بھارتی سپریم کورٹ نے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کے خلاف درخواست مسترد کر دی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے ریاست مہاراشٹر میں میونسپل کونسل کے نام والے بورڈ پر اردو کے استعمال کو چیلنج کرنے والی درخواست مسترد کر دی۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ زبان مذہب نہیں ہے اور اردو کو مسلمانوں کی زبان ماننا قابلِ افسوس ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ زبان مذہب کی نمائندگی بھی نہیں کرتی، زبان کا تعلق برادری، علاقے اور لوگوں سے ہے نا کہ کسی مذہب سے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن نے مہاراشٹر کے سابق علاقائی کونسلر کی درخواست پر سماعت کی۔

خاتون کی جانب سے میونسپل کونسل کے نام والے بورڈ پر مراٹھی کے ساتھ اردو کے استعمال کو چیلنج کیا گیا تھا۔

خاتون نے مؤقف اپنایا تھا کہ میونسپل کونسل کا نام صرف مراٹھی میں ہو سکتا ہے اور اردو کا استعمال جائز نہیں یہاں تک کہ سائن بورڈ پر بھی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اس سے قبل خاتون کو اس حوالے سے ممبئی ہائی کورٹ سے بھی کوئی ریلیف نہیں ملا تھا جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جہاں سے بھی ان کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ

پڑھیں:

ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد:

صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔

سپریم کورٹ میں  9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی،  جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔

وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین  نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔

صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔  بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ بار کا بھارتی سفارتکاروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دینے کا مطالبہ
  • بھارتی سفارتکاروں کو 48 گھنٹےمیں ملک چھوڑنے کا حکم دیاجائے: سپریم کورٹ بار کا مطالبہ
  • عمران خان کا جسمانی ریمانڈ ، پنجاب حکومت کی درخواستیں مسترد
  • سپریم کورٹ بار کا بھارتی سفارتکاروں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ
  • تمام بھارتی سفارتی عملے کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر ملک بدر کیا جائے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
  • سپریم کورٹ بار کا تمام بھارتی سفارتکاروں کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا مطالبہ
  • سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کردیا
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ