یوٹیوبر بیوی نے آشناکے ساتھ شرمناک حالت میں پکڑے جانے کے بعد شوہر کے ساتھ کیا کیا؟ افسوسناک انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
ممبئی (نیوز ڈیسک )ہریانہ کے علاقے بھیوانی میں ایک خاتون نے مبینہ طور پر اپنے عاشق کی مدد سے اپنے شوہر کو قتل کر دیا اور انہیں قابل اعتراض کی حالت میں پکڑنے کے بعد اس کی لاش کو نالے میں پھینک دیا۔
بھارتی میڈیارپورٹ کے مطابق، یہ واقعہ مارچ میں پیش آیا تھا۔ ملزم خاتون کی شناخت روینہ کے طور پر ہوئی تھی، جو سوشل میڈیا انفلوئنسر تھی جبکہ متوفی کی شناخت پراوین کے طور پر ہوئی ہے۔ایوینا اور پراوین کی شادی 2017 میں ہوئی تھی اور ان کا ایک چھ سال کا بیٹا ہے۔
روینہ نے تقریباً دو سال پہلے سریش نامی ایک شخص سے دوستی کی، جو اپنے یوٹیوب اکاؤنٹ کے لیے ویڈیوز بھی بناتا تھا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روینہ کے شوہراوراس کے خاندان کے اس پر اعتراض کے باوجود جلد ہی دونوں نے ایک ساتھ ویڈیو بنانا شروع کر دیا۔25 مارچ کو، جیسے ہی پراوین شام کو گھر واپس آیا، اس نے اپنی بیوی اور سریش کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا، جس کی وجہ سے جوڑے کے درمیان جھگڑا ہوا۔
بعد میں اسی رات روینہ اور سریش نے اس کا دوپٹہ سے گلا دبا کر اسے قتل کردیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق، جب گھر والوں نے پراوین کے ٹھکانے کے بارے میں دریافت کیا، تو اس نے نہ جانے کا بہانہ کیا۔
اس کے بعد وہ دونوں پراوین کی لاش کو ایک دو پہیہ گاڑی پر لے گئے اور اسے شہر کے باہر ایک نالے میں پھینک دیا۔اس کی لاش تین دن بعد، بوسیدہ حالت میں ملی، جب اس کے اہل خانہ نے پولیس میں گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔
سوشل میڈیا پر ایک مبینہ ویڈیو میں روینہ اور سریش کو پراوین کی لاش کو موٹر سائیکل پر لے جاتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، کیس کی تحقیقات شروع کی گئی،روینہ اور سریش دونوں کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ خاتون اور پراوین کا چھ سالہ بیٹا اب اپنے دادا سبھاش اور چچا سندیپ کے ساتھ رہ رہا ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حالت میں اور سریش کی لاش
پڑھیں:
یورپی اداروں کے اہلکاروں کا حساس موبائل ڈیٹا فروخت کیے جانے کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یورپ کے متعدد میڈیا اداروں کی مشترکہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بیلجیئم میں لاکھوں شہریوں اور حساس اداروں کے ملازمین کے موبائل فونز کی لوکیشن اور ڈیٹا خفیہ طور پر جمع کرکے فروخت کیا جارہا ہے، اس ڈیٹا میں یورپی یونین کے اداروں، نیٹو ہیڈکوارٹرز اور فوجی اڈوں کے ملازمین کے فونز بھی شامل ہیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق فرانسیسی اخبار Le Monde، بیلجیئن جریدے L’Echo، جرمن نشریاتی اداروں BR اور ARD، ویب سائٹ Netzpolitik.org اور BNR Nieuwsradio کی رپورٹ کے مطابق مختلف موبائل ایپلی کیشنز صارفین کی اجازت کے بغیر ان کا مقام (location data) اکٹھا کرتی ہیں، جسے بعد میں ڈیٹا بروکرز مارکیٹنگ اور دیگر مقاصد کے لیے فروخت کرتے ہیں حالانکہ ان معلومات کو باضابطہ طور پر گمنام یا anonymous قرار دیا جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ ڈیٹا افراد کی نقل و حرکت کو انتہائی درست انداز میں ظاہر کرتا ہے، جن سے ان کے گھروں، دفاتر اور معمول کے مقامات کی نشاندہی ممکن ہوجاتی ہے۔ اس عمل سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو حساس یا دفاعی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ موبائل سگنلز ناتو ہیڈکوارٹرز (Brussels)، SHAPE (Supreme Headquarters Allied Powers Europe – Mons)، بیلجیئن جوہری بجلی گھروں Doel اور Tihange، اور فوجی اڈوں Kleine-Brogel سمیت متعدد حساس مقامات پر پائے گئے جہاں امریکی جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
ایک نیٹو ترجمان نے تسلیم کیا کہ تھرڈ پارٹی ڈیٹا کلیکشن کے خطرات سے آگاہ ہیں اور ان خطرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں، صرف نیٹو مقامات پر ہی ایک ہزار سے زائد موبائل فونز کی موجودگی ریکارڈ کی گئی۔
بیلجیئن وزارت دفاع نے وضاحت کی کہ تمام حساس علاقوں میں موبائل فون کا استعمال ممنوع ہے، جبکہ نیوکلیئر پلانٹس کے آپریٹر Engie نے کہا کہ جوہری تنصیبات کے اندر صرف پیشہ ورانہ مقاصد کے لیے ہی ڈیوائسز استعمال کی جاسکتی ہیں۔
تحقیقی ٹیم نے یہ ڈیٹا اُن بروکرز سے خریدا جو مختلف ایپس سے معلومات اکٹھی کرکے فروخت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق صرف بیلجیئم سے متعلق لوکیشن ڈیٹا سالانہ 24 ہزار سے 60 ہزار ڈالر میں دستیاب ہے، جو روزانہ سات لاکھ موبائلز کی نگرانی پر مشتمل ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر گمنام دکھایا جانے والا ڈیٹا بھی آسانی سے de-anonymize کیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی شخص کے گھر اور دفتر جیسے صرف دو مقامات جان لینے سے اس کی 95 فیصد درست شناخت ممکن ہے۔
یورپی کمیشن نے اس انکشاف کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ نجی ڈیٹا کی اس غیر قانونی تجارت پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔