ملکی سطح پر تیل و گیس کی پیداوار کے شعبے سے اچھی خبر آگئی
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
ملکی سطح پر تیل و گیس کی پیداوار کے شعبے سے اچھی خبر آگئی، ماری انرجیز نے سپنوام-1 کنویں کی لوکہارٹ فارمیشن میں تیل اور گیس کا نیا ذخیرہ دریافت کر لیا۔
سپنوام-1، وزیرستان بلاک، شمالی وزیرستان، خیبر پختونخوا میں واقع ہے جبکہ تیل و گیس کے نئے ذخائر ماڑی انرجیز کی جانب سے دریافت کے گئے ہیں، 64/64“ کے قطر کی گیس پائپ لائن اور 3,264 psig کے ویل ہیڈ فلوئنگ پریشر پر 70.
ماری انرجیز 55 فیصد حقوق کے ساتھ آپریٹر ہے جبکہ او جی ڈی سی ایل اور اورینٹ پٹرولیم بالترتیب 35 اور 10 فیصد حقوق کے ساتھ شراکت دار ہیں۔ماری انرجیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او فہیم حیدر نے اس دریافت کو پاکستان میں تیل و گیس کے حوالے سے حوصلہ افزا قرار دیا ہے۔ماری انرجیز کے چیئرمین نے سیکیورٹی فورسز، صوبائی و وفاقی حکومتوں، مشترکہ منصوبے کے شراکت داروں، ڈی جی پی سی اور وزارتِ پیٹرولیم کے تعاون پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تیل و گیس
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان
کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کا مشہور زعفران سیکٹر ایک بار پھر شدید بحران کی لپیٹ میں ہے، کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کی پیداوار میں تقریباً 90 فیصد کمی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے علاقے پامپور کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ زعفران کی پیداوار بمشکل 10 تا 15 فیصد ہے اور ہزاروں خاندان معاشی بدحالی کے دہانے پر ہیں۔ پامپور جہاں زعفران کی سب سے زیادہ کاشت ہوتی ہے، کے کاشتکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صدیوں سے کشمیر کی شناخت کی حامل زعفران کی فصل ختم ہو سکتی ہے۔ ”زعفران گروورز ایسوسی ایشن جموں و کشمیر“ کے صدر عبدالمجید وانی نے کہا کہ پیداوار بمشکل 15 فیصد ہے۔ یہ گزشتہ سال کی فصل کا نصف بھی نہیں ہے، جو بذات خود عام فصل کا صرف 30 فیصد تھا۔ ہر سال اس میں کمی آ رہی ہے اور حکومت اس شعبے کی حفاظت کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ بار بار کی خشک سالی، موثر آبپاشی کی کمی اور دستیاب کوارمز کا خراب معیار ہے۔ کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ پامپور کے پریشان کسانوں کے ایک گروپ نے کہا، "زعفران کی بحالی صرف فصل کو بچانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک روایت، ایک ثقافت اور ایک شناخت کو بچانے کے بارے میں ہے اور اگر فوری اور موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2030ء تک پامپور میں زعفران نہیں بچے گا۔