منی پور میں وقف بل کے خلاف شدید احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
اطلاعات کے مطابق بی جے پی لیڈر نے سوشل میڈیا پر ایک متنازعہ پوسٹ کی تھی، جسے مسلمانوں نے توہین آمیز قرار دیا، اس کے بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت بھر میں متنازع وقف (ترمیمی) بل 2025ء پرجاری احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے اور اب شمال مشرقی ریاست منی پور بھی اس کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بی جے پی کے ایک مقامی رہنما کے گھر کو مشتعل مظاہرین نے آگ لگا دی۔
یہ واقعہ ریاست کے ضلع تھوبال میں پیش آیا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی لیڈر نے سوشل میڈیا پر ایک متنازعہ پوسٹ کی تھی، جسے مسلمانوں نے توہین آمیز قرار دیا۔ اس کے بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور بی جے پی کے خلاف شدید مظاہرے کیے۔ احتجاج کے دباؤ میں آ کر مذکورہ بی جے پی رہنما نے معافی مانگ لی اور اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے وقف بل کے خاتمے کا مطالبہ کر دیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی کی اقلیتی مخالف پالیسیوں کے باعث بھارت بھر میں مسلم برادری میں اشتعال بڑھتا جا رہا ہے۔ منی پور کی حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے دفعہ 163 نافذ کر دی ہے تاکہ مزید پرتشدد واقعات سے بچا جا سکے۔ ادھر عوام کا کہنا ہے کہ منی پور پہلے ہی نفرت کا شکار ہے اور اب وقف بل جیسا متنازعہ قانون ان کی شناخت اور حقوق پر مزید حملہ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اس متنازعہ بل اور بھارت کے اندرونی حالات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ماہرین مطالبہ کر رہے ہیں کہ عالمی برادری اس پر آواز اٹھائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے مطابق بی جے پی منی پور
پڑھیں:
بلوچستان شدید خشک سالی کے خطرے سے دوچار، ماحولیاتی تبدیلی اور کم بارشیں بڑا چیلنج
ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے اثرات اور بارشوں میں تشویشناک کمی کے نتیجے میں بلوچستان ایک بار پھر ممکنہ خشک سالی کے خطرے کی زد میں آ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں ڈرپ اریگیشن کا کامیاب آغاز، خشک سالی میں نئی امید
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں مغربی ہواؤں کے زیر اثر معمول کے مطابق بارشوں کا امکان ہے تاہم بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقوں میں اس سال معمول سے کم بارشیں ہوں گی جس کے باعث زیر زمین پانی کی کمی اور زرعی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے وہ علاقے جہاں زیرِ زمین پانی پہلے ہی کم تھا اب خشک سالی کے مزید خطرات کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔
چاغی، نوشکی، پنجگور اور گوادر جیسے اضلاع کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے جہاں پانی کی کمی زراعت اور مالداری دونوں کے لیے سنگین چیلنج بن چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں بلوچستان کا موسمی نظام واضح طور پر بدل گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جہاں کبھی سردیوں کے آغاز پر پہاڑی سلسلوں پر برف باری اور وقت پر بارشیں ہوتی تھیں وہیں اب کئی مہینے بارش نہ ہونے کے باعث خشک سالی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
مزید پڑھیے: بارشوں اور برف باری میں کمی، کیا بلوچستان میں خشک سالی ہوسکتی ہے؟
کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹ کے مطابق رواں برس بلوچستان میں ماضی کے مقابلے میں بارشیں بہت کم ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح 1000 سے 1500 فٹ تک نیچے چلی گئی ہے جس سے صوبے میں پانی کی قلت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
خالد حسین زیر زمین پانی کی کمی کے باعث فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں 25 سے 30 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔
ان کے مطابق پانی کی کمی صرف زراعت ہی نہیں بلکہ روزگار اور دہی معیشت کو بھی متاثر کر رہی ہے اور اگر صورتحال برقرار رہی تو کسانوں کے بڑے پیمانے پر کاروبار چھوڑنے کا خدشہ ہے۔
ماہرِ ارضیات دین محمد کاکڑ نے بلوچستان میں جاری خشک سالی کو موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں بارشوں کے نظام میں نمایاں بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔
محمد کاکڑ نے کہا کہ ملک کے دیگر حصوں میں شدید بارشیں اور اربن فلڈنگ دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن بلوچستان مسلسل بارشوں کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: گوادر میں پانی کا بحران، وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ہنگامی اقدامات کا اعلان
ان کا کہنا تھا کہ شمالی اضلاع میں سولر ٹیوب ویل کے ذریعے بے تحاشہ پانی نکالا جا رہا ہے مگر اس کی جگہ دوبارہ بھر نہیں رہی اور ہر گزرتے سال پانی کی سطح مزید نیچے جا رہی ہے
انہوں نے کہا کہ کبھی بلوچستان کے کئی علاقوں میں پانی کاریزوں کے ذریعے قدرتی طور پر بہتا تھا اور انہی کاریزوں نے صدیوں تک باغبانی اور فصلوں کو سہارا دیا مگر اب تقریباً تمام کاریزیں خشک ہو چکی ہیں۔
ماہر ارضیات نے کہا کہ اگر پانی کے تحفظ کے لیے فوری پالیسی نہ بنائی گئی تو وہ علاقے جو کبھی کھیتی باڑی اور باغات کے لیے مشہور تھے آنے والے سالوں میں بالکل بنجر ہو جائیں گے۔
ماہرین اور کسانوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹیوب ویل کے بے تحاشہ استعمال پر پابندی اور نگرانی کی جائے اور واٹر مینجمنٹ پالیسی فوری طور پر نافذ کی جائے۔
یہ بھی پڑھیے: زیارت: خشک سالی اور حکومتی بے توجہی نے پھلوں کے بیشتر باغات اجاڑ دیے
ماہرین کے مطابق شہریوں میں پانی کے بچاؤ کی آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ بلوچستان کی زراعت اور مستقبل نسلوں کو پانی کی شدید قلت سے بچایا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان خشک سالی بلوچستان کی خواتین ماحولیاتی تبدیلی