پریہ الزامات ہیں کہ یہ چینی فوج پیپلز لبریشن آرمی جدید ڈرون ٹیکنالوجی سپلائی کرنے میں ملوث ہے اور2018ء میں بیلاروس کی منسک ڈیفنس سلوشن سمیت7انجینئرنگ کمپنیوں کوبھی اس فہرست میں شامل کرلیاگیاجس پر پابندیاں عائدکردی گئیں۔
اسی طرح متحدہ عرب امارات کی چارکمپنیاں ڈیزرٹ فالکن ٹیکنالوجیز،سکائی لائن ڈیفنس سلوشن کونامزدکیاگیاہے جوایران کو شہاب تھری میزائل کے جائرو اسکوپس پرزے اورڈرونز کے پرزے سپلائی کررہی ہیں۔یوکرین کو امریکی ہتھیار فراہم کرنے والی کمپنیوں نے رپورٹ کیا کہ روس ایرانی ساختہ ڈرونزکے ذریعے یوکرین پرحملے کررہاہے جن کے پرزے متحدہ عرب امارات کی کمپنیوں نے سپلائی کئے۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے تاحال کوئی باضابطہ ردعمل نہیں آیا، لیکن ایران کے ساتھ تجارت میں کمی کردی ہے لیکن ایک اطلاع کے مطابق متحدہ عرب امارات نے غیرسرکاری سطح پر پرزے سپلائی کرنے والی کمپنیوں کوبندکردیا ہے۔اس کے ساتھ ہی یو اے ای کی تجارتی برادری میں شدیدتشویش پائی جاتی ہے۔
چین کاجے ایل تھری سب میرین میزائل منصوبہ بھی سست روی کاشکارہے جس میں سینوٹیک الیکٹرانکس کاکردارتھا۔چین کی کمپنی ہووائے کلاڈکے شئیرزمیں15فیصد کمی آگئی ہے جس سے اس کی مارکیٹ ویلیو20بلین ڈالرتک گرگئی ہے۔یہ پہلاموقع نہیں جب امریکا نے پاکستان یا دیگر ممالک کی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہوں۔ اپریل 2004 ء میں چین کی3اوربیلاروس کی ایک کمپنی پرپابندی عائدکی گئی جوپاکستان کے میزائل پروگرام میں مدددے رہی تھیں۔ 2018ء میں پاکستان کی7اورانجینیئرنگ کمپنیوں کو سخت نگرانی کی فہرست میں شامل کیاگیاتھا۔
2018 ء میں کراچی انجیئرنگ ورکس پر ’’روٹرز‘‘ سنٹری فیوج کی غیر قانونی فروخت کی بنا پر پابندی لگا دی گئی تھی اسی طرح دسمبر2021ء میں پاکستانی کمپنیوں پرجوہری اورمیزائل پروگرام میں مبینہ مددکے الزام میں پابندیاں لگائی گئی تھیں اور اب 2021ء میں سپارکوپرراڈارسے بچنے والے اسٹیلتھ میٹریل ڈیسٹومیں ترقی حاصل کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے اورڈیفنس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آرگنائزیشن ’’ڈیسٹو‘‘پر غوری4میزائل کے لئے ڈیجیٹل گائیڈنس سسٹم کی تیاری کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے اور ’’گڈز‘‘گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشن پرجے ایف تھنڈر 17 طیاروں کے لئے ایل ای ڈی ایویونکس کوتیارکرنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ اسی طرح کراچی انجینئرنگ ورکس پریورینیم افزودگی میں استعمال ہونے والے ’’پی ٹوسنٹرفیوج‘‘کے پرزے تیارکرنے کے الزام میں پابندی لگادی گئی ہے۔پاکستانی کمپنی ’’واہ نوبل گروپ‘‘ کو جوہری ری ایکٹرزمیں استعمال ہونے والے’’ڈی ٹواو‘‘ ہیوی واٹرکی غیرقانونی فروخت کاالزام لگاکرپابندی لگادی گئی ہے۔
اپریل2024 ء میں چین کی چینجڈوایروسپیس پریہ الزام لگاکرپابندی عائدکردی گئی کہ یہ پاکستان کے بابرتھری کروزمیزائل کے لئے کمپوزٹ میٹریل سپلائی کرتی ہے جومیزائل کوایک ہزارکلومیٹرتک رینج فراہم کرتے ہیں اوربیلا روس کی منک ڈیفنس سلوشن پر اس لئے پابندی عائد کی گئی کہ وہ پاکستان کے شاہین تھری میزائل کے لئے سٹیلتھ کوٹنگ کی ترقی میں مدددے رہی ہے۔
امریکی مؤقف ہے کہ یہ پابندیاں امریکی پالیسی کاحصہ ہیں جوحساس ٹیکنالوجیزکی منتقلی روکنے کے لئے بنائی گئی ہیں لیکن عالمی ماہرین کو اس دہرے معیارپربہت تحفظات ہیں کہ خطے میں بھارت برملاان عالمی پابندیوں کی خلاف ورزی کررہاہے لیکن اس کے باوجودامریکااوراس کے اتحادی’’سول ایٹمی ٹیکنالوجی معاہدے‘‘کی آڑمیں نہ صرف بھارت کی مدد کررہے ہیں بلکہ اس پراپنی آنکھیں بھی بندکرکے مکمل خاموش ہیں۔
امریکی پابندیوں کے جواب میں مختلف ممالک کاردعمل سامنے آیاہے۔چین نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے’’امریکی یکطرفہ کارروائی ‘‘ قرار دیا ہے اورعالمی تجارتی تنظیم ’’ڈبلیوٹی او‘‘میں اس کی شکائت درج کرانے کا عندیہ دیاہے۔چین نے جوابی پابندیوں کااعلان کرتے ہوئے امریکی پابندیوں کو اقتصادی دہشت گردی قراردیاہے جبکہ پاکستان نے امریکاسے ان پابندیوں کی وضاحت طلب کرتے ہوئے اسے سفارتی سطح پراٹھانے کے لئے داخلی سطح پرایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے جواس پرفوری مناسب اقدامات اٹھائے گی جبکہ ان پابندیوں کے رد عمل میں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاہے کہ یہ پابندیاں ہمارے دفاعی حق پرحملہ ہیں،ہم اپنے دفاعی پروگرامز پرکسی کوٹوکنے نہیں دیں گے اورہم اپنے میزائل پروگرام کوجاری رکھیں گے۔پاکستانی وزارت خارجہ نے آئی اے ای اے کوخط لکھ کرامریکی پابندیوں کوغیرمنصفانہ قراردیاہے۔امریکاپاکستان کوجوہری عدم پھیلاؤ’’این ٹی پی‘‘کے معاہدے پردستخط کرنے پر مجبور کرناچاہتاہے جبکہ پاکستان کامؤقف ہے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت دفاعی ہے اورکسی کو کوئی خطرہ نہیں۔
پاکستان کے لئے ٹیکنالوجی کا مقامی حل یہ ہے کہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کوسیمی کنڈکٹرریسرچ لیب قائم کرنے کے لئے فنڈزمہیا کئے جائیں۔
اقوام متحدہ میں جوہری عدم پھیلاکے معاہدے پربین الاقوامی مذاکرات شروع کئے جائیں جہاں نئی شرائط پربات چیت کرکے تیسری دنیاکے ممالک کوایسی نارواپابندیوں کے عذاب سے محفوط کیاجائے۔
عالمی تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ تمام متاثرہ ممالک مل کرجوابی پابندیوں سے امریکاکوبہترین جواب دے سکتے ہیں جس کی ایک مثال تویہ ہے کہ امریکاکی مائیکروچپ صنعت کاچین پر80 فیصد انحصارکرتی ہے اورچین ان پابندیوں کے جواب میں اس کااعلان کرچکاہے کہ وہ ان بیجااورناروا پابندیوں کاضرورجواب دے گا۔اب امریکاکے ساتھ سفارتی سطح پر مذاکرات کے ذریعے ان پابندیوں پروضاحت طلب کی جائے۔
بین الاقوامی تجارتی قوانین کے تحت امریکاکے فیصلے کوچیلنج کیاجائے۔ اقوام متحدہ یاعالمی تجارتی تنظیم میں ان غیرقانونی پابندیوں کے خلاف اپیل دائرکی جائے۔ قانونی اقدامات اٹھاتے ہوئے متاثرہ کمپنیوں کے لئے قانونی چارہ جوئی کے راستے تلاش کئے جائیں۔ امریکی پابندیوں سے متاثر ممالک فوری طورپرمتبادل تجارتی راستے اختیار کرتے ہوئے اقدامات اٹھائیں۔ چین، روس، ترکی اورمشرق وسطی کے دیگرممالک کے ساتھ تجارت کوفروغ دیں۔ اپنی دفاعی اورصنعتی صلاحیتوں کوبڑھانے کے لئے اندرونی وسائل پر توجہ دیں۔ اپنی کمپنیوں کے تجارتی طریقوں کوعالمی قوانین کے مطابق شفاف بنانے کے لئے اندرونی نگرانی کے عمل کوفروغ دیں۔ جوہری اورمیزائل پروگرامزکے بارے میں بین الاقوامی ایجنسیوں آئی اے ای اے کی رپورٹنگ کوبڑھانے کی ضرورت پرزوردیں ۔ امریکاکی جاسوسی سے بچنے کے لئے خفیہ کمیونیکیشن نیٹ ورکس قائم کرکے سائبرسیکورٹی کے نظام کومزیدمضبوط بنایا جائے۔
چینی وزارتِ خارجہ نے کہاکہ ہرصورت سی پیک کوکسی بھی بیرونی دباؤسے محفوظ رکھاجائے گا۔ پاکستان اورچین سی پیک کی حفاظت کے لئے گورڈن گارڈزفورس کوجدیدسیکورٹی ٹیکنالوجی سے لیس کریں گے۔ امریکی پابندیوں کامقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مستقل بنیادوں پرمستقبل کی حکمت عملی کالائحہ عمل تیارکیاجائے۔
جدیدٹیکنالوجی کے دورمیں آئی ٹی نے تمام ٹیکنالوجیزپرسبقت حاصل کرلی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ مستقبل میں سائبرجنگ کی تیاری کے لئے اے آئی آرٹیفشل ٹیکنالوجی سے پاکستان کے سیکورٹی کمانڈ کو جدید ترین نیشنل سائبرٹولزسے لیس کیاجائے۔ تمام متاثرہ ممالک روس،چین اورترکی کے ساتھ ٹیکنالوجی شیئرنگ معاہدوں کاآغازکریں اور مضبوط بنیادوں پرسیکورٹی ٹولزکا تبادلہ کیاجائے۔
امریکی پابندیاں عالمی تجارتی نظام اورسفارتی تعلقات پرگہرے اثرات ڈال سکتی ہیں۔ پاکستان ، چین ،اور دیگرمتاثرہ ممالک کواپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے عالمی سطح پراپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگریہ ممالک سفارتی اور تجارتی سطح پرمؤثرحکمت عملی اختیارکرتے ہیں،تووہ ان پابندیوں کے ممکنہ منفی اثرات کوکم کرسکتے ہیں ۔ امریکاکی یہ پابندیاں جیوپولیٹیکل کشمکش کاحصہ اورطاقت کے نئے عالمی توازن کی عکاس ہیں،جس میں چین کوروکنے کیلئے پاکستان جیسے اتحادی کونشانہ بنا کر دبائو میں لیا جارہا ہے ۔
متاثرہ ممالک کوچاہیے کہ ان چیلنجزسے نمٹنے کے لئے مقامی ٹیکنالوجی کی ترقی،بین الاقوامی سفارت کاری، اقتصادی خودمختاری کوترجیح دیں کیونکہ اقتصادی خودکفالت ہی ان تمام مسائل کی کلیدہے اورعلاوہ ازیں بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے دفاعی حقوق کاتحفظ کریں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پابندی لگادی گئی ہے متحدہ عرب امارات امریکی پابندیوں متاثرہ ممالک بین الاقوامی ان پابندیوں پابندیوں کے پاکستان کے پر پابندی میزائل کے کرتے ہوئے کے ساتھ ہے اور چین کی کے لئے
پڑھیں:
ماتمِ پہلگام ۔۔۔۔۔۔خاموشی کی چیخ
کشمیر،وہ دلِ مضطرب جوبرف پوش پہاڑوں کے سینے میں دھڑکتاہے،ایک بارپھرلہو لہان ہوگیاہے۔پہلگام کی سرسبزوادی،جو کبھی سیاحوں کی مسکراہٹوں سے جگمگاتی تھی،آج ماتم کدہ بن چکی ہے۔وادی کشمیر،برصغیرکے دل میں ایک ایساخطہ ہے جو اپنی فطری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک پیچیدہ تاریخی وجغرافیائی ورثہ بھی رکھتاہے۔برطانوی استعمارکے اختتام پرجب برصغیرکوتقسیم کیاگیاتوریاست جموں وکشمیر کی حیثیت متنازعہ ہوگئی۔اس نزاع نے خطے کوایسی کشمکش میں دھکیل دیاجوآج بھیگزشتہ78سالوں سے سلگ رہی ہے۔
پہلگام میں سیاحوں پرحملہ صرف کشمیرمیں ہی نہیں بلکہ عالمی امن واستحکام کیلئیایک سنگین چیلنج ہے۔یہ خطہ1989ء سے تشدد کی لپیٹ میں ہے،جس میں بیرونی مداخلت،مقامی ناراضگی اورجیواسٹریٹجک مفادات کاامتزاج نظرآتاہے۔تاحال کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی،جوعام طورپرکشمیرمیں دہشت گرد واقعات کے برعکس ہے۔یہ خلاء سازش کے نظریات کوہوادیتاہے۔
بیسرن کے سنسان میدانوں میں گونجتی گولیوں کی آوازنے نہ صرف انسانی جانیں نگلیں،بلکہ اس وادی کی خوبصورتی کوبھی نوحہ گربنادیا۔وہ میدان جہاں کبھی بچے تتلیاں پکڑتے تھے،آج خون آلودکپڑوں اورسسکیوں سے بھرچکاہے۔وہ چراگاہ جس پرکبھی گڈریے بانسری بجاتے تھے،آج انسانی المیے کی گواہی دے رہی ہے۔ پہلگام،جہاں حالیہ دہشت گردانہ حملہ ہوا،ضلع اننت ناگ کاسیاحتی مقام ہے اوراس کامحلِ وقوع نہایت اسٹریٹیجک ہے۔یہ علاقہ نہ صرف مقامی سیاحت کامحورہے بلکہ امرناتھ یاتراکاایک اہم پڑابھی ہے، جس کی بنیاد پر یہاں ہمہ وقت سکیورٹی موجودرہتی ہے۔
یہ حملہ محض ایک واردات نہیں،بلکہ ایک پیغام ہیایک خاموش اشارہ،جو سیاسی بساط پرکچھ بڑی چالوں کاپیش خیمہ معلوم ہوتاہے۔یہ حملہ عین اس وقت وقوع پذیرہوتاہے جب ایک اعلیٰ امریکی وفد ہندوستان کے دورے پرموجودہے۔کیایہ محض اتفاق ہے؟ یاایک گہری، پیچیدہ سازش کاوہ مکارانہ باب ہے جس سے انسانی مستقبل کی تباہی کے مناظرچیخ چیخ کر اپنے طرف متوجہ کر رہے ہیں؟یہ وہ سوال ہے جس کاجواب تلاش کرنامحض صحافت کی نہیں،ضمیرِ انسانی کی ضرورت ہے۔
یہ پہلی بارنہیں کہ جب کبھی عالمی توجہ ہندوستان کی طرف مائل ہوتی ہے،کشمیرمیں خون کی ندی بہادی جاتی ہے۔تاریخ کی گردسے جھانک کردیکھئے توجب بھی کوئی اعلیٰ امریکی عہدیدار بھارت آتاہے،کشمیرمیں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتاہے۔ کیاتعجب ہے کہ جب بھی امریکی یادیگرمغربی رہنماجنوبی ایشیاکادورہ کرتے ہیں،خطے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھاگیا ہے۔مثال کے طورپر
2000ء میں امریکی صدرکلنٹن کے دورہ بھارت کے دوران چھٹی سنگھ جموں میں50سکھوں کوان کی مذہبی عبادت گاہ گوردوارہ میں گولیوں سے بھون دیاگیااورصرف آدھ گھنٹے میں اس کاالزام کشمیری مجاہدین اورپاکستان پرلگادیا گیا جبکہ خودبھارتی حکومت کی طرف سے مقررکردہ تحقیقی کمیشن جس کی سربراہی ایک ریٹائرڈجسٹس اورایک ریٹائرڈفوجی جرنیل کے ساتھ دیگرسوشل سروس کے ایک ماہرنے مشترکہ تحقیق کے بعدانڈین انٹیلی جنس کوموردِ الزام ٹھہرادیا۔
اسی طرح 2016ء میں پٹھانکوٹ میں فوجی اڈے پرامریکی صدراوباماکے دورے سے قبل ہوا،جسے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے استعمال کیاگیا۔
جون2024ء میں ہندو یاتریوں پرحملہ،جس میں9افرادہلاک ہوئے۔ابتدائی الزامات حسبِ روایت پاکستان پرلگائے گئے،مگربعدازاں تحقیقات کی دبیزپرتوں میں سے انڈین خفیہ اداروں کے سائے جھانکتے نظرآئے۔
الفاران نامی گروہ نے1995ء میں پہلگام میں6غیرملکی سیاحوں کواغواکیا،لیکن تحقیقات میں انڈین خفیہ ایجنسی’’را‘‘کاہاتھ پایاگیا۔بعد میں یہ اغواکاری ایک’’فالس فلیگ‘‘ آپریشن ثابت ہوا۔
اب پہلگام پرموجودہ حملہ امریکی نائب صدرکے دورے کے موقع پرپیش آگیاجس کے بارے میں کئی عالمی تجزیہ نگاربھی شکوک وشبہات کااظہارکررہے ہیں کہ حملہ ممکنہ طور پرانڈیاکوبین الاقوامی ہمدردی حاصل کرنے یاتوجہ ہٹانے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ آج ایک مرتبہ پھرامریکی نائب صدرکادورہ ہندایک اہم خارجی پس منظرمہیاکرتاہے۔ایسے واقعات نہ صرف خطے میں غیریقینی کی فضاپیداکرتے ہیں بلکہ عالمی توجہ کومخصوص بیانیوں کی طرف موڑتے ہیں۔
ٹرائیکا(امریکا،اسرائیل اورانڈیا)کے ملوث ہونےکےواضح ثبوت اورشواہدموجودہیں۔ بلوچستان اورکشمیرمیں ٹرائیکا پاک چین کے اس عظیم الشان پراجیکٹ سی پیک سے اس لئے خوفزدہ ہے کہ اس کی تکمیل سے دنیابھرکی تجارتی منڈیوں پرامریکااورمغرب کی اجارہ داری ختم ہونے کاخدشہ ہے۔اسی لئے امریکانے چین کوبحرِ ہنداوربحرالکاہل میں محدود کرنے کے لئے ’’کواڈ‘‘ جیسااتحاد بنایا ہے۔ بحرہندکے سونامی کے بعد ہندوستان، جاپان،آسٹریلیااورامریکانے آفات سے بچاکی کوششو ں میں تعاون کے لئے 2007ء میں ایک غیر رسمی اتحادبنایا۔جاپان کے اس وقت کے وزیراعظم شینزو آبے نے اس اتحادکوباضابطہ چوکورسیکورٹی ڈائیلاگ یاکواڈکی طرح شکل دی۔کواڈکوایشین آرک آف ڈیموکریسی قائم کرنا تھالیکن اپنے ممبروں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی اورالزامات کی وجہ سے یہ گروپ چین مخالف بلاک کے سواکچھ نہیں رہا۔کواڈکی ابتدائی تکراربڑی حدتک سمندری سلامتی پرمبنی رہی ہے لیکن اب امریکا اسے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی اورعالمی اجارہ داری کومحدودکرنے کے لئے استعمال کرنے کاخواہاں ہے۔
پاکستان اورچین سی پیک کے ذریعے اسٹرٹیجک پارٹنرہیں،اس لئے پہلگام کے واقعہ جیسی گہری سازش کے ممکنہ محرکات اوراس کوبنیاد بنا کر عالمی طورپرپاکستان پرالزام تھوپ کر جارحیت کاپروگرام ترتیب دینے کی کوشش کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیانے پاکستان پردباؤبڑھانے کے لئے اپنے سفارتی تعلقات کوفوری طورپرمحدود کرتے ہوئے پاکستان میں اپنے سفارت خانے کے افرادمیں کمی کا اعلان کردیاہے،پاکستانی شہریوں پرپابندی عائد کرتے ہوئے ہرقسم کے ویزوں کومنسوخ کردیاہے اوراس وقت انڈیامیں جوپاکستانی ویزوں پرگئے ہوئے ہیں،ان کوہرحال میں یکم مئی تک ملک چھوڑنے کاکہاگیاہے۔ انڈیا اورپاکستان کے مابین دریاں کے پانی کی تقسیم کا عالمی معاہدہ‘‘سندھ طاس‘‘کاپانی روکنے کااعلان کردیاہے جبکہ اس معاہدے کاضامن ’’ورلڈبینک‘‘ ہے۔پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی ہنگامی اجلاس بلاکرایسے ہی جوابی کاروائی کاعندیہ دے دیاہے۔گویااس خطے میں پاکستان پردباؤ بڑھاکراپنے اگلے مقاصد کے حصول کے لئے نئی صف بندیوں کاآغازکر دیاگیاہے۔
اسرائیل، امریکا،اورانڈیاکے درمیان دفاعی تعاون گزشتہ دہائی میں نمایاں ہواہے۔رپورٹس کے مطابق،انڈین فوجیوں کی اسرائیل میں موجودگی اس کاسب سے بڑاثبوت ہے کہ ہزاروں انڈین شہری اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوچکے ہیں،جوفلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔غزہ میں جنگی جرائم کے عالمی دباؤ اور توجہ کوکم کرنے کے لئے اسرائیل اوراس کے اتحادی کسی نئے محاذکی تخلیق میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ خودمودی حکومت کااندرونی سیاست کایہ ایجنڈہ بھی سامنے آگیاہے کہ وہ کشمیر میں تشددکوانڈیاکی قومی یکجہتی کومضبوط کرنے اورمقامی آبادی کومزید دباکے لئے استعمال کرنے جارہاہے۔دوسری طرف انڈیا کھلم کھلاآقاؤں کے ایماپربلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد سے سی پیک کواور صوبہ خیبرپختونخواہ میں ٹی ٹی پی جیسی دہشگرد تنظیموں کی مددسے پاکستانی استحکام کونشانہ بنارہاہے۔
ابھی حال ہی میں دہشتگردوں اورخوارجی گروہ نے11مارچ2025ء کوجعفرایکسپریس پرحملہ کرکے درجنوں بے گناہ شہریوں کو شہیدکردیاجس کاساراپلان انڈین’’را‘‘نے تیار کیا تھا۔دہشتگردوں نے کھلے عام سی پیک کونشانہ بنانے کااعتراف کرتے ہوئے پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پربراہ راست چین کواس پراجیکٹ کوفوری بندکرنے کی دہمکییاں بھی دیں۔
اب بھی وہی انداز،وہی اسلوب،وہی اہتمامِ خونریزی!توکیایہ محض دہشت گردی ہے؟یاایک سیاسی اسکرپٹ جس کاسٹیج کشمیرہے، اورتماش بین دنیاکی بے حس آنکھیں ہیں ۔گویا مظلوم کشمیریوں پرہونے والے ہندوبرہمن کے انسانیت سوزظلم وستم کی داستان میں ماضی کے سائے اورحال کادھواں اب خاموشی کے شورکے سمندرمیں تلاطم پیداکررہے ہیں جس کوعالمی نگاہوں سے پو شیدہ رکھنے کے لئے مودی جنتاایک مرتبہ پھراپنی اسی مکاری کاڈرامہ رچاکراقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرسب سے پرانے تنازعے سے توجہ ہٹانے کے لئے اپنے امریکی اوراسرائیلی استعمارکی مددسے ایسے مکروہ اقدام کررہی ہے۔
(جاری ہے)