ایک سو چالیس سالہ افغان شہری کا دنیا کا معمر ترین شخص ہونے کا دعوی؛ طالبان نے تحقیقات شروع کردیں
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
ایک سو چالیس سالہ افغان شہری کا دنیا کا معمر ترین شخص ہونے کا دعوی؛ طالبان نے تحقیقات شروع کردیں WhatsAppFacebookTwitter 0 5 April, 2025 سب نیوز
کابل(آئی پی ایس )افغانستان کے صوبے خوست کے رہائشی عاقل نظیر نے دعوی کیا ہے کہ ان کی عمر 140 سال ہے اور اس طرح وہ دنیا کے معمر ترین شخص ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت نے شہری کے 140 سال عمر ہونے کے دعوے کی تصدیق کے لیے تحقیقات کا آغاز کردیا۔عاقل نظیر نے اپنے دعوے کی تصدیق میں کہا کہ 1919 میں لڑی جانے والی تیسری اینگلو افغان جنگ کے وقت 30 سال سے زائد عمر کا تھا اور کابل کے شاہی محل میں بادشاہ امان اللہ خان کے ساتھ برطانوی افواج کے انخلا کا جشن منایا تھا۔
افغان شہری نے مزید بتایا کہ میں اس بادشاہ امان اللہ خان کے ساتھ محل میں موجود تھا۔ سب لوگ خوش تھے اور انگزیزوں کو بیدخل کرنے پر بادشاہ کا شکریہ ادا کیا تھا۔عاقل نظیر نے کہا کہ اس میرے ساتھ جتنے بھی لوگ تھے، اب وہ سب فوت ہو چکے ہیں۔ تاہم مقامی حکام کا کہنا ہے کہ بزرگ شہری کے پاس اپنے دعوے کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔
جس کے بعد ایک خصوصی سول رجسٹریشن ٹیم عاقل نظیر کی عمر کی تصدیق کے لیے تحقیقات کا آغاز کردیا۔ترجمان طالبان نے کہا کہ اگر مذکورہ شخص کا دعوی دستاویزات یا سائنسی طور پر درست ثابت ہوگیا تو دنیا کے معمر ترین شخص کے طور پر رجسٹر کروائیں گے۔اگرعاقل نظیر کی عمر کی تصدیق ہو جاتی ہے تو وہ فرانسیسی خاتون جین کالمین کا ریکارڈ توڑ دیں گے جنھوں نے 122 سال کی عمر پائی تھی۔
خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی نے دنیا کے سب سے معمر شخص ہونے کا دعوی کیا ہو۔ رواں برس کے آغاز میں برازیل کی ایک خاتون نے بھی دعوی کیا تھا کہ وہ 120 سال کی ہونے کے قریب ہیں تاہم گنیز ورلڈ ریکارڈز نے ان کا دعوی ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کا دعوی
پڑھیں:
لبنانی عسکریت پسند چالیس سال بعد فرانسیسی جیل سے رہا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2025ء) فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے صحافیوں کے مطابق، چھ گاڑیوں پر مشتمل ایک قافلہ لینمزان جیل سے صبح تقریباً 3 بج کر 40 منٹ پر روانہ ہوا۔ گاڑیوں کی روشنی جل رہی تھی لیکن 74 سالہ سفید داڑھی والے قیدی کی جھلک دیکھنا ممکن نہ ہو سکا۔
عبداللہ کو 1984 میں گرفتار کیا گیا تھا اور 1987 میں امریکی ملٹری اتاشی چارلس رابرٹ رے اور اسرائیلی سفارت کار یعقوب برسیمنٹوف کے پیرس میں قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
پیرس کی اپیل کورٹ نے ’’25 جولائی سے مؤثر‘‘ رہائی کا حکم جاری کیا، اور شرط یہ رکھی گئی ہے کہ وہ فرانس چھوڑ دیں گے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
عبداللہ 1999 سے رہائی کے اہل تھے، لیکن ہر بار ان کی درخواست مسترد کی جاتی رہی کیونکہ امریکہ، جو اس کیس میں فریق ہے، مسلسل ان کی رہائی کی مخالفت کرتا رہا۔
(جاری ہے)
فرانس میں عمر قید پانے والے اکثر قیدی 30 سال سے کم مدت میں رہا ہو جاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق رہائی کے بعد، عبداللہ کو تاربیس ایئرپورٹ منتقل کیا جائے گا جہاں سے ایک پولیس طیارہ انہیں روسی ایئرپورٹ (پیرس) لے جائے گا۔ وہاں سے وہ بیروت روانہ ہوں گے۔
عبداللہ کے وکیل ژاں لوئی شالانسے نے جمعرات کو جیل میں ملاقات کی۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''وہ اپنی رہائی پر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک ایسے خطے میں لوٹ رہے ہیں، جہاں لبنانی اور فلسطینی عوام انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں۔
‘‘اے ایف پی کے ایک نامہ نگار نے گزشتہ ہفتے عدالت کے فیصلے کے بعد ایک رکن پارلیمان کے ہمراہ عبداللہ سے جیل میں ملاقات بھی کی۔
جارج ابراہیم عبداللہ کون ہیں؟عبداللہ، جو اب تحلیل شدہ اسرائیل مخالف مارکسی گروپ 'لبنانی انقلابی مسلح دھڑے‘ (ایف اے آر ایل) کے بانی ہیں۔
سن 1984 میں گرفتاری کے وقت فرانسیسی پولیس کو ان کے پیرس کے ایک اپارٹمنٹ سے سب مشین گنیں اور وائرلیس اسٹیشنز بھی ملے تھے۔
فروری میں اپیل عدالت نے یہ نوٹ کیا تھا کہ ایف اے آر ایل نے 1984 کے بعد کوئی پُرتشدد کارروائی نہیں کی اور عبداللہ اب ’’فلسطینی جدوجہد کی ایک ماضی کی علامت‘‘ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ان کی عمر اور جرم کے تناظر میں ان کی قید کی مدت غیر متناسب رہی ہے۔
عبداللہ کے خاندان نے کہا ہے کہ وہ انہیں بیروت ایئرپورٹ کے ’’آنر لاؤنج‘‘ میں خوش آمدید کہیں گے اور بعد ازاں شمالی لبنان کے شہر کوبیات میں واقع اپنے آبائی گھر لے جائیں گے، جہاں استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین