رواں مالی سال 2024-25 کے پہلے 8 ماہ میں جولائی 2024 تا فروری 2025 ترسیلات زر کے حوالے سے پاکستان کو 24 ارب ڈالر کے حصول کے ساتھ اس کا موازنہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت سے کیا جائے تو یہ 32.55 فی صد سے زیادہ اضافے کو بیان کرتا ہے۔
ترسیلات زر بھیجنے والے تارکین وطن ہوتے ہیں، چند سالوں سے یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ ان میں سے بیشتر افراد جوکہ زیادہ تر غیر ہنرمند ہوتے ہیں، یعنی ان کے پاس کسی قسم کا ہنر یا کسی قسم کی کوئی ٹیکنیکل ایجوکیشن نہیں ہوتی ہے ایجوکیشن تو ہوتی ہے لیکن میٹرک، انٹر آرٹس، بی اے یا بعض ایم اے بھی ہوتے ہیں، ہمارے ملک کی تعلیم کا یہ بھی عجیب معاملہ ہے کہ کالج کی تعلیم ہو یا پرائیویٹ میٹرک تا ایم اے کی تعلیم ہو ایک طالب علم 12 سے 16 سال اپنی زندگی کے تعلیم کے حصول کے لیے صرف کرکے بی اے یا ایم اے کی ڈگری ریگولر یا پرائیویٹ بھی حاصل کر لیتا ہے لیکن بعض افراد کا کہنا ہے کہ انگریزی بولنے تک کے وہ ماہر نہیں ہوتے۔
بہرحال ملک میں گزشتہ آٹھ دہائیوں سے اب تک ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی جاسکی۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس میں 1990 تک کی دہائی میں بننے والی فلموں کا بڑا ہاتھ ہے جس میں دکھایا جاتا ہے کہ ہیرو نے بی اے کیا اور وہ ایک بڑی سی مل کا منیجر تعینات ہوجاتا ہے، لہٰذا میٹرک کے بعد طالب علموں کی صحیح طور پر رہنمائی نہ ہونے کے باعث بی اے کرنے لگ جاتے ہیں اور عموماً انگریزی کے پرچے میں فیل ہو کر کئی سال ضایع کر دیتے ہیں۔
اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ بیرون ملک افراد کے بارے میں جیساکہ سنتے رہتے ہیں کہ ان بے روزگار نوجوانوں کو بھی اس بات کا جنون ہوتا ہے یا پھر امریکا یا کینیڈا پہنچ کرکوئی روزگار تلاش کر لیں بہت سے افراد اس سلسلے میں غیر قانونی طریقے اختیار کرتے ہیں اور موت کے سوداگروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ان کو کسی ملک میں لے جا کر کشتی کو ایسے مسافروں سے لبا لب بھر دیتے ہیں اور انھیں مرنے کے لیے کھلے سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
بعض افراد کا کہنا ہے کہ ایک طرف متعلقہ ملک کے ساحل پرکھڑے سپاہی فائرنگ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ سمندر میں شارک مچھلیاں ان کا انتظارکررہی ہوتی ہیں اور پھر بدقسمتی سے کشتی الٹ گئی تو بہت سی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں جن میں اکثر پاکستانیوں کی بھی ہوتی ہیں۔ کئی عشروں سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے لیکن موت کے سوداگروں کی وقتی طور پر زور و شور سے تلاش ہوتی ہے چند ہاتھ لگ بھی جاتے ہیں تو کیا؟ باقی سب اسی طرح سے اپنے مکروہ دھندوں میں ملوث رہتے ہیں۔
سال 2024 میں 7 لاکھ سے زائد پاکستانی ملازمتوں کے لیے بیرون ملک گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بیرون ملک موجود پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر پاکستانی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ دوسری طرف یہ افراد اپنے اسکلز کو مزید نکھارکر اور جدید ٹیکنالوجی کو پاکستان میں منتقل کرنے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ اس طرح2024 میں 34 ارب 60 کروڑ ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ پاکستان بھیجا گیا، لیکن رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں اس سلسلے میں مسلسل ریکارڈ اضافہ نوٹ کیا گیا۔
صرف ماہ فروری میں ملک میں 3 ارب 12 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جو سالانہ بنیادوں پر 32.                
      
				
مالی سال 2024-25 کے پہلے 8 ماہ میں ترسیلات زر 24 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جوکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں موصولہ 8.1 ارب ڈالر کے مقابلے میں 32.55 فی صد زیادہ ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں 8 ماہ کی مدت میں ترسیلات زر کی سب سے زیادہ سطح ہے۔ اس کے علاوہ اس دوران حکومت نے غیر قانونی ذرایع جیسے حوالہ ہنڈی پر سخت کریک ڈاؤن لگایا اس دوران زرمبادلہ کی شرح میں استحکام بھی رہا اور غیر رسمی منڈی میں کم منافع کی شرح نے غیر قانونی چینلز کے استعمال کی حوصلہ شکنی دیکھنے میں آئی اور اب آیندہ مہینوں میں بھی یہ تسلسل جاری رہ سکتا ہے۔
بشرطیکہ حکومت ان باتوں پر بھی غور کرتی رہے کہ بیرون ملک سے بہت سے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے یا بہت سے پاکستانیوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے۔ ورک ویزا کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اسی طرح انسانی اسمگلر کو کنٹرول کرنے میں ناکامی ہو رہی ہے۔ ابھی تک حکومت ملک میں کوئی ایسا وسیع پروگرام شروع نہ کر سکی جس میں ہر میٹرک یا مڈل بلکہ پرائمری تک کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم اور ٹریننگ دی جائے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ترسیلات زر بیرون ملک جا رہا ہے کی تعلیم مالی سال ملک میں ہیں اور
پڑھیں:
طلباء کے مقابلے میں اساتذہ کی تعداد زیادہ ضلعی افسر سے وضاحت طلب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-15
 بدین (نمائندہ جسارت)طلباء کے مقابلے میں اساتذہ کی غیر متناسب تعداد ، ضلعی تعلیم افسر سے وضاحت طلب۔سیکریٹری اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ سندھ کی جانب سے ضلعی تعلیم افسر (سیکنڈری و ہائی اسکولز) بدین احمد خان زئنور سے وضاحت طلب کی گئی ہے محکمے کی جانب سے جاری کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ گورنمنٹ گرلز لوئر سیکنڈری اسکول احمد نوح سومرو، بدین میں صرف 90 طالبات داخل ہیں، جب کہ اس اسکول میں 18 اساتذہ تعینات ہیں، جو اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ایس ٹی آر (اسٹوڈنٹ-ٹیچر ریشو) پالیسی کی کھلی خلاف ورزی ہے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پالیسی کے تحت سندھ بھر میں 10 ہزار سے زائد اساتذہ کو ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں منتقل کیا گیا تاکہ طلباء اور اساتذہ کا تناسب متوازن رکھا جا سکے، لیکن ضلعی تعلیم افسر بدین کی جانب سے اضافی اساتذہ کی منتقلی کے لیے کوئی تجویز کمیٹی کو پیش نہیں کی گئی نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ضلعی سطح پر گریوینس کمیٹی میں بھی اس صورتحال کی درستگی کے لیے موقع دیا گیا، لیکن اساتذہ کی منتقلی کے لیے کوئی تجویز نہیں دی گئی، جو محکمے کی پالیسی اور قواعد کی خلاف ورزی اور غفلت کی علامت ہے، جو کہ بدانتظامی کے زمرے میں آتی ہے سیکریٹری آفس کراچی کی جانب سے جاری کردہ خط میں ضلعی تعلیم افسر کو تین دن کے اندر تحریری وضاحت پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، بصورت دیگر ان کے خلاف ای اینڈ ڈی رولز کے تحت کارروائی شروع کی جائے گی یاد رہے کہ ایسی صورتحال بدین کے کئی اسکولوں میں پائی جاتی ہے، جہاں طلباء کم مگر سفارش یا بھاری رشوت کے عوض اساتذہ زیادہ مقرر کیے گئے ہیں۔تازہ مثال بدین شہر کے گورنمنٹ بوائز لوئر سیکنڈری اسکول بیراج کالونی (سیمز کوڈ 401010891) کی ہے، جہاں ضرورت سے زیادہ اساتذہ تعینات کیے گئے ہیں میڈیا پر خبریں نشر ہونے کے باوجود محکمہ تعلیم کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ دوسری جانب، پابندی سے ڈیوٹی کرنے والے اساتذہ کو مختلف بہانوں سے ہراساں بھی کیا جا رہا ہے محکمہ تعلیم بدین بدعنوانی، اقربا پروری اور ناانصافیوں کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے شہر کے مشہور بوائز ہائی اسکول بدین میں، جہاں گریڈ 20 کے 4، گریڈ 19 کے 6 اور گریڈ 18 و 17 کے متعدد اساتذہ موجود ہیں، وہاں گریڈ 16 کی ایچ ایس ٹی شہنیلا احمد میمن کو اسکول کا ہیڈ مقرر کیا گیا ہے، جس پر شہریوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔