امریکی ٹیرف پالیسی نے عالمی معاشی نظام میں شدید افراتفری پیدا کردی ہے ، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
بیجنگ : چین کی وزارت خارجہ نے ایک مختصر ویڈیو جاری کی جس میں ایک فکر انگیز سوال اٹھایا گیا تھا۔سوال یہ تھا کہ کیا آپ “تشدد، بالادستی، جبر، اشتعال انگیزی اور محصولات کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں، یا ایک ایسی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں جہاں کوئی جنگ نہ ہو، تمام حجم کے ممالک برابر ہوں اور ہم آہنگی کے ساتھ رہیں؟
” یہ مسئلہ ایک آئینے کی طرح موجودہ عالمی صورتحال کی بے چینی اور پیجیدگی کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر حالیہ امریکی ٹیرف پالیسی کی وجہ سے شروع ہونے والے سلسلہ وار مسائل لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں جنہوں نے عالمی معاشی نظام میں شدید افراتفری پیدا کردی ہے ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ نے “ٹیرف کا بحران” پیدا کیا ہے۔ 1930 میں ، امریکہ نے سموٹ ہولی ٹیرف ایکٹ نافذ کیا اور 20،000 سے زیادہ درآمدی اشیاء پر محصولات میں نمایاں اضافہ کیا ، جس سے عالمی تجارت 66 فیصد تک سکڑ گئی تھی اور امریکہ بھی گریٹ ڈپریشن کےدور میں چلا گیا تھا ۔
تاریخ خود کو حیرت انگیز طور پر دہراتی ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے محصولات کا حالیہ سلسلہ عالمی معاشی نظام میں ایک بہت بڑا بحران پیدا کر رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کو اس سے فائد ہ ہوا ہے ؟اس کا جواب ہے ،نہیں ۔
امریکہ پوری دنیا پر پابندیاں عائد کرکے دوسرے ممالک کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ غنڈہ گردی کے آگے جھکنے سے غنڈہ گردی کی راہ ہموار ہو گی اور سلسلہ رکے گا نہیں ۔ امریکہ کی نظر میں اس کے “حریف” چین سے لے کر اس کے”اتحادی” یورپی یونین اور پھر “اچھا پڑوسی ” کینیڈا تک نے یکے بعد دیگرے امریکہ کے خلاف جوابی اقدامات اٹھائے ہیں جس پر دنیا کو حیرت نہیں ۔ اقوام متحدہ سے لے کر ڈبلیو ٹی او تک اور پھر بڑے اور چھوٹے تمام ممالک میں امریکہ پر تنقید دیکھی اور سنی جا رہی ہے ۔
امریکی عوام ایک طرف تو اشیائے ضروریہ کا ذخیرہ کر رہے ہیں، تو دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ پر امریکہ کی ساکھ خراب کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ جبکہ اسٹاک مارکیٹ کی گراوٹ اور بڑھتی ہوئی لاگت سے پریشان امریکی کمپنیاں ٹرمپ حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی پر غور کر رہی ہیں
” امریکہ کے بھاری محصولات پوری دنیا کے خلاف اقتصادی جوہری جنگ لڑنے کے مترادف ہیں”۔امریکی ارب پتی اور نامور ہیج فنڈ مینیجر بل ایکمین ، جو خود ٹرمپ کے حامی بھی ہیں، نے یہ بات کہی۔ ان کے الفاظ میں، “ایک معاشی جوہری جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ دشمن کو نقصان پہنچانے کے چکر میں اپنا ہی زیادہ نقصان ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب یہ دشمن محض ایک ‘تصوراتی’ دشمن ہو۔”
اب اس “جوہری جنگ” کے “نظریاتی آغاز”کی جانب جائیں تو ٹیرف جنگ کی ابتدا اصل میں ٹرمپ کے تجارتی اور اقتصادی مشیر پیٹر نوارو کی کتاب میں رون وارا نامی ایک نام نہاد “ماہر اقتصادیت” سے آئی تھی۔تاہم، امریکی میڈیا نے انکشاف کیا کہ رون وار نامی کوئی شخص نہیں تھا اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ نوارو نے ایک خیالی کردار”تخلیق”کیا تھا جو اس کے اپنے ہی نام کے حروف کی ترتیب کی تبدیلی سے بنتا ہے ۔
دشمن خیالی ہے، نظریہ فرضی ہے تو نتیجہ میں بھی ایک ہوائی قعلہ کی طرح ناکامی لازمی ہے.
مزیدسنگین مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ ایک تجارتی شراکت دار، کاروباری مقام اور سرمایہ کاری کی مارکیٹ کے طور پر اپنی ساکھ اور اعتماد کو تباہ کر رہا ہے. یہ امریکہ کو “دوبارہ عظیم” بنانے کے بجائے امریکہ کو “غیر معقول” بنا رہا ہے!
اس بحران نے دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ عالمی حکمرانی کو فوری طور پر “جنگل کے قانون” سے ” قواعد پر مبنی تہذیب” کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹو اور آر سی ای پی بنیادی ڈھانچے کے روابط سے تجارتی رکاوٹوں کو توڑ رہے ہیں۔ آسیان کی ڈیجیٹل معیشت میں تعاون اور افریقی کانٹیننٹل فری ٹریڈ ایریا جیسی نئی قوتیں بھی کثیر جہتی اقتصادی نقشے کو نئی شکل دے رہی ہیں۔ ایسی صورت میں یکطرفہ پسندی اور “زیرو سم گیم” کو ترک کرنا،اور کیک کو اکیلے خود کھانے کی بجائے اس میں سب کے حصے کے تصور کو اپنانا ہی مخمصے کو ختم کرسکتا ہے۔
سو مضمون کے آغاز میں جو سوال کیا گیا تھا اس کا جواب خود بخود واضح ہے۔ کھلا پن، تعاون، مساوات اور باہمی تعاون ہی تمام ممالک کے لیے موزوں مستقبل ہیں کیوں کہ غندہ گردی کی دنیا ،غنڈہ گردی کرنے والوں کے علاوہ کوئی نہیں چاہتا۔
Post Views: 4ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
قطر میں عالمی اجلاس، صدر زرداری پاکستان کی ترجیحات اور پالیسی فریم ورک پیش کریں گے
صدر مملکت آصف علی زرداری دوحہ میں منعقد ہونے والی دوسری عالمی سماجی ترقیاتی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے، یہ اجلاس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تحت منعقد ہورہا ہے، جس میں عالمی سطح پر سماجی تحفظ، روزگار کے مواقع اور پائیدار ترقی سے متعلق اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا، اجلاس 4 تا 6 نومبر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک چین دوستی نسل در نسل آگے بڑھے گی، صدر مملکت آصف زرداری کی شنگھائی میں اعلیٰ سطح ملاقاتیں
صدر آصف علی زرداری کانفرنس سے خطاب میں سماجی ترقی، روزگار کے فروغ اور جامع معاشی نمو کے لیے پاکستان کے عزم کو اجاگر کریں گے۔ وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غربت میں کمی اور کمزور طبقوں کے استحکام کے لیے کیے گئے اقدامات پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
اجلاس میں صدرِ مملکت دوحہ الائنڈ سوشل پروٹیکشن اینڈ جابز کمپیکٹ (2026-28) کے آغاز کے حوالے سے پاکستان کی تیاری کا تذکرہ بھی کریں گے۔ اس منصوبے کا مقصد غیر رسمی ملازمین، معذور افراد اور بچوں کے لیے سماجی تحفظ کے دائرہ کار کو وسعت دینا اور ماحول دوست روزگار کے مواقع بڑھانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بے نظیر ہنرمند پروگرام قوم کے نوجوانوں کو بااختیار بنائے گا، صدر مملکت آصف زرداری
صدر آصف علی زرداری دوحہ پولیٹیکل ڈیکلریشن اور عالمی ترقیاتی وعدوں سے ہم آہنگ پاکستان کے ترجیحی منصوبوں کو بھی نمایاں کریں گے، جبکہ ترقیاتی شراکت داروں اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ قریبی تعاون کے عزم کا اعادہ کریں گے۔
صدرِ مملکت ایس ڈی جی اسٹیمولس، قرض برائے سماجی و ماحولیاتی تبدیلی اور چین کے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو جیسے ذرائع سے مالی وسائل کے حصول کی اہمیت پر زور دیں گے۔ وہ اس بات کو بھی واضح کریں گے کہ پاکستان دوحہ سربراہی اجلاس کے نتائج کو عملی اقدامات میں تبدیل کرنے کے لیے پُرعزم ہے، تاکہ پائیدار اور جامع ترقی کے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
دورۂ قطر کے دوران صدر آصف علی زرداری عالمی و علاقائی رہنماؤں، قطر کی قیادت اور اقوامِ متحدہ سمیت اہم بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آصف علی زرداری اقوام متحدہ پاکستان جنرل اسمبلی دوحہ کانفرنس سماجی ترقی