میں ایک سیاسی رہنما ہوں نہ کہ دہشت گرد، یاسین ملک
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
ذرائع کے مطابق محمد یاسین ملک نئی دلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سے جسٹس ابھے ایس اوکا اور اجل بھویان پر مشتمل سپریم کورٹ کی دو بنچ کے سامنے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہوئے۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیری آزادی پسند رہنما اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے غیر قانونی طور پر نظربند چیئرمین محمد یاسین ملک نے کہا ہے کہ وہ ایک سیاسی رہنما ہیں نہ کہ دہشت گرد۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں سات بھارتی وزرائے اعظم نے ان کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ ذرائع کے مطابق محمد یاسین ملک نے نئی دلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سے جسٹس ابھے ایس اوکا اور اجل بھویان پر مشتمل سپریم کورٹ کی دو بنچ کے سامنے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہوئے۔ انہوں نے سی بی آئی کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی اس عرضداشت کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ یاسین ملک کی حافظ سعید کے ساتھ تصاویر ہیں جو تمام قومی اور علاقائی روزناموں میں شائع ہوئیں اور ٹیلی ویڑن چینلوں نے بھی وہ تصاویر دکھائیں۔ یاسین ملک نے کہا کہ اس عرضداشت کے ذریعے ان کے خلاف عوامی سطح پر ایک بیانیہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 1994ء میں جب میں نے یکطرفہ جنگ بندی کی تو اس کے بعد مجھے نہ صرف 32 مقدمات میں ضمانت دی گئی تھی بلکہ کسی بھی مقدمے کو مزید آگے نہیں بڑھایا گیا لیکن پھر اچانک میرے خلاف پرانے مقدمات دوبارہ کھولے گئے۔ یاسین ملک نے کہا کہ وزیراعظم پی وی نرسمہا رائو، ایچ ڈی دیوے گوڑا، اندر کمار گجرال، اٹل بہاری واجپائی، ڈاکٹر منموہن سنگھ اور وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنے پہلے دور حکومت کے پانچ سالوں کے دوران میرے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور جنگ بندی کا پاس کیا۔ انہوں نے کہا کہ سی بی آئی کو اعتراض ہے کہ میں سیکورٹی کے لیے خطرہ ہوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ میں دہشت گرد نہیں ہوں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یاسین ملک نے نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
افغانستان سے سرگرم دہشت گرد گروہ سب سے بڑا خطرہ، پاکستان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان کے اندر مبینہ پناہ گاہوں سے سرگرم دہشت گرد گروہ اس کی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اس نے اسی کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ ان نیٹ ورکس، جو فزیکل اور ڈیجیٹل دونوں پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں، کے خلاف بین الاقوامی سطح پر مزید مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق منگل کو افغانستان سے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل نمائندے عاصم افتخار احمد نے کہا کہ القاعدہ، داعش-خراسان، ٹی ٹی پی، مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) اور بلوچ عسکریت پسند گروہ جیسے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ اب بھی سرحد پار سے آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا، ''ہمارے پاس ان گروہوں کے درمیان تعاون کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، جن میں مشترکہ تربیت، غیر قانونی اسلحے کی تجارت، دہشت گردوں کو پناہ دینا اور مربوط حملے شامل ہیں۔‘‘
ان کے مطابق 60 سے زائد دہشت گرد کیمپ دراندازی کے مراکز کے طور پر کام کر رہے ہیں، جو پاکستان میں شہریوں، سکیورٹی فورسز اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی تعاون ضروریپاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ خطرہ سائبر اسپیس تک بھی پھیلا ہوا ہے، جہاں تقریباً 70 پراپیگنڈہ اکاؤنٹس، جو افغان آئی پی ایڈریسز سے منسلک ہیں، انتہا پسندانہ پیغامات پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا، ''ان نیٹ ورکس پر قابو پانے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا حکومتوں کے ساتھ مکمل تعاون ضروری ہے۔
‘‘عاصم افتخار احمد نے بتایا کہ پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر سلامتی کونسل کی پابندیوں والی کمیٹی سے درخواست کی ہے کہ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کونسل فوری کارروائی کرے۔
انہوں نے ٹی ٹی پی کی طرف بھی اشارہ کیا، اسے افغان سرزمین پر سب سے بڑی اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تنظیم قرار دیا، جس کے قریب 6 ہزار جنگجو ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان نے متعدد دراندازی کی کوششوں کو ناکام بنایا اور وہ جدید فوجی سازوسامان قبضے میں لیا جو افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے دوران چھوڑا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، "دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہیں … صرف اسی ماہ ایک ہی واقعے میں 12 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے۔
افغانستان اب بھی متعدد مسائل سے دوچارپاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ اگرچہ طالبان کی چار سالہ حکمرانی نے دہائیوں پر محیط خانہ جنگی کا خاتمہ کیا، لیکن ملک اب بھی پابندیوں، غربت، منشیات اور انسانی حقوق کے مسائل میں جکڑا ہوا ہے۔
انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ اقوام متحدہ کے 2025 کے'ہیومینٹیرین نیڈز اینڈ ریسپانس پلان‘ کو مطلوبہ 2.42 ارب ڈالر میں سے صرف 27 فیصد فنڈز ملے ہیں۔
انہوں نے کونسل کو یاد دلایا کہ پاکستان نے، ناکافی بین الاقوامی امداد کے باوجود چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین