وقف املاک پر ذاتی ملکیت کے دعوؤں میں نمایاں اضافہ تشویشناک ہے، درخشاں اندرابی
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
کشمیر وقف بورڈ کی چیئرپرسن نے کہا کہ وقف بورڈ کا بنیادی مقصد نہ صرف ان املاک کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے بلکہ انکے انتظام و انصرام میں شفافیت لانا اور انکی آمدنی کو دینی و فلاحی مقاصد کیلئے استعمال کرنا بھی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیر وقف بورڈ کی چیئرپرسن ڈاکٹر درخشاں اندرابی نے کہا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں، بالخصوص وادی کشمیر میں درگاہوں اور وقف املاک پر ذاتی ملکیت کے دعووں میں نمایاں اضافہ ایک نہایت تشویشناک رجحان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی مقدس جگہوں کو ذاتی مفاد کے تحت دیکھنا اور ان پر قبضے کے دعوے کرنا نہ صرف قانونی طور پر غلط ہے بلکہ روحانی لحاظ سے بھی قابلِ افسوس ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ درگاہیں، مزارات اور دیگر وقف سے متعلق اثاثے کسی فرد، خاندان یا طبقے کی ملکیت نہیں ہیں بلکہ یہ دین اسلام سے وابستہ وہ مقامات ہیں جو پوری امتِ مسلمہ کی اجتماعی میراث سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا صحیح مقام تب ہی برقرار رہ سکتا ہے جب یہ مکمل طور پر وقف بورڈ یا ایسے ذمہ دار اداروں کے زیرِ انتظام ہوں جو شفافیت، ایمانداری اور خلوصِ نیت کے ساتھ ان کی دیکھ بھال کریں۔
ڈاکٹر درخشاں اندرابی نے یہ اہم بیان ضلع اننت ناگ کے علاقے عشمقَام کے اپنے دورے کے دوران دیا، جہاں وہ مقامی درگاہ پر حاضری دینے پہنچی تھیں، جہاں پر آج نمازِ پنجگانہ کے بعد "روایتی چراغاں" کا بھی خصوصی اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں مقامی عقیدت مندوں کی بڑی تعداد شامل ہونگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر وقف بورڈ کا بنیادی مقصد نہ صرف ان املاک کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے بلکہ ان کے انتظام و انصرام میں شفافیت لانا اور ان کی آمدنی کو دینی و فلاحی مقاصد کے لئے استعمال کرنا بھی ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ وقف املاک کو ذاتی جائیداد نہ سمجھیں بلکہ ان کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
امریکی عدالت نے حکومتی محکمے کو ذاتی معلومات تک رسائی دیدی
امریکی سپریم کورٹ نے حکومتی کارکردگی کے محکمے کو امریکیوں کی ذاتی معلومات تک رسائی کی اجازت دے دی۔
محکمہ انصاف کی درخواست پر عدالت نے میری لینڈ ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے پر عملدرآمد روک دیا۔
میری لینڈ ڈسٹرکٹ جج نے ڈوج (DOGE) کو شہریوں کی ذاتی معلومات تک رسائی سے روک دیا تھا۔
میری لینڈ ڈسٹرکٹ جج نے شہریوں کی ذاتی معلومات تک رسائی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔