سپریم کورٹ نے عمران خان سے ملاقات کرانے کیلئے تحریری حکم نامہ جاری کرنے کی استدعا مستردکردی
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ پاکستان بانی پی ٹی آئی عمران سے ملاقات کرانے کے لیے تحریری حکم نامہ جاری کرنے کی ان کے وکیل کی استدعا مسترد کردی۔
9 مئی کیسز میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ریمانڈ سے متعلق اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا پولی گرافکس اور وائس میچنگ ٹیسٹ ہونا باقی ہے، جسمانی ریمانڈ صرف دو ٹیسٹ کےلیے درکار ہیں، بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں ایسی بات نہ کریں، زوالفقار نقوی نے کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ میرے موکل پر 300 سے زائد کیسز ہیں، غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے، بانی پی ٹی آئی سے ہدایات لینے کیلئے سپریم کورٹ خصوصی ہدایات جاری کرے، سپریم کورٹ کی خصوصی ہدایات ہوں تو میری ملاقات بانی پی ٹی آئی سے ہو جائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ نے جب بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کیلئے جانا ہے چلے جائیں، ہم کوئی حکمنامہ جاری نہیں کریں گے، آپ بغیر عدالتی حکمنامے ملاقات کریں، ملاقات ہو جائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بغیر حکمنامے کے ملاقات کرا کر دکھائیں،عدالت نے سلمان صفدر کو اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی سے ملاقات کرکے ہدایات لینے کیلئے وقت فراہم کردیا اور کیس کی سماعت 23 اپریل تک ملتوی کردی۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چیف جسٹس پاکستان بانی پی ٹی آئی سپریم کورٹ سے ملاقات
پڑھیں:
پشاور‘ سپریم کورٹ پولیس کے زیر استعمال مال مقدمہ گاڑیوں پر برہم، تفصیلات طلب
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جون2025ء) سپریم کورٹ پشاور رجسٹری نے پولیس کے زیر استعمال مال مقدمہ گاڑیوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے تفصیلات طلب کر لیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان پشاور رجسٹری میں پولیس کے پاس موجود مال مقدمہ گاڑیوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کی، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا سمیت متعلقہ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے گزشتہ سماعت پر صوبائی حکومت سے ان گاڑیوں کی تفصیلات طلب کی تھیں جو پولیس کے زیر استعمال ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ یہ لسٹ کس قسم کی گاڑیوں کی ہی کیا یہ وہ گاڑیاں ہیں جو ویئرہاؤس میں کھڑی ہیں یا جو زیرِ استعمال ہیں ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ایک ہزار 119 گاڑیاں ویئرہاؤس میں کھڑی ہیں جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ چھوڑیں، وہ گاڑیوں کی تفصیل دیں جو پولیس افسران کے زیرِ استعمال ہیں، کچھ ریٹائر ہونے کے بعد بھی سرکاری گاڑیاں چلاتے ہیں اور کالی شیشوں والی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔(جاری ہے)
عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل کو معلوم ہی نہیں کہ اس وقت کتنی گاڑیاں استعمال ہو رہی ہیں، جسٹس ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے ناک کے نیچے سب ہو رہا ہے اور آپ لاعلم ہیں، یہ بہت عجیب بات ہے۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ یہ گاڑیاں تو نیلام کی جاتی ہیں لیکن بانٹ دی گئی ہیں، موجودہ ایس ایچ او ذمہ دار ہے کہ گاڑیاں کہاں اور کس کے پاس ہیں ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ایس ایچ او بہت کمزور بندہ ہوتا ہے، اعلیٰ افسر جب حکم دیتا ہے تو وہ اسے مانتا ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ایس ایچ او اتنا بھی کمزور نہیں ہوتا جتنا آپ کہتے ہیں، ایس ایچ او اپنے اعلیٰ افسران کے غیر قانونی حکم ماننے کا پابند نہیں ہے۔ایڈووکیٹ جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ 34 تھانوں سے مکمل رپورٹ مانگ کر ڈیٹا اکٹھا کرنا ممکن ہوگا، عدالت نے ہدایت دی کہ جولائی کی اگلی سماعت تک صوبے بھر کے تھانوں میں موجود گاڑیوں کی مکمل تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ اندھوں کا قانون اب نہیں چلے گا، ایس ایچ او کو خان جی کہا جاتا ہے، اب دیکھتے ہیں خان جی کیا ہوتا ہے، پولیس عوام کو تحفظ دینے کے بجائے خوف کی علامت بن گئی ہے جو کہ افسوسناک ہے۔