Jasarat News:
2025-11-01@22:34:33 GMT

وائٹ ہائوس میں میڈیا کے داخلے پر پابندی

اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT

وائٹ ہائوس میں میڈیا کے داخلے پر پابندی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وائٹ ہاو¿س میں میڈیا کے داخلے پر پابندی
واشنگٹن: وائٹ ہائوس کی جانب سے میڈیا اراکین کے داخلے پر سخت پابندیاں عاید کردی گئیں ہیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق وائٹ ہائوس نے بھی میڈیا اراکین کے داخلے پر سخت پابندیاں عاید کردیں، جس کے بعد اب امریکا بھر میں آزادی صحافت سے متعلق نئی بحث چھڑچکی ہے۔ عالمی رپورٹ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت صحافی اب وائٹ ہائوس کی پریس سیکرٹری یا دیگر اعلیٰ حکام کے دفاتر میں بھی بغیر اجازت داخل نہیں ہوسکیں گے۔ مزید یہ کہ اپر پریس روم میں داخلہ بھی صرف پیشگی اجازت نامے کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔ مذکورہ نئی میڈیا پالیسی کے عمل درآمد کے بغیر کسی کو رسائی نہیں دی جائے گی۔
نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہائوس کے جاری اعلامیے میں کہا کہ مذکورہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہے اور اس کا مقصد حساس معلومات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
یہ بات بھی علم میں رہے کہ گزشتہ ماہ پینٹاگون میں بھی مذکورہ نوعیت کی پابندیاں عاید کی گئی تھیں، جن پر امریکی صحافتی حلقوں نے سخت ردِعمل دیا تھا۔ دوسری جانب اعلیٰ حکام نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا کہ پالیسی تمام میڈیا اداروں پر یکساں لاگو ہوگی اور کسی کو استثنا حاصل نہیں ہوگا۔

محمد ایوب.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے داخلے پر وائٹ ہائوس

پڑھیں:

اسرائیلی برتری کی خاطر غزہ میں کنٹرول شدہ تناو پر مبنی امریکی پالیسی

اسلام ٹائمز: اس صورتحال سے ایک گہری تبدیلی بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسٹریٹجک فیصلہ کا مرکز تل ابیب سے باہر منتقل ہو جانے پر مبنی ہے۔ بیرونی موثر فوجی نظارت کے باعث اسرائیلی فوج فوجی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود نہ تو حملے اور نہ ہی جوابی کاروائی میں خودمختار نہیں ہے۔ اسرائیل کے جنوب خاص طور پر کریات گات آپریشن روم میں امریکہ موجود ہے اور وہاں ایک قسم کا ہیڈکوارٹر اور کنٹرول روم بنا ہوا ہے۔ وہیں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کب، کہاں اور کس شدت سے فوجی جارحیت انجام دے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی کابینہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے سیاسی اقدام سے پہلے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کے تمام فیصلوں پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔ تحریر: یحیی دبوق (کالم نگار لبنانی اخبار الاخبار)
 
اگرچہ اسرائیل کی جانب سے تناو کی شدت میں حالیہ اضافہ غزہ میں جنگ بندی متزلزل ہونے کی علامت ہے لیکن متضاد طور پر غزہ کے جنوبی شہر رفح میں فائرنگ کے تبادلے پر مبنی واقعے سے غلط فائدہ اٹھا کر تناو کی شدت میں ایسے کنٹرول شدہ اضافے کی کوشش ہے جو امریکہ کی براہ راست نگرانی میں انجام پا رہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی محض ایک متزلزل جنگ بندی ہی نہیں ہے بلکہ وہ دراصل مدمقابل فریقوں خاص طور پر حماس کی طاقت آزمانے کا ایک میدان ہے تاکہ اسے جنگ کے ان نئے قوانین سے مطابقت دی جا سکے جو امریکہ کی جانب سے وضع کیے گئے ہیں۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا بیان بھی اسی پیرائے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے جنگ بندی کے "تسلسل" پر زور دیتے ہوئے پیشن گوئی کی ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کی ہر قسم کی خلاف ورزی کا جواب دے گا۔
 
امریکی نائب صدر نے اپنے اس بیان کے ذریعے نہ صرف امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اظہار کیا ہے بلکہ ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر بھی بیان کیا ہے جس کے مطابق جنگ کے بعد والا مرحلہ درحقیقت اسرائیل کی سیکورٹی کے حق میں نئے قوانین وضع کرنے کا ایک میدان ہے اور مقصد میدان جنگ میں طاقت کا توازن برقرار کرنا نہیں ہے۔ یہ حکمت عملی واضح طور پر زمینی حقائق میں دکھائی دے رہی ہے۔ آج اسرائیل نے غزہ کے ایسے علاقوں میں بھی اپنی فوجی موجودگی بڑھا دی ہے جہاں سے اسے جنگ بندی معاہدے کی روشنی میں فوجی انخلاء انجام دینا تھا۔ اس اقدام کو امریکہ کی اس سیاسی حمایت پر مبنی چھتری سے علیحدہ کر کے سمجھنا مشکل ہے جو اس نے اسرائیل کے لیے کھول رکھی ہے۔ یوں امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کو جنگ بندی کی "پابندی" کا من گھڑت معنی کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔
 
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کی ہر فوجی سرگرمی کو "جائز دفاع" کا نام دے دیا جاتا ہے چاہے وہ غزہ کی پٹی میں اعلان شدہ حدود کی خلاف ورزی پر ہی کیوں نہ مشتمل ہو۔ ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی حماس نے کی ہے۔ اس کا نتیجہ حماس اور فلسطینیوں پر ایک نابرابر صورتحال مسلط کر دینے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یعنی ایک طرف حماس سے جنگ بندی معاہدے کی ہر شق کی پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیلی فوج کو امریکہ کی کھلی یا ڈھکے چھپے حمایت سے ان شقوں کی اپنی مرضی سے تشریح کرنے کا اختیار دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام سے بھی بچ جائے اور غزہ میں اپنے فوجی آپریشن کی وسعت بھی بڑھاتی چلی جائے۔
 
اس صورتحال سے ایک گہری تبدیلی بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسٹریٹجک فیصلہ کا مرکز تل ابیب سے باہر منتقل ہو جانے پر مبنی ہے۔ بیرونی موثر فوجی نظارت کے باعث اسرائیلی فوج فوجی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود نہ تو حملے اور نہ ہی جوابی کاروائی میں خودمختار نہیں ہے۔ اسرائیل کے جنوب خاص طور پر کریات گات آپریشن روم میں امریکہ موجود ہے اور وہاں ایک قسم کا ہیڈکوارٹر اور کنٹرول روم بنا ہوا ہے۔ وہیں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کب، کہاں اور کس شدت سے فوجی جارحیت انجام دے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی کابینہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے سیاسی اقدام سے پہلے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کے تمام فیصلوں پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔
 
اسرائیل کے حساس اداروں سے عبرانی ذرائع ابلاغ تک لیک ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے سیکورٹی ادارے مختلف قسم کے حربوں سے اپنے فیصلوں میں خودمختاری دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اگرچہ اسرائیل میں امریکی مداخلت پر ناراضگی پائی جاتی ہے لیکن امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ اپنے اہداف کو تل ابیب سے دشمنی نہیں بلکہ اس کے مفادات کے تحفظ کے طور پر پیش کرے۔ امریکہ نے اسرائیل کو یقین دہانی کروا رکھی ہے کہ اس کے تمام فیصلے "ایک ریاست کے طور پر اسرائیل" کے حق میں اور ان میں محض افراد کے مفادات کو مدنظر قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ صورتحال درحقیقت اس بات کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور مدد اور حمایت کے باوجود غزہ کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے۔
 
امریکہ اسرائیل کو اپنی مکمل اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتا بلکہ آخرکار اسے "مشروط" طور پر سیکورٹی امور میں آزادی دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ہم آنے والے دنوں میں بھی اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کریں گے۔ ایسی صورتحال میں حماس نہ صرف مشکل انتخاب سے روبرو ہو گی بلکہ عین ممکن ہے اسے بیرونی دباو کے نتیجے میں حقیقی شراکت داری سے بھی محروم ہونا پڑے۔ یوں رفح میں فائرنگ کا تبادلہ اور اس پر اسرائیل کا ردعمل ایک طے شدہ حکمت عملی کا شاخسانہ تھا جس کا مقصد جنگ کے نئے قوانین مسلط کرنا ہے۔ ایسے قوانین جن کا واضح اعلان نہیں کیا جاتا لیکن میدان جنگ میں لاگو کیے جاتے ہیں۔ ایسا مرحلہ جس کا مستقبل واضح نہیں ہے اور وہ فوجی یا سیاسی راہ حل کے بغیر طول پکڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ ،وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے داخلے پر پابندیاں عائد
  • وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے داخلے پر نئی پابندیاں عائد
  • وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے داخلے پر نئی پابندیاں عائد
  • وائٹ ہاؤس نے صحافیوں کے داخلے پر نئی پابندیاں عائد کردیں
  • میڈیا پابندی شکست کا کھلا اعتراف ہے، روس کا یوکرین پر طنز
  • وفاقی ملازمین کے ہائوس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور
  • سعودی عرب نے عمرہ ویزا پالیسی میں اہم تبدیلی کردی
  • وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی افغان پالیسی لائق تحسین ہے
  • اسرائیلی برتری کی خاطر غزہ میں کنٹرول شدہ تناو پر مبنی امریکی پالیسی