پی ایس ایل 10: لاہور قلندرز کے آصف آفریدی نے منفرد ریکارڈ پر نظریں جما لیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
پاکستان سپر لیگ کی ٹیم لاہور قلندرز کے کھلاڑی آصف آفریدی کا کہنا ہے کہ میرا ہدف اوروں سے کافی مختلف ہے اور وہ یہ ہے کہ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ ڈاٹ بال میری ہوں۔آصف آفریدی نے کہا کہ میری یہ بھی خواہش ہے کہ میری بولنگ پر سب سے کم باؤنڈریز لگیں۔آصف آفریدی نے کہا کہ آنکھ کی انجری کی وجہ سے اب بھی درد میں ہوتا ہوں مگر ٹیم کے لیے کھیل رہا ہوں مگر کھیل کے شوق اور جنوں کے سامنے یہ درد کچھ بھی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کنگز کے خلاف بھی اچھا کھیل کر اس کو ٹف ٹائم دیں گے اور پچھلا میچ جیت کر ہم نے مومینٹم حاصل کرلیا ہے۔ ٹی ٹو ئنٹی میں بال بائی بال سوچتا اور ہمیشہ کوشش ہوتی کہ ڈاٹ بال کراؤں اور جب ایک ایک بال کا سوچتے ہیں تو یہ چیز بولر کو زیادہ مدد دیتی ہے۔آصف آفریدی نے کہا کہ آج کل کی کرکٹ میں بولرز کے لیے کافی مشکل ہوتی ہے، میں پورے میچ کی پلاننگ کی بجائے ہر بال کے حساب سے سوچتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ جب میچ شروع ہوتا ہے تو سب کچھ بھول کر کھیل پر فوکس ہو جایا ہے اور کوشش ہوگی کہ اپنے تجربے سے اپنی ٹیم کو فتح دلا سکوں۔38 سالہ کرکٹر نے کہا کہ میں وہ عمر کا نہیں سوچتا ، پلیئر کی عمر اس وقت مسئلہ ہوتی ہے جب اس سے گراؤنڈ میں ایفرٹ نہ ہو لیکن اگر ایک پلیئر گراؤنڈ میں پوری ایفرٹ کررہا ہوتا ہے تو عمر کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔آصف آفریدی نے کہا کہ لاہور قلندرز کے بارے میں جیسا سننا تھا ویسا ہی ہے ، یہاں سب فیملی کی طرح ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان سپر لیگ میں آج لاہور قلندر ز اور کراچی کنگز کے درمیان میچ نیشنل اسٹیڈیم میں رات 8 بجے کھیلا جائے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ا صف ا فریدی نے کہا کہ
پڑھیں:
آئی ایم ایف کا پاکستان کے بجٹ سازی پر اثر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ایک عالمی ادارہ ہے جو مختلف ممالک کو مالی معاونت، قرضے، اور معاشی اصلاحات کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف کے پروگراموں کا حصہ رہا ہے۔ جب بھی ملک کو مالی بحران یا زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا ہوتا ہے، پاکستان آئی ایم ایف سے رجوع کرتا ہے۔ مگر اس مالی معاونت کے ساتھ کچھ سخت شرائط بھی منسلک ہوتی ہیں، جو پاکستان کی بجٹ سازی کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔
آئی ایم ایف کا بنیادی مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت اپنے مالی خسارے کو کم کرے، ٹیکس آمدن میں اضافہ کرے اور غیر ضروری سبسڈیز ختم کرے۔ ان شرائط کی وجہ سے حکومت کو اکثر عوامی فلاح کے منصوبے محدود کرنے پڑتے ہیں یا مہنگائی میں اضافے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، بجلی، گیس اور پیٹرول پر دی جانے والی سبسڈیز کم یا ختم کرنا پڑتی ہیں، جس کا بوجھ براہ راست عام آدمی پر پڑتا ہے۔ یہ اقدام اگرچہ معاشی استحکام کے لیے ضروری قرار دیے جاتے ہیں، لیکن ان کے فوری اثرات عوام کی زندگیوں پر منفی پڑتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی ہدایات کے تحت حکومت کو ٹیکس نظام میں اصلاحات کرنا پڑتی ہیں۔ اس میں نئے ٹیکس لگانا، موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا شامل ہوتا ہے۔ یہ اصلاحات اکثر غیر مقبول ہوتی ہیں، لیکن ان پر عمل کرنا حکومت کی مجبوری بن جاتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی مالی معاونت جاری رکھنے کے لیے ان شرائط کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کا عمل دخل اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اکثر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کا بجٹ دراصل اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں بنتا ہے۔ وزارت خزانہ کو بجٹ سے پہلے اور بعد میں آئی ایم ایف سے مشاورت کرنی پڑتی ہے، اور بعض اوقات تو اہم فیصلے بھی انہی کی منظوری سے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال ملکی خودمختاری پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔
اگرچہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا مقصد معیشت کو مستحکم بنانا ہوتا ہے، لیکن ان کا اطلاق ایک کمزور معیشت پر سخت اثر ڈالتا ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں، ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں، اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور سیاسی حلقوں میں آئی ایم ایف کے کردار پر تنقید کی جاتی ہے۔
نتیجتاً، آئی ایم ایف پاکستان کے بجٹ سازی میں ایک طاقتور فریق بن چکا ہے۔ جب تک پاکستان اپنی اندرونی آمدن میں اضافہ نہیں کرتا، مالیاتی خسارے پر قابو نہیں پاتا، اور قرضوں پر انحصار کم نہیں کرتا، تب تک آئی ایم ایف کی شرائط اور اثرات بجٹ پر غالب رہیں گے۔ ملکی معیشت کو مستحکم اور خودمختار بنانے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی اور خود انحصاری کی پالیسی اپنانا ناگزیر ہو چکی ہے۔