یہ دھرتی تیری جاگیر نہیں، اے غافل انسان
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہ واضح ہوچکا ہے کہ عالمی و پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اسکے کٹھ پتلی حکمرانوں کا واحد مقصد عوامی وسائل کو لوٹنا ہے۔ بلتستان کے نام نہاد "وزراء" درحقیقت قوم کے غدار ہیں، جنہوں نے اپنے عہدوں کو اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے استعمال کیا۔ انکی بدنیتی، بددیانتی اور بے حسی نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ لوٹے ہوئے مال میں برابر کے شریک ہیں۔ کب تک عوام ان چوروں، ڈاکوؤں اور ضمیر فروشوں کے رحم و کرم پر رہیں گے؟ وقت آگیا ہے کہ ان خائنین کو انکے کرتوتوں کا حساب دینے پر مجبور کیا جائے۔ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلتستان سونے کی چڑیا ہے۔ جو تمام تر قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ بلتستان قدرت کا ایک گمشدہ لعل و جواہر کا معدن ہے۔ بلتستان کے خوبصورت پہاڑوں، قیمتی معدنیات اور سرسبز زمینوں کو عالمی و پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے گماشتوں نے اپنی ذاتی تجوریاں بھرنے کے لیے نیلام کر دیا ہے۔ یہ کوئی ترقی کے منصوبے نہیں، بلکہ ایک منظم ڈاکہ زنی ہے، جس میں پاکستان کی خود غرض حکومت اور بلتستان کے ضمیر فروش وزیروں نے مل کر عوام کے حقوق کو روند ڈالا ہے۔ بلتستان کے معدنی وسائل، زرخیز زمینوں اور خوبصورت سیاحتی مقامات کو لوٹنے کا یہ گھناونا کھیل اب عوام کی آنکھوں کے سامنے کھیلا جا رہا ہے۔
پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فارم اور گرین لینڈ فارمز جیسے منصوبے محض بیرونی اور مقامی سوداگروں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں، جنہیں بلتستان کے غدار مافیاز اور وزیروں نے اپنی ذاتی تجوریاں بھرنے کے لیے فروخت کر دیا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی قوم کی میراث کو چند ٹکوں کے عوض بیچ ڈالا اور پاکستان کی غریب عوام کو ان کے حق سے محروم کر دیا۔ سیاحت کے مقدس نام پر بلتستان کی زمینیں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور اندرونی مافیاؤں کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ یہ "گرین ٹورزم" نہیں، بلکہ ایک سفاکانہ چال ہے، جس کے ذریعے مقامی لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل اور قدرتی حسن کو تباہ کیا جا رہا ہے اور تمام منافع چند خائن سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی جیبوں میں جا رہا ہے۔
کیا ان بے شرم لوگوں کو اللہ کا خوف نہیں؟ کیا انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر نہیں؟ یا پھر ان کی ہوسِ زر نے ان کے دل و دماغ کو مردہ بنا دیا ہے۔؟ یہ واضح ہوچکا ہے کہ عالمی و پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے کٹھ پتلی حکمرانوں کا واحد مقصد عوامی وسائل کو لوٹنا ہے۔ بلتستان کے نام نہاد "وزراء" درحقیقت قوم کے غدار ہیں، جنہوں نے اپنے عہدوں کو اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے استعمال کیا۔ ان کی بدنیتی، بددیانتی اور بے حسی نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ لوٹے ہوئے مال میں برابر کے شریک ہیں۔ کب تک عوام ان چوروں، ڈاکوؤں اور ضمیر فروشوں کے رحم و کرم پر رہیں گے؟ وقت آگیا ہے کہ ان خائنین کو ان کے کرتوتوں کا حساب دینے پر مجبور کیا جائے۔
اگر اب بھی بلتستانی عوام خاموش رہے تو آنے والی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ یہ نہ صرف وسائل کی لوٹ ہے، بلکہ مستقبل کی غلامی ہے۔ ان بدبخت حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائیں، ان کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کریں اور اپنے حقوق کے لیے میدان میں اتریں۔ ورنہ ہمارے بچوں کا مستقبل انہی جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور غداروں کے ہاتھوں فروخت ہو جائے گا۔ اب وقت اقدام کا ہے۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہ ہماری سرزمین ہے، کسی کی جاگیر نہیں ہے۔ اس کے ہم خود امین ہیں۔ جیسے کہ اقبال کے فلسفۂ خودی، ارضِ وطن کی حرمت اور ظلم کے خلاف بغاوت کے موضوعات کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
یہ دھرتی تیری جاگیر نہیں، اے غافل انسان
یہ امانت ہے تیری نسلوں کی تو ہے فقط امین
بتا دے تُو کہاں ہے، اے مردِ حر کے فرزند؟
کہ تیرے ہاتھ سے چھین لی گئی تیری سرزمین
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بلتستان کے کر دیا ہے کے لیے
پڑھیں:
کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
کیا آنے والا وقت انسانی کال سینٹر ایجنٹس کے خاتمے کا وقت ہے اور اگر یہ سوال آپ خود آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے پوچھیں تو شاید وہ گول مول جواب دے۔
یہ بھی پڑھیں: ’اب ہم جیسوں کا کیا بنے گا‘، معروف یوٹیوبر مسٹر بیسٹ اے آئی سے خوفزدہ
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہی سوال ٹیک کمپنی اوپن اے آئی کے ماڈل یا اسسٹنٹ جی پی ٹی سے پوچھیں تو وہ ایک محتاط جواب دے گا کہ انسان اور اے آئی ساتھ ساتھ کام کریں گے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ماہرین اور صنعت کے رہنما اس بارے میں اتنے پر امید نہیں۔
’جلد ہی کال سینٹرز کی ضرورت نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی‘بھارتی ٹیکنالوجی کمپنی ٹاٹا کنسلٹنسی سروسزکے چیف ایگزیکٹو کے کرتھی وسن نے گزشتہ سال فائنینشل ٹائمز سے گفتگو میں کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال کے بعد ایشیا میں کال سینٹرز کی ضرورت بہت کم رہ جائے گی۔
اسی طرح، تحقیقاتی ادارہ گارٹنر نے پیش گوئی کی ہے کہ سنہ 2029 تک اے آئی خودکار طور پر 80 فیصد کسٹمر سروس کے عام مسائل حل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
اے آئی ایجنٹس کا بڑھتا رجحانآج کل سب سے زیادہ بات جس اصطلاح پر ہو رہی ہے وہ ہے اے آئی ایجنٹس یعنی وہ خودکار نظام جو انسانوں کی مداخلت کے بغیر فیصلے کر سکتے ہیں اور بات چیت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ موجودہ ’رول بیسڈ چیٹ بوٹس‘ سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوں گے جو صرف پہلے سے طے شدہ سوالات کے جواب دے سکتے ہیں۔
ایک حالیہ مثال کے طور پر برطانوی پارسل کمپنی کے چیٹ بوٹ نے ایک صارف کی شکایت کو حل کرنے کی کوشش کی۔
لیکن جب صارف نے پارسل کی شکایت درج کرائی تو بوٹ نے بتایا کہ پارسل ڈیلیور ہو چکا ہے اور جب ثبوت مانگا گیا تو تصویر کسی اور کے دروازے کی تھی
مزید پڑھیے: لوگ رشتے بنانے اور بگاڑنے کے لیے اے آئی سے مشورے کیوں لے رہے ہیں؟
گفتگو اس مقام پر ختم ہو گئی کیونکہ بوٹ کے پاس اس کے بعد کوئی جواب نہیں تھا۔
کمپنی کے مطابق وہ اپنی سروس کو بہتر بنانے کے لیے 57 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
جب چیٹ بوٹ نے کمپنی کو ہی برا بھلا کہادلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری پارسل کمپنی ڈی پی ڈی کو اپنا اے آئی چیٹ بوٹ بند کرنا پڑا جب اس نے صارفین سے بدتمیزی کی اور خود اپنی کمپنی پر تنقید شروع کر دی۔
یہ واقعہ اس بات کی مثال ہے کہ اے آئی کو برانڈ کے مطابق رکھنا اور صارف کی مدد کرنا بیک وقت کتنا مشکل کام ہے۔
صرف 20 فیصد AI پراجیکٹس توقعات پر پورےگارٹنر کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 85 فیصد کسٹمر سروس لیڈرز اے آئی چیٹ بوٹس کو آزما رہے ہیں یا استعمال کر رہے ہیں لیکن ان میں سے صرف 20 فیصد منصوبے توقعات پر پورے اترے ہیں۔
مزید پڑھیں: لاکھوں ملازمتیں مصنوعی ذہانت کے نشانے پر، کون بچ پائے گا؟
گارٹنر کی ماہر ایملی پوٹوسکی کہتی ہیں کہ اے آئی سے بات چیت زیادہ قدرت لگ سکتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ بعض اوقات غلط معلومات دے سکتا ہے یا بالکل بے ربط جواب دیتا ہے۔
ان کے مطابق، پارسل ڈیلیوری جیسے مخصوص معاملات میں رول بیسڈ بوٹس زیادہ موزوں ہیں کیونکہ ان میں سوالات کی اقسام محدود ہوتی ہیں۔
’اے آئی ہمیشہ سستا نہیں ہوتا‘اگرچہ کئی کمپنیاں اے آئی کے ذریعے انسانی عملے کو کم کرنے پر غور کر رہی ہیں، مگر پوٹوسکی کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ اے آئی ہمیشہ سستا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت مہنگی ٹیکنالوجی ہے اور اسے کارآمد بنانے کے لیے بہت بڑا تربیتی ڈیٹا درکار ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ نالج مینجمنٹ یعنی کمپنی کے ڈیٹا کو منظم کرنا اے آئی کے لیے پہلے سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔
انسانوں سے سیکھنے والے اے آئیسیلز فورس کے چیف ڈیجیٹل آفیسر جو انزیریلو کے مطابق کال سینٹرز دراصل اے آئی کے لیے بہترین تربیتی میدان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان سینٹرز میں پہلے سے موجود تربیت، دستاویزات اور گاہکوں کے ڈیٹا سے اے آئی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت اور ملازمتوں کا مستقبل: خطرہ، تبدیلی یا موقع؟
ان کی کمپنی کا اے آئی پلیٹ فارم پہلے ہی مختلف اداروں جیسے فارمولا 1، پروڈینشیئل، اوپن ٹیبل اور ریڈٹ وغیرہ میں استعمال ہو رہا ہے۔
ابتدائی تجربات میں کمپنی نے یہ جانا کہ اے آئی کو زیادہ انسانی لہجہ دینا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ایک انسان کہتا ہے ’مجھے افسوس ہے آپ کو یہ مسئلہ پیش آیا‘ تو اے آئی صرف ایک ٹکٹ بنا دیتا تھا لیکن اب ہم نے اسے ہمدردی دکھانے کی تربیت دی ہے۔
کیا انسانوں کی جگہ ممکن ہے؟اگرچہ سیلز فورس کے مطابق 94 فیصد صارفین اے آئی ایجنٹس سے مطمئن ہیں لیکن کمپنی کی جانب سے 100 ملین ڈالر کی لاگت میں کمی کے باوجود زیادہ تر ملازمین کو دوسرے شعبوں میں منتقل کیا گیا، برخلاف ان خبروں کے کہ 4 ہزار ملازمین کی نوکریاں ختم ہو گئیں۔
دوسری طرف جو کمپنی کیو اسٹوری چلانے والی فیونا کولمین کہتی ہیں کہ اے آئی انسانوں کو مکمل طور پر بدل نہیں سکتی۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی میں صرف ایک انسان سے بات کرنا چاہتی ہوں خاص طور پر حساس معاملات جیسے قرض یا گھر کے قرض کے بارے میں۔
انسان سے بات کرنے کا حقامریکا میں ایک مجوزہ قانون کے تحت کمپنیاں صارفین کو یہ حق دینے کی پابند ہوں گی کہ اگر وہ چاہیں تو اے آئی کی بجائے انسان سے بات کر سکیں۔
اسی طرح گارٹنر کی پیش گوئی ہے کہ سنہ 2028 تک یورپی یونین بھی اپنے صارفین کو ’انسان سے بات کرنے کا حق‘ قانونی طور پر فراہم کر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
الغرض سنہ 2029 تک AI80 فیصد کسٹمر سروس خود بخود انجام دے سکتا ہے۔ کچھ کمپنیاں انسانی ایجنٹس کی جگہ اے آئی چیٹ بوٹس لا رہی ہیں مگر نتائج ملے جلے ہیں۔ اے آئی کے لیے درست تربیت، ڈیٹا اور اخلاقی حدود اب بھی سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اور کم از کم پیچیدہ مسائل میں صارف شاید اب بھی انسانی رابطہ چاہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی اور کال سینٹرز اے اور انسانی نوکریاں کال سینٹرز