محمد یونس کی مودی سے ملاقات، حسینہ واجد کی حوالگی کا مسئلہ پھر اٹھا دیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
حسینہ واجد کو اشتعال انگیز بیانات دینے سے روکنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ بھی کیا
بنگلہ دیش میں ہندوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ڈھاکہ ہندوؤں کی حفاظت کرے، مودی
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ و نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس نے بینکاک میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی، اور ڈھاکا کی جانب سے حسینہ واجد کی حوالگی کی درخواست پر تبادلہ خیال کیا۔ بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے کہا کہ وزیر اعظم (مودی) نے زور دیا کہ ماحول کو خراب کرنے والی کسی بھی بیان بازی سے گریز کیا جانا چاہیے۔ مودی اور یونس کی ملاقات بینکاک میں بمسٹیک یا خلیج بنگال انیشی ایٹو فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ہوئی جس میں تھائی لینڈ، میانمار، نیپال، سری لنکا اور بھوٹان بھی شامل ہیں۔ بھارت حسینہ واجد کی حکومت کا سب سے بڑا بینی فشری تھا اور حسینہ واجد کا تختہ الٹنے سے سرحد پار تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے، دونوں رہنماؤں کے درمیان 40 منٹ تک جاری رہنے والی بات چیت کو واضح، نتیجہ خیز اور تعمیری قرار دیا گیا ہے۔بنگلہ دیش عبوری سربراہ محمد یونس نے نریندر مودی کو بتایا کہ بنگلہ دیش دونوں ممالک کے فائدے کے لیے تعلقات کو صحیح راستے پر لانے کے لیے ان کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے۔بھارت نے بنگلہ دیش پر زور دیا ہے کہ وہ ہندوؤں کی حفاظت کرے۔بھارت الزام عائد کرتا رہا ہے کہ یونس کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہندوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ڈھاکا کا کہنا ہے کہ تشدد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور یہ فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں ہے۔دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ ثقافتی اور کاروباری تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان 4 ہزار کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ہرش پنت نے کہا کہ امید ہے کہ اس ملاقات سے کچھ تعلقات کی بحالی کا عمل شروع ہوگا، میرے خیال میں اس وقت تعلقات کو مستحکم کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
روس، چین تعلقات میں پیش رفت: توانائی، ٹیکنالوجی اور خلائی تعاون کے متعدد معاہدے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روس کے وزیراعظم میخائل میشوستین نے کہا ہے کہ عالمی سیاست اور معیشت میں غیر یقینی حالات کے باوجود ماسکو اور بیجنگ کے درمیان تعاون مضبوط سے مضبوط تر ہورہا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق چینی شہر ہانگزو میں چین روس وزرائے اعظم کے 30ویں باقاعدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میشوستین نے کہا کہ دونوں ممالک نے حالیہ عرصے میں بڑے پیمانے پر مشترکہ منصوبوں کا آغاز کیا ہے، جن میں تیل و گیس کے ذخائر کی ترقی، ہائی ٹیک آلات کی تیاری، توانائی، جوہری توانائی اور خلا و چاند کی تحقیق کے منصوبے شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ روس اور چین ہوا بازی، گاڑیوں کی تیاری، ٹرانسپورٹ راہداریوں کی تعمیر اور آرکٹک کے شدید موسمی حالات میں بھی مشترکہ کام کر رہے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی لین دین میں ڈالر اور یورو کا استعمال اب اعدادوشمار کی غلطی کے درجے تک گر چکا ہے، جو ان کے قریبی مالی تعاون کی علامت ہے۔
روسی وزیر اعظم نے کہا کہ ماسکو اور بیجنگ کے درمیان سیاحت کے شعبے میں تعاون بڑھایا جا رہا ہے اور روسی شہریوں کے لیے چین کا ویزا فری نظام نافذ ہوچکا ہے۔ ان کے مطابق صدر ولادیمیر پوٹن کی ہدایت پر روس بھی چینی شہریوں کے لیے اسی طرح کا اقدام کرنے پر کام کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین میں روسی غذائی مصنوعات کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور روس ان مصنوعات کی فراہمی مزید بڑھانے کا خواہاں ہے۔
چینی وزیراعظم لی چھیانگ نے ملاقات میں کہا کہ بیجنگ ماسکو کے ساتھ اسٹریٹجک روابط کو مضبوط بنانے، مشترکہ مفادات کے تحفظ، اور ترقی و سلامتی کے میدان میں تعاون بڑھانے کے لیے پُرعزم ہے، دونوں ممالک کو نئے دور کے جامع اسٹریٹجک اشتراک کو مزید آگے بڑھانا چاہیے۔
اجلاس کے اختتام پر دونوں ممالک کے درمیان متعدد اہم معاہدوں اور ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے گئے۔ روسی وزیراعظم نے لی چھیانگ کو ماسکو میں 17 اور 18 نومبر کو ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔