نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر کاکہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں جمہوری آزادیاں میسر ہیں،جب اقتدار سنبھالا تو تباہ حال معاشی و سیاسی نظام ورثے میں ملا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر چوہدری انوارالحق نے کہا ہے کہ اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈے افسوسناک امر ہے، آزادکشمیر رینجرز کے نام سے فورس پہلے ہی موجود ہے، بدقسمتی سے آزادکشمیر میں انسداد دہشتگردی اور امن و امان کے حوالے سے درپیش چیلنجز پر ماضی میں توجہ نہیں دی گئی، "آرمڈ سٹرگل" مغرب کی ٹرم ہے، قرآن کا دوٹوک فیصلہ ہے کہ یہود و ہنود مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے، آج غزہ میں پرامن جدوجہد کا کوئی تصور باقی نہیں بچا، وفاق کی جانب سے بجٹ نہ ملنے کی افواہیں یکسر بے بنیاد ہیں، پچھلے سال 28 ارب بجٹ خرچ کیا، ریکرنگ بجٹ میں بھی ایک پیسا تک لیپس نہیں ہوا، حکومت آزاد کشمیر نے کمیونیکیشن اینڈ روڈ سیکٹر میں 22 ارب کے اخراجات کیے ہیں، میں آئین آزاد کشمیر کے تحت تفویض امور کا ذمہ دار ہوں، مقبوضہ کشمیر میں بھی عوامی ایکشن کمیٹی بنی، ایک ہفتہ کے اندر بھارتی دہشتگرد فوج نے ایکشن کمیٹیز بنانے والوں کو غائب کر دیا۔

انھوں نے کہا آزاد کشمیر میں جمہوری آزادیاں میسر ہیں،جب اقتدار سنبھالا تو تباہ حال معاشی و سیاسی نظام ورثے میں ملا، سستا آٹا اور بجلی پر سبسڈی سے 71 ارب کے خسارے کے باوجود ماضی کے پینڈنگ 10 ارب کے ڈویلپمنٹ لائبیلٹئز بلات کی ادائیگی کی گئی، 71 ارب کے مالی خسارے کے باوجود تعمیر و ترقی، امن و امان اور انتظامی سفر بھی برق رفتاری سے جاری ہے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔

وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں کے وزریراعظم ایک جماعتی حکومت کے سربراہ تھے، میری حکومت غیرفطری سیاسی اتحاد پر قائم ہے، اقتدار اگر ایسے شخص کے ہاتھ میں آ جائے جو معاملات کو سمجھتا نہ ہو تو انفرسٹرکچر اور سسٹم کی تباہی کو درست کرنا آسان نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا پونے دوسال قانون ساز اسمبلی کا اسپیکر رہا، اس دوران مثالی فائنانشل ڈسپلن اور انتظامی ڈسپلن قائم کیا۔ انہوں نے کہا کہ سستی بجلی اور آٹا پر سبسڈی کا سلوگن پرکشش’تھا، المیہ یہ ہے کہ ہم فیصلہ سازی میں تاخیر کرتے ہیں، میں نے سینٹ آف پاکستان کی فائنانشل سٹینڈنگ کمیٹی میں اس سبسڈی پر آواز بلند کی، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو گندم پاسکو فراہم کرتا ہے، آٹا اور بجلی وفاقی حکومت کے سبجیکٹس ہیں، یہ مانتا ہوں کہ کچھ فیصلوں میں تاخیر ہوئی جس کی قیمت بھی ادا کی گئی ہے۔

وزیراعطم آزاد کشمیر نے کہا سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں فیک اکاؤنٹس بیرون ممالک سے آپریٹ ہو رہے ہیں، ان فیک اکاؤنٹس کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی‘‘را’’ہے، تحریک آزادی کشمیر پر سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کو بین الاقوامی دنیا میں اجاگر کرنے کی ذمہ داری دفتر خارجہ پاکستان بھرپور انداز میں نبھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آزاد کشمیر میں "حربی قوت" کو واپس لانا ہو گا،جہاد نہ ماضی میں روکا اور نہ ہی انشاء اللہ رکے گا، آزادکشمیر دراصل آزادی کا بیس کیمپ ہے اس کی پہلی ترجیح تحریک آزادی کشمیر ہے، اس کے لیے "حربی طاقت" کو بروئے کار لانا ہو گا، اب مٹی کا قرض اتارنے کا وقت آ گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مسلم ممالک میں جہاں افواج کمزور ہوئیں ان ممالک کا کیا حشر ہوا آج پرامن جدوجہد کے باوجود فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، جہاد اٹل حقیقت ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کو "حربی قوت" کی بدولت ہی آزاد کروایا جا سکتا ہے، جو فضاء پاکستان بھر میں بنتی ہے اس کے اثرات آزادکشمیر میں بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا حکومتوں کا فرض عام شہری کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا ہے، رینجر فورس کی تشکیل اور اس سے متعلقہ امور پر کام ہونا ہے، آرڈیننس کے معاملہ پر احتجاج ہوا، حکومت نے جمہوری ردعمل دیتے ہوئے آرڈیننس واپس لے لیا، مقبوضہ کشمیر کی حالت ابتر ہے، آزادکشمیر سے مقبوضہ کشمیر کا کوئی موازنہ نہیں، رینجر فورس ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں پر مشتمل ہے، موجودہ رینجر فورس اسی فورس کی توسعی کا منصوبہ ہے، اس فورس کا مقصد سٹریٹیجک انسٹالیشن کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے، بدقسمتی سے ہمارے پاس ریزرو فورس نہیں ہے ہمیں امن و امان کے لیے اکثر و بیشتر پنجاب پولیس یا ایف سی سے مدد لینی پڑتی ہے، رینجر فورس میں ایک ہزار سٹیٹ سبجیکٹس بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس کا سٹرکچر بھی پہلے سے موجود ہے، منفی پروپیگنڈے کے ذریعے مملکت خداداد پاکستان اور کشمیر کے رشتے کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، ایسی سازشوں کو آئینی ہاتھوں سے ناکام بنائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا اختلاف رائے سیاست کا حسن ہے، آزاد کشمیر میں تین جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل حکومت قائم ہے، اتحاد میں 9 مئی کے بعد کا کوئی رکن شامل نہیں، سیاست میں عوام کا فیصلہ مقدم ہوتا ہے، ہم نے درست کیا یا غلط اس کا فیصلہ عوام آئندہ انتخاب میں کریں گے، الحمداللہ میں نے آزادکشمیر کے ہر آئینی عہدے پر کام کیا ہے، آزادکشمیر کا واحد سیاسی کارکن بھی ہوں جو بلامقابلہ وزیراعظم بھی منتخب ہوا، اب ایسا کوئی آئینی عہدہ نہیں جس کی خواہش ہو، متعدد بار کہہ چکا ہوں کہ مافیاز پر ہاتھ ڈالنے کی وجہ سے قیمت بھی ادا کی، پھر کہتا ہوں 27 اراکین اسمبلی چائے کے کپ پر فیصلہ سنائیں، میں گھر چلا جاؤں گا، کوئی لالچ نہیں، جب تک مالک چائے گا میرے قلم کا اختیار بحال رہے گا اور میں مخلوق خدا کی خدمت کرتا رہوں گا،

انھوں نے کہا آزادکشمیر میں وزرات عظمیٰ کا کلب سٹاک ایکسچینج بن چکا تھا، اس میں سرمایہ دارانہ فطرت سرائیت کر گئی تھی، اس فرسودہ نظام کا خاتمہ کیا، اتحاد کو چلانے میں کابینہ کا بڑا عمل دخل ہے، مستقبل میں واضح ہو گا کہ میرے فیصلے ثمر آور تھے یا غلط ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ جمہوری عمل میں تسلسل اور اس کے دیرپا اثرات کے حوالے سے فکری بنیادوں پر کام جاری رہے تو تب ہی بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں، 1985ء اور 1987ء میں انتخابی عمل کے خلاف تحریک اور آج کی آزادکشمیر میں جاری تحریکوں کا کوئی موازنہ نہیں ہے، کیونکہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا، وہ بہت بڑی تحریکیں تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ آخری کوارٹر کا پیسا پہلے فراہم کر دیا گیا، تیسرے کوارٹر تک 100 فیصد بجٹ خرچ ہو چکا، 71 ارب کا خسارہ بھی برداشت کیا، غیر ترقیاتی اخراجات کم کیے اور آمدن میں اضافہ بھی کیا۔

انہوں نے کہاُکہ یہاں این جی یوز اپنا کام کرتی ہیں اور حکومتیں اپنا کام کرتی ہیں، اگر کوئی صاحب ثروت اپنے گلی محلے میں کوئی کام کروا لے تو اچھی بات ہے اسے سرہانا چاہے، حکومت آزاد کشمیر نے کمیونیکیشن اینڈ روڈ سیکٹر میں 22 ارب کے اخراجات کیے ہیں، اگر آپ اس کی "فیزیکل ویری فیکیشن" دیکھنا چاہیں تو ہم آپ کو اس ضمن میں تاؤ بٹ سے لے کر چھمب تک کا وزٹ کروا سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: وزیراعظم نے کہا انھوں نے کہا رینجر فورس نے کہا کہ کا کوئی ارب کے

پڑھیں:

بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی

کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟

انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔

فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن

سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن

متعلقہ مضامین

  • عالمی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرائیں, ڈی ایف پی
  • مٹھی بھر دہشت گرد بلوچستان کی ترقی کا راستہ نہیں روک سکتے: ترجمان پاک فوج
  • لارڈ قربان حسین کی کشمیر میں بھارتی مظالم، سندھ طاس معاہدہ معطلی اور بھارتی جارحیت پر کڑی تنقید
  • کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور رہےگا:  ڈی جی آئی ایس پی آر
  • موٹروے ایم-5 پر بس حادثہ، ایک مسافر جاں بحق، کتنے زخمی ہوگئے ،انتہائی افسوسناک خبر آگئی
  • 2024 سے اب تک زیادہ شکستوں کا منفی ریکارڈ پاکستان کے نام جڑ گیا
  • جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، عثمان جدون
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
  • اقوام متحدہ میں پاکستان نے بھارتی جارحیت، کشمیر پر قبضے اور آبی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کردیا
  • لڑکا اورلڑکی غیرت کے نام پرقتل ،بلوچستان سے ایک اورانتہائی افسوسناک خبر آگئی