ٹرمپ کی حکمت عملی بنیادی طور پر بلیک میلنگ ہے، پاسکل لامی
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
وااشنگٹن :ڈبلیو ٹی او کے سابق ڈائریکٹر جنرل پاسکل لامی نے ٹرمپ کی کاروباری حکمت عملی پر کھل کر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:” ٹرمپ نے نیویارک کی مافیا زدہ ریئل اسٹیٹ صنعت میں کاروبار کرنا سیکھا ہے، اس کی حکمت عملی بنیادی طور پر بلیک میلنگ ہے۔مسلسل دباؤ ڈالنا یہاں تک کہ مخالفین کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے۔” لامی کا یہ مشاہدہ ٹرمپ کے رویے کے بنیادی اصول کو بے نقاب کرتا ہے: کاروباری مذاکرات میں استعمال ہونے والے جارحانہ طریقوں کو سیاسی میدان میں استعمال کرنا۔ٹرمپ کا پیشہ ورانہ کیریئر 1970 کی دہائی میں نیویارک کی ریئل اسٹیٹ صنعت سے شروع ہوا۔ اس کے والد فریڈ ٹرمپ نے سیاستدانوں، یونینز اور گینگسٹرز کے ساتھ پیچیدہ تعلقات استعمال کر کے فائدہ اٹھایا۔ اس ماحول نے ٹرمپ کی کاروباری اقدار کو تشکیل دیا: جارحانہ رویہ، قوانین کی حدود کو دھندلا کرنا، اور مخالفین کو انتہائی دباؤ میں لا کر رعایت حاصل کرنا۔ ٹرمپ کی شخصیت کی تشکیل کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے، ہم اس کے رویے کے پیچھے چھپی تاریکی کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اپنی سوانح عمری” دی آرٹ آف دی ڈیل” میں صاف کہتا ہے: “مذاکرات کی کامیابی کا راز غیر متوقع رویہ اختیار کرنا ہے، تاکہ مخالف خوف زدہ ہو جائے”۔ ظاہر ہے کہ اس کے “کامیابی کے اصولوں” میں دھوکہ دہی اور جھوٹ بھی شامل ہے۔ اپنی کاروباری سلطنت کھڑی کرنے سے لے کر صدارتی انتخابات جیتنے تک، ٹرمپ نے خود کو ایک “سیلف میڈ ارب پتی” ظاہر کیا اور ہمیشہ یہی دعویٰ کیا کہ اس کے والد نے اسے مالی مدد نہیں دی۔ لیکن نیویارک ٹائمز کی تحقیق سے پتہ چلا کہ ٹرمپ کو اپنے والد کی ریئل اسٹیٹ ایمپائر سے آج کے حساب سے کم از کم 413 ملین ڈالر ملے، اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ رقم زیادہ تر 1990 کی دہائی میں ٹیکس چوری کے ذریعے اس کے پاس پہنچی۔ اگر جھوٹ بولنے سے ناک لمبی ہوتی، تو ٹرمپ کی ناک “پنوکیو” کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ۔ اب جب ہم ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس نے اپنی کاروباری حکمت عملی کو تجارتی جنگ میں بالکل اسی طرح استعمال کیا ہے: یکطرفہ دھمکیوں کے ذریعے ڈبلیو ٹی او کے کثیرالجہتی نظام کو نظر انداز کرکے براہ راست دیگر ممالک پر زیادہ ٹیرف نافذ کرنا ، نفسیاتی دباؤ ڈال کر مارکیٹ میں خوف پھیلانا، سخت بیانات دے کر مخالفین کو جلد ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا،بے بنیاد ٹیرف کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ بلیک میلنگ کرنا۔لیکن ٹرمپ شائد یہ بھول گیا کہ سیاسی کھیل کاروباری لین دین سے بالکل مختلف ہے۔ قومی ریاستوں کی عوامی مرضی، قومی وقار اور صبر کی صلاحیت کسی بھی کاروباری ادارے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ٹرمپ کے لئے پاسکل لامی کی طرف سے بیان کردہ “طاقت کے مظاہرے” کی حکمت عملی پوری دنیا کے لیے اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ بدمعاشوں کی بلیک میلنگ کے آگے جھکنا ہمیشہ کے لیے مصائب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے، عالمی برادری کو کثیرالجہتی تعاون کے نظام کو مزید مضبوط بنانا چاہیے، قانونی طریقہ کار کے ذریعے ڈبلیو ٹی او جیسے عالمی فورمز پر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنا چاہیے، اس کی سیاسی قیمت بڑھانی چاہیے، اور ساتھ ہی متبادل اتحادی نظاموں جیسے آر سی ای پی اور سی پی ٹی پی پی کو مضبوط کر کے امریکی مارکیٹ پر انحصار کم کرنا چاہیے۔ ٹرمپ نے اپنے نیویارک ریئل اسٹیٹ کے تجربات کو عالمی سطح پر ٹیرف جنگ میں استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بین الاقوامی نظام کی پیچیدگی کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یکطرفہ جبر کبھی بھی عالمی نظام کو نہیں بدل سکتا۔ موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے، ممالک کو قوانین کو ڈھال اور طاقت کو نیزہ بنا کر ٹرمپ جیسی جارحانہ پالیسیوں کو روکنا ہوگا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: استعمال کر ریئل اسٹیٹ بلیک میلنگ حکمت عملی ٹرمپ کی کے لیے
پڑھیں:
تعلیمی اداروں میں امتحانات ختم کر دینا چاہییں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ایک درجن سے زائد اساتذہ، ماہرین تعلیم اور طلبہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سنجیدگی سے یہ جانچا جائے کہ آیا روایتی امتحانات کا سسٹم آج بھی علم کی حقیقی پیمائش کا مؤثر ذریعہ ہیں یا نہیں۔
مقصد کیا صرف یادداشت کو جانچنا ہے؟گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تعلیمی اداروں میں موجودہ امتحانی نظام کا مقصد محض طلبہ کی یادداشت کو جانچتا ہے نہ کہ ان کی فہم یا تنقیدی صلاحیت کو۔
ڈاکٹر اصفر زیدی کے بقول، "بچے صرف اچھے نمبر لینے کے لیے رٹے بازی پر انحصار کرتے ہیں اور سیکھنے کا اصل مقصد کہیں کھو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
" وہ سمجھتے ہیں کہ ایک سال کی محنت کو تین گھنٹوں کے پرچے سے جانچنا کسی طور مناسب نہیں۔
ان کے خیال میں سمسٹر سسٹم ایک بہتر متبادل تھا مگر اس میں بھی خامیاں پیدا ہو چکی ہیں، "اب اکثر اساتذہ مکمل نصاب پڑھانے کے بجائے صرف چند موضوعات پر توجہ دیتے ہیں اور انہی سے امتحان لے کر پوری کلاس کو پاس کر دیتے ہیں۔
" ان کا مشورہ ہے کہ اساتذہ کو حاصل امتحانی اختیارات محدود کر کے بیرونی ممتحن (ایکسٹرنل ایگزامینر) کا کردار بڑھایا جانا چاہیے۔ کیا امتحانات اسٹوڈنٹس کی ذہنی صحت کے لیے مسئلہ ہیں؟کچھ طالب علموں کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں امتحانات طلبہ پر شدید ذہنی دباؤ ڈالتے بھی ہیں اور یہ دباؤ کئی نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔
اے لیول کی ایک طالبہ ایشال طارق نے بتایا، "ہماری کلاس کے کئی طلبہ کو امتحانی دباؤ کی وجہ سے نیند نہ آنے، پینک اٹیک ہونے اور صحت کے دیگر مسائل کا سامنا رہا ہے۔‘‘پنجاب یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات محمد رؤف نواز کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ روایتی امتحانات کو ختم کر کے ایک جامع اور جدید نظام اپنایا جائے۔ ان کے مطابق، "محض کتابی رٹہ بازی طلبہ کی ترقی کا معیار نہیں ہونا چاہیے۔
حاضری، کلاس ڈسکشن، غیر نصابی سرگرمیاں اور تحقیقی منصوبے بھی کارکردگی کا حصہ ہونے چاہییں۔‘‘ان کا کہنا ہے، "آج کی دنیا میں روایتی ڈگریوں اور امتحانات کی وقعت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ملازمت کے لیے اب پراجیکٹس، مہارتیں اور عملی تجربہ دیکھا جاتا ہے۔ آپ خود سوچیں، ایک نوجوان جو ایم اے یا ایم فل کے امتحانات پاس کر چکا ہو لیکن ایک رپورٹ تیار کرنے یا کمپیوٹر چلانے کی مہارت نہ رکھتا ہو، کیا وہ ملازمت حاصل کر پائے گا؟"
عملی تجربہ لازمی ہے!پنجاب یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات رؤف نواز کے بقول پاکستان میں اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد بچوں کو مختصر مدت میں عملی مہارتیں سکھا کر فیلڈ میں بھیج دینا چاہیے۔
اسی لیے بی ایس اور ایل ایل بی جیسے پروگراموں کے دورانیے کم کرنے کی تجاویز زیر غور ہیں۔رؤف نواز نے چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس نظام میں اگرچہ روایتی امتحانات نہیں ہوتے مگر اس کے تربیت یافتہ افراد کی عملی مہارتیں ہمیشہ نمایاں رہی ہیں۔ ان کے مطابق امتحانات کی ساکھ اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتی جب تک امتحان لینے والے افراد دیانت دار نہ ہوں۔
ایک جانبدار ممتحن کسی نااہل امیدوار کو بھی ڈگری دلوا سکتا ہے، اس لیے امتحانی عمل کو شخصی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔ندیم نامی ایک طالب علم نے سوال اٹھایا، "ایک جیسے پرچے پر ساجد کو پانچ نمبر اور ساجدہ کو پچاس نمبر کیسے مل سکتے ہیں؟ کیا یہ ممتحن کی سلیکشن یا تعصب کا مسئلہ نہیں؟"
رقیہ نورین گزشتہ پندرہ برسوں سے ایک نجی تعلیمی ادارے میں امتحانی امور کی انچارج ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نجی شعبے میں امتحانی اصلاحات کافی پہلے شروع ہو چکی تھیں، ''ہمارا امتحانی نظام بڑی حد تک کمپیوٹرائزڈ ہے۔ صرف 10 فیصد سوالات یادداشت سے متعلق ہوتے ہیں، باقی سوالات طلبہ کی فہم، تجزیہ اور تخلیقی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔‘‘لاہور کالج فار ویمن سے وابستہ ڈاکٹر شبانہ اصغر نے اس خیال کا اظہار کیا کہ امتحانات طلبہ کو ایک ہی پیمانے سے ناپتے ہیں حالانکہ ہر طالب علم کی صلاحیت، ذہنی رجحان اور سیکھنے کا انداز مختلف ہوتا ہے، ''تین گھنٹے کے امتحان کے بجائے ایک تقریر، تحقیقی رپورٹ یا تخلیقی منصوبہ طالب علم کی صلاحیت کا بہتر عکاس ہو سکتا ہے۔
‘‘ اصلاحات کی جائیں لیکن امتحانی نظام بالکل ختم نہ کیا جائےامتحانات کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ یہ نظام کسی حد تک نظم و ضبط اور میرٹ کا ضامن ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی کہتی ہیں کہ امتحانات کو مکمل طور پر ختم کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول، "امتحانات ہی طلبہ کو مطالعہ، تحقیق اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔
اگر انہیں ذہنی دباؤ کا جواز بنا کر ختم کر دیا گیا تو سیکھنے کی رہی سہی روایت بھی ماند پڑ جائے گی۔‘‘ان کا ماننا ہے کہ اعتدال ہی بہتر راستہ ہے، "امتحانی نظام میں اصلاحات ضرور ہونا چاہییں، لیکن جہاں روایتی امتحانات ضروری ہوں، خاص طور پر سائنس، ریاضی یا قانون جیسے مضامین میں، وہاں انہیں برقرار رکھا جانا چاہیے۔"
کئی ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ امتحانات کا مکمل خاتمہ فی الحال ممکن نہیں، لیکن اس شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ مسلسل تعلیمی جائزہ، اوپن بُک امتحانات، پراجیکٹ بیسڈ اسائنمنٹس، زبانی پریزنٹیشنز اور گروہی مباحثوں جیسے متبادل ذرائع سے طلبہ کی تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا بہتر انداز میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔