ریلیز کے آغاز سے ہی سست روی کی شکار فلم ’’سکندر‘‘ نے دنیا بھر سے 5 دنوں میں 169 کروڑ روپے کا بزنس کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق فلم سکندر نے بزنس کے اعتبار سے کچھ مثبت اشارے دیئے ہیں۔ تامل ہٹ ڈریگن کو بھی کمائی کے لحاظ سے پیچھے چھوڑ دیا۔ 

پانچویں دن تک کی کارکردگی دیکھتے ہوئے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ فلم سکندر پیر تک دنیا بھر میں 200 کروڑ کا ہدف پورا کرجائے گی۔

قبل ازیں خیال کیا جا رہا تھا کہ سلمان خان کی زندگی کی ناکام ترین فلم ثابت ہوگی جو بمشکل ہی 100 کروڑ کا ہندسہ عبور کرپائے گی۔

سلمان خان کی فلم عید الفطر میں ریلیز ہوئی جو رواں برس ریلیز والی دیگر فلموں کے بزنس کے لحاط سے 5 ویں نمبر پر آگئی۔

کمائی کے اعتبار سے چھاوا، ایل 2، سان کرانتی اور گیم چینجرز اس وقت بھی فلم سکندر سے کہیں آگے ہیں۔

تاہم پروڈکشن ہاؤس کا دعویٰ ہے کہ آئندہ ایک ہفتے کے دوران یہ فلم چوتھے نمبر پر آجائے گی اور 300 کروڑ تک کا بزنس کرپائے گی۔

اگر فلم سکندر 300 کروڑ کا ہندسہ عبور کر بھی جائے تب بھی سلمان خان جیسے سپر اسٹار کے لیے یہ لمحہ فکر ہوگا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلم سکندر

پڑھیں:

ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ،پاکستان بزنس فورم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-06-20

 

کراچی(کامرس رپورٹر) پاکستان بزنس فورم نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران بار بار روپے کی قدر میں کمی کے باوجود ملک کی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ہے۔غیر جانب دار اور غیر منافع بخش تنظیم پی بی ایف کے مطابق روپے کی قدر میں کمی نے نہ تو پاکستان کی برآمدی مسابقت کو بہتر بنایا ہے اور نہ ہی پائیدار معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے۔1955 سے 1971 تک پاکستان کو معیشت کا سنہری دور قرار دیا جاتا ہے، جب روپے کی قدر ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 4.75 روپے مستحکم رہی۔ اس عرصے میں صنعتی ترقی، معتدل افراطِ زر اور مضبوط برآمدی ماحول دیکھنے میں آیا۔ تاہم 1971 کے بعد مسلسل گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔1975 تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 9.99 روپے تک گر گئی اور 2025 میں یہ تقریباً 284 روپے فی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس بڑی گراوٹ کے باوجود برآمدات میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی کو بنیادی معاشی مسائل کے حل کے بجائے ایک وقتی حل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ سرکاری اور اوپن مارکیٹ کے ایکسچینج ریٹس میں فرق مصنوعی ڈالر قلت پیدا کرتا ہے، جس سے کرنسی ذخیرہ کرنے والے اور ٹیکس چور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، تیل اور خوردنی تیل جیسی بڑی درآمدی اشیاء پر انحصار کی وجہ سے کمزور کرنسی کے فوائد زائل ہو جاتے ہیں، نتیجتاً افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے اور برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔پاکستان بزنس فورم کے مطابق، پاکستان کی معیشت کی زیادہ تر پیداواری لاگت ڈالر سے منسلک ہے ، خام مال، مشینری، توانائی اور ٹیکنالوجی کی درآمدات پر انحصار کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی سے پیداواری لاگت بڑھتی ہے نہ کہ مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے۔فورم نے خبردار کیا ہے کہ جب تک بنیادی ڈھانچوں کی کمزوریوں کو دور نہیں کیا جاتا، روپے کی گراوٹ، افراطِ زر اور برآمدی زوال کا چکر جاری رہے گا۔ رپورٹ میں پالیسی سازوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کرنسی کی قدر میں ہیرا پھیری کے بجائے حقیقی اصلاحات، پیداواری صلاحیت میں اضافے، کم پیداواری اخراجات اور کاروباری مؤثریت پر توجہ دیں۔پاکستان بزنس فورم کے مطابق، برآمدی مسابقت صرف روپے کی قدر میں کمی سے حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے لیے پیداواری بہتری، شرحِ سود میں کمی، پالیسی استحکام، اختراعات اور کارکردگی میں اضافے کی ضرورت ہے۔فورم نے حکومت، صنعت اور مالیاتی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ خود انحصاری، تکنیکی ترقی اور پائیدار معاشی نمو پر مبنی طویل المدتی حکمتِ عملی تشکیل دیں تاکہ پاکستان معاشی استحکام، سرمایہ کاری اور برآمدی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

کامرس رپورٹر

متعلقہ مضامین

  • کپتان کی مردم شناسی اور زرداری کا جادو!
  • ورلڈ کلچر فیسٹیول پانچویں روز میں داخل، شرکا کی دلچسپی برقرار
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نغمہ ’’کشمیر ہمارے خوابوں کی تعبیر‘‘ ریلیز
  • ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ،پاکستان بزنس فورم
  • منی لانڈرنگ؛ بھارتی بزنس مین کی 35 کروڑ ڈالر مالیت کی جائیدادیں منجمد
  • پی سی بی کا سابق کرکٹر محمد وسیم سے متعلق اہم اعلان!
  •  ٹیکس اور سیلز ٹیکس مسائل کے حل کیلئے کمیٹی قائم 
  • جادو ٹونا کرنے کے شبہے میں قتل عمر رسیدہ شخص کا ڈھانچہ برآمد، ملزمان گرفتار
  • صوبے بھر میں بغیر نمبر پلیٹ چلنے والی گاڑیوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے احکامات
  • پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ