بلاول بھٹو کا وزیر اعظم کا ساتھ دینے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
گڑھی خدا بخش (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 اپریل2025ء) بلاول بھٹو نے وزیر اعظم کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پاکستان کھپے کہنے والے لوگ ہیں، میں ہمیشہ وفاق کے ساتھ کھڑا رہوں گا اور ہر سازش کو ناکام بناؤں گا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔
جلسے سےخطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پانی کی تقسیم کی جنگ عالمی سطح پر لڑ کر آیا ہوں، دنیا کو بتایا ہے دریائے سندھ کو بچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب ذوالفقار علی بھٹو کے علم بردار ہیں اور بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے یہاں جمع ہوئے ہیں، صدر زرداری نے گڑھی خدا بخش کے ساتھ اپنا فرض نبھایا اور صدارتی ریفرنس کے ذریعے شہید بھٹو کو انصاف دلایا عوام کی عدالت نے بھٹو کو بے گناہ قرار دیا اور پچاس سالہ جدوجہد کے بعد بھٹو کو انصاف ملا۔(جاری ہے)
بلاول بھٹو نے کہا کہ آصف زرداری نے 18ویں ترمیم کی صورت میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کا آئین بحال کیا صوبوں کو حق دلا کر قائد عوام کا حق پورا کیا، شہید بھٹو کو نشان پاکستان ایوارڈ سے نوازا گیا کیوں کہ بھٹو نے عوام کیلئے جہدوجہد کی، محنت کشوں کو حقوق دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سندھ دریا کو بچانا ہے میں وزیر خارجہ رہا ہوں اور پانی کی تقسیم کی جنگ عالمی سطح پر لڑ کر آیا ہوں، دنیا کو بتایا ہے کہ ہمارے دریائے سندھ کو بچانا ہے، ہم عالمی دنیا میں پانی کا مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں بھارت کو پانی روک رہا ہے میں اس کا عالمی سطح پر مقابلہ کرکے آیا ہوں بھارت ہمارے پانی پر ڈاکے مارتا آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی اصلاحات، آئینی عدالت ہوگی تو برابری کی بنیاد پر نمائندگی ملے گی، ملک میں سیاست اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ نقصان ہورہا ہے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم پاکستان کھپے کہنے والے لوگ ہیں، میں ہمیشہ وفاق کے ساتھ کھڑا رہوں گا اور ہر سازش کو ناکام بناؤں گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بلاول بھٹو نے کہا کہ بھٹو نے بھٹو کو
پڑھیں:
وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحب نے عافیہ صدیقی کیس میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ میں اس حکم کو جیوڈیشل ایکٹیوازم کے تناظر میں دیکھتا ہوں، بہرحال یہ عدالتی اختیار اور دائرہ کار کا معاملہ ، اس پر جنھیں نوٹس ہوا ہے۔
ان کے وکلا ہی مقررہ تاریخ پیشی پر کوئی بات کریں گے ، البتہ دیگر پہلو پر بات ممکن ہے ، مثلاً عافیہ صدیقی کسی پاکستانی جیل میں قید نہیں ہیں۔ وہ امریکا کی جیل میں قید ہیں۔ امریکا کی عدالت نے انھیں 86سال قید کی سزا سنائی ہوئی ہے۔ وہاں پاکستان کا کوئی حکم نہیں چلتا۔البتہ سفارت کاری ہوسکتی ہے جو ہوتی بھی رہتی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2024میں وزیر اعظم شہباز شریف نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکی صدر بائیڈن کو خط لکھا تھا۔ لیکن شاید امریکی صدر نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اور نہ ہی عافیہ صدیقی کو رہا کیا گیا ۔ اسلا م آباد ہائی کورٹ کے بار بار پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس خط کا امریکی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد محترم جج صاحب نے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے تمام غیر ملکی دوروں کی تفصیلات مانگ لیں۔ اب انھوں نے وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں امریکا اور پاکستان کے درمیان کیسے تعلقات ہیںیا تعلقات کیسے ہونے چاہیے، یہ طے کرنا حکومت کا آئینی مینڈیٹ ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کب امریکی صد ر کو کسی ایشو کے حوالے سے کوئی خط لکھنا چاہتے ہیں اور کب نہیں لکھنا چاہتے، یہ طے کرنا بھی حکومت کا مینڈیٹ ہوتا۔ یہ دو ممالک کے سفارتی تعلقات پر منحصر ہوتا ہے کہ کس حد تک بات کرنی یا نہیں کرنی ہے۔ کسی ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کسی دوسرے آئینی ادارے کو ہدایات دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پاکستان امریکا کے تعلقات کیسے ہوںگے؟ ایک دوسرے کے قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟ یہ طے کرنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔
ہمارے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے جذبات قابل قدر ہیں۔ ہماری یہ خواہش کہ امریکی حکومت ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو رہا کر دے، قابل تحسین ہے۔ لیکن امریکا کا نظام ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے ۔
وزیر اعظم پاکستان نے عدالتی حکم کو مانتے ہوئے امریکی صدر کو خط لکھ دیا۔ اب امریکی صدر نے اس کا جواب نہیں دیا۔ اب کیا کیا جاسکتا ہے؟ کیا وزیر اعظم پاکستان کو قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ توہین عدالت کے نوٹس وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو جاری ہو گئے ہیں۔ ان کے دوروں کی تفصیلات بھی مانگ لی گئی ہیں۔ ظاہر یہ قانونی کارروائی کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچے گی۔
عافیہ صدیقی کی طرح بہت سے پاکستانی دوسرے ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کے معاملات سفارتی سطح پر دیکھے جاتے ہیں۔ سفارت خانے ان سے جیلوں میں ملاقات بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ سلوک وہاں کی حکومتیں اپنے قوانین کے مطابق کرتی ہیں۔ان پر پاکستان کے قانون لاگو نہیں ہوتے۔
جہاں تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تمام قانونی اخراجات کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے بھی کئی مسائل سامنے آسکتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومت پاکستان یہ اخراجات ادا کرے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے قانون میں یہ کہاں لکھا ہے؟ کیا قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود ہے؟ میں نے پہلے بھی کئی بات عرض کیا ہے کہ پاکستان کا قانون یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے۔ امیر کو غریب پر، اہم کو غیر اہم پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ’’اہم‘‘ کے کیسز اور ’’غیر اہم‘‘ کے کیسز میں فرق نظر آتا ہے۔ اگر قانونی اخراجات ادا کرنے ہیں تو صرف ایک کے کیوں ادا کرنے ہیں، باقی تمام پاکستانیوں کے کیوں نہ ادا کیے جائیں۔
سوال یہی ہے کہ باقی پاکستانیوں کی رہائی کے لیے خط کیوں نہ لکھا جائے؟ میں کوئی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف نہیں۔ لیکن میرا مقصد اس اصول کو سامنے رکھنا ہے کہ سب کے لیے یکساں نظام انصاف ۔ بیرون ملک جیلوں میں قید اکثر قیدیوں کے لواحقین کہتے ہیں کہ ان کے لوگ بے قصور اور بے گناہ قید ہیں۔ کیا کسی غیر ملک کا نظام انصاف کسی کے لواحقین کے کہنے پر یقین کرے گا۔ عوامی رائے پر بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عدالت نے قانون اور ثبوت دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔
میں نظام عدل کے انتظامی اختیارات یا معاملات کی بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیو نکہ یہ میرا کام نہیں ہے۔ کوئی جج چھٹی پر تھا یا نہیں،کاز لسٹ چھٹی کی وجہ سے منسوخ ہو چکی تھی۔یا نہیں ، یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اصل معاملہ سسٹم کو ٹھیک رکھنے کا ہے تاکہ پاکستان کے عوام کو یکساں انصاف کے اصول پر انصاف مل سکے۔ پاکستان میں بہت عرصے سے نظام عدل پر تند و تیز باتیں ہوتی چلی آرہی ہیں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ ایگزیکٹو کے معاملات میں جتنا ممکن ہوسکے، اتنا اجتناب کیا جانا چاہیے، سفارتی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔