اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )امریکا کی جانب سے پاکستان پر غیر متوقع طور پر عائد کردہ 29 فیصد جوابی محصولات کے بارے میں برآمد کنندگان کا خیال ہے کہ اس کے اثرات نقصان دہ ہوں گے، اگرچہ یہ خاص طور پر شدید نہیں ہوں گے کیونکہ حریفوں کو بھی امریکا میں اپنی برآمدات پر اسی طرح کے زیادہ ٹیکسز کا سامنا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو متعدد محصولات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکی معیشت کو ’دھوکا دہی‘ سے روکنے کے لئے ڈیزائن کئے گئے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستانی برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ محصولات سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا کیونکہ بھارت، چین، ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے حریفوں کو بھی امریکی مارکیٹ میں زیادہ محصولات کا سامنا کرنا پڑے گا۔یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) کے صدر اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق سربراہ زبیر طفیل نے کہا کہ پاکستان سے برآمدات پر امریکی ٹیرف کے منفی اثرات ناگزیر ہیں لیکن زیادہ وسیع نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ’امریکی محصولات کا بہت کم منفی اثر پڑے گا کیونکہ زیادہ تر حریفوں کو برآمدات پر مساوی، زیادہ یا کم محصولات کا سامنا کرنا پڑے گا‘، انہیں یقین تھا کہ برآمد کنندگان کو امریکی منڈیوں میں مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
تاہم دوسروں کو امید تھی کہ حکومت اس کا حل تلاش کر سکتی ہے کیونکہ امریکا سے درآمدات بہت کم ہیں۔
مالی سال 2024 میں پاکستان نے امریکا سے 1.

87 ارب ڈالر مالیت کا سامان درآمد کیا جبکہ برآمدات کا حجم 5.4 ارب ڈالر رہا، اس کا موازنہ مالی سال 2023 میں 2.2 ارب ڈالر کی درآمدات اور 5.9 ارب ڈالر کی برآمدات سے کیا گیا جو امریکا کے ساتھ تجارتی سرپلس کو ظاہر کرتا ہے۔
برآمد کنندہ اور تاجر رہنما جاوید بلوانی نے کہا کہ ’ہم تجویز کرتے ہیں کہ حکومت امریکی درآمدات کو زیرو ریٹڈ کرے، اس سے پاکستانی برآمدات کو خود بخود فائدہ ہوگا کیونکہ محصولات باہمی بنیاد پر عائد کئے گئے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ چونکہ مالی سال 2024 میں 53.7 ارب ڈالر کی مجموعی درآمدات کے مقابلے میں حجم بہت چھوٹا ہے لہٰذا اگر امریکا سے درآمدات کو زیرو ریٹڈ ڈیوٹی دی جائے تو پاکستان کو زیادہ لاگت نہیں آئے گی۔
تاہم امریکا پاکستان کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے، چین سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے تاہم مالی سال 2024 میں 13.5 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں بیجنگ کو برآمدات 2.7 ارب ڈالر تک محدود تھیں، جو پاکستان کے لئے 10.8 ارب ڈالر کے وسیع تجارتی خلا کو ظاہر کرتی ہیں۔
پاک-کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سربراہ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ 29 فیصد ڈیوٹی شے بہ شے مختلف ہوگی جبکہ پاکستان کو چین اور ویتنام پر عائد کردہ زیادہ محصولات سے فائدہ مل سکتا ہے‘۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان امریکا سے درآمدات پر عائد ڈیوٹی ختم کرتا ہے تو ملک کے عوام کو فائدہ ہوگا کیونکہ پاکستان بنیادی طور پر کپاس، سویابین، دالیں اور دیگر غذائی اشیا درآمد کرتا ہے۔
مشکلات اور مواقع:
امریکی صدر ٹرمپ نے بدھ کو اسلام آباد کی 58 فیصد محصولات کے جواب میں 29 فیصد محصولات عائد کئے تھے۔ تجزیہ کاروں کو اس صورتحال میں پاکستان کے لئے فوری رکاوٹیں اور دیرپا مواقع نظر آئے۔
لمز میں معاشیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی حسنین نے کہا کہ امریکا پاکستان کے اہم ترین تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے اور جس کے ساتھ ہمارا تجارتی سرپلس سب سے زیادہ ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی برآمدات کا تقریباً پانچواں حصہ امریکا کے لئے مقرر ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کو برآمدات پاکستان کی جی ڈی پی کے 1.5 فیصد سے بھی کم ہیں، انہوں نے کہا کہ ’اگر ان کو مکمل طور پر ختم کر دیا جاتا ہے (جس کا امکان بہت کم ہے) تو بھی اس کا اثر اس سے کئی گنا کم ہوگا جو ہم نے بدانتظامی کے ذریعے اپنی معیشت کو سکیڑ کر کیا ہے۔
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) میں ریسرچ کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ماہر معاشیات ساجد امین نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے فوری اثرات منفی ہوں گے کیونکہ امریکا ملک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کے ازالے کے لئے پاکستان کو زیادہ مسابقتی بننے کے لئے مقامی پیداوار پر سبسڈی دینا پڑ سکتی ہے، کہیں نہ کہیں، آپ کو امریکا کو بڑی برآمدات کی مقامی پیداواری لاگت کو کم کرنا پڑے گا‘۔انہوں نے کہا کہ ’چیلنج یہ ہوگا کہ آیا آئی ایم ایف ملک کو سبسڈی دینے کی اجازت دے گا یا نہیں، تاہم اس کے طویل مدتی اثرات غیر یقینی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے، آپ کو فوری منفی اثرات کو کامیابی کے ساتھ ختم کرنا ہوگا، دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے محصولات بنگلہ دیش اور ویتنام سے کم ہیں جو ایک موقع ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے ہمیں جدت طراز ہونے کی ضرورت ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ درمیانی اور طویل مدتی اثرات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ملک محصولات کے فوری منفی اثرات کو کس طرح پورا کرسکتا ہے اور کس طرح پاکستان ان صنعتوں میں جدت طرازی کرسکتا ہے جہاں اسے ٹیرف سے متاثر ہونے والے دیگر ممالک پر برتری حاصل ہے۔
ٹیکسٹائل کے لئے مشکلات:انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی (آئی بی اے) کے پروفیسر اور ماہر معاشیات عادل ناخدا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ امریکا کو ملکی برآمدات ٹیکسٹائل تک محدود رہی ہیں، جسے مختصر مدت میں سب سے اہم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’امریکا، پاکستانی برآمدات کے لئے سب سے اہم سنگل کنٹری ڈیسٹینیشن مارکیٹ ہے‘ اور انہیں نہیں لگتا کہ باہمی محصولات غیر ملکی تعلقات پر اثر انداز ہوں گے کیونکہ امریکا نے تمام تجارتی شراکت داروں پر مختلف سطح کے محصولات عائد کئے ہیں۔ملک کی جانب سے ممکنہ اقدامات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان، یورپی یونین کو ٹیکسٹائل سے بنی مصنوعات کی برآمدات بڑھانے پر غور کر سکتا ہے۔
بزنس اور اکنامک جرنلسٹ خرم حسین کا کہنا ہے کہ عائد کئے گئے محصولات سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید لین دین پر مبنی ہو جائیں گے۔انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ملکی برآمدات کے لئے متبادل منڈیوں کو فروغ دینے میں کافی وقت لگے گا، اس وقت پاکستانی برآمد کنندگان کے لئے امریکا کا کوئی متبادل نہیں ہے، امریکا اور یورپی یونین سب سے اہم مارکیٹیں ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ کی پنجاب حکومت کو ایک بار پھر واٹر ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز

مزید :

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ پاکستانی برآمد برآمد کنندگان تجارتی شراکت کرنا پڑے گا ارب ڈالر کی کہ پاکستان محصولات سے محصولات کا کی برآمدات پاکستان کے امریکا سے کہ امریکا کا سامنا مالی سال کا کہنا کے لئے ہوں گے

پڑھیں:

   تعمیری انداز میں آگے بڑھیں گے،معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں،وزیر خزانہ

اسلام آباد: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے امریکا کے ساتھ معاشی روابط اور ٹیرف کے حوالے سے اپنے انٹرویو میں اہم بیان دے دیا۔
عالمی جریدے بلوم برگ کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم تعمیری انداز میں آگے بڑھیں گے، جلد ہی ایک سرکاری وفد امریکا جائے گا۔ ہم امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکا سے مزید کپاس اور سویا بین خریدنے کا خواہش مند ہے۔ اسی طرح غیر ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے پر بھی بات چیت جاری ہے تاکہ امریکی مصنوعات کے لیے پاکستانی منڈیوں کے دروازے کھل سکیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ امریکی مصنوعات پر پاکستان میں کوئی غیر ضروری جانچ پڑتال یا رکاوٹیں ہیں تو اس کا جائزہ لینے کو بھی تیار ہیں۔ پاکستان میں امریکی فرموں کی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہیں گے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ خصوصی طور پر کان کنی اور معدنیات کے نئے شعبوں میں امریکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ پاکستان معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے کا خواہشمند ہے۔ ترقی کے سفر میں سرمایے کے حصول کے لیے عالمی مالیاتی منڈیوں سے رجوع کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو معاشی اتار چڑھاؤ کے چکر سے نکالنا ہمارا نصب العین ہے۔ پاکستان کو مستحکم ترقی کے سفر پر گامزن کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • پاکستان کا امریکی خام تیل درآمد کرنے پر غور
  • پاکستان کا امریکی خام تیل درآمد کرنے پر سنجیدہ غور
  • واشنگٹن: وزیر خزانہ کی عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی رہنماؤں سے ملاقاتیں
  • امریکا کا جنوب مشرقی ایشیا سے سولر پینلز کی درآمد پر 3500 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ
  • امریکا سے معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، وزیر خزانہ
  • امریکا کے ساتھ معاشی روابط اور ٹیرف کا معاملہ، وزیرخزانہ کا اہم بیان سامنے آگیا
  •    تعمیری انداز میں آگے بڑھیں گے،معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں،وزیر خزانہ
  • امریکا کے ساتھ غیر ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے پر بات چیت جاری ہے:وفاقی وزیرخزانہ
  • امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، وزیر خزانہ