چین اور ملائیشیا کے درمیان روایتی دوستی ہزاروں سال پر محیط ہے، چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
چین اور ملائیشیا کے درمیان روایتی دوستی ہزاروں سال پر محیط ہے، چینی صدر
بیجنگ () چینی صدر شی جن پھنگ اور ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے کوالالمپور میں وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کی ۔بدھ کے روز
وزیراعظم ہاؤس پہنچنے پر انور ابراہیم نے صدر شی جن پھنگ کا پرتپاک استقبال کیا۔
ملاقات کے موقع پر شی جن پھنگ نے کہا کہ چین اور ملائیشیا کے درمیان روایتی دوستی ہزاروں سال پر محیط ہے۔ گزشتہ سال فریقین نے سفارتی تعلقات کے قیام کی 50 ویں سالگرہ منائی تھی۔ گزشتہ 50 سالوں میں چین اور ملائیشیا کے تعلقات کے ٹھوس نتائج برآمد ہوئے ہیں اور دونوں فریقوں کو اگلے 50 سالوں میں اعلی سطحی اسٹریٹجک چین ملائیشیا ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کرنی چاہیے، دونوں ممالک کے عوام کے لیے مزید فوائد پیدا کرنے چاہئیں اور علاقائی خوشحالی اور استحکام کے لیے زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
شی جن پھنگ نے اعلی سطحی اسٹریٹجک چین ملائیشیا ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے بارے میں تین تجاویز پیش کیں۔ سب سے پہلے، اسٹریٹجک خودمختاری پر عمل کریں اور اعلی سطحی اسٹریٹجک کوآرڈینیشن کریں.
شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ چین آسیان کے چیئرمین ملک کی حیثیت سے ملائیشیا کے کردار کی حمایت کرتا ہے، اور چین-آسیان آزاد تجارتی زون کو اپ گریڈ کرنے کے پروٹوکول پر جلد از جلد دستخط کرنے کے لئے علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے، تاکہ کھلے پن، شمولیت، یکجہتی اور تعاون کے ذریعے ” ڈی کپلنگ ” ، “چھوٹے صحن اور اونچی دیواروں” اور اندھا دھند محصولات کی مزاحمت کی جاسکے۔
انور ابراہیم نے صدر شی جن پھنگ کے دورہ ملائیشیا کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور کہا کہ چین نے طویل عرصے سے خلوص نیت سے ملائیشیا کی مدد کی ہے اور وہ ملائیشیا کا قابل اعتماد دوست ہے۔ ملائیشیا ایک چین کی پالیسی پر سختی سے کاربند ہے اور کسی بھی طرح کی “تائیوان کی علیحدگی ” کی حمایت نہیں کرتا۔
مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے رہنماؤں نے چین اور ملائیشیا کے درمیان 30 سے زائد دوطرفہ تعاون کی دستاویزات کے تبادلے کا مشاہدہ کیا۔ دونوں فریقوں نے اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک چین ملائیشیا ہم نصیب معاشرے کی تعمیر پر چین اور ملائیشیا کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔
ملاقات کے بعد وزیر اعظم انور ابراہیم نے صدر شی جن پھنگ کے لیے عشائیے کا اہتمام کیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چین اور ملائیشیا کے درمیان انور ابراہیم نے صدر شی جن پھنگ سطحی اسٹریٹجک
پڑھیں:
جنوبی ایشیا میں تنازعات کسی بھی وقت خطرناک ہو سکتے ہیں، جنرل ساحر شمشاد مرزا
SINGAPORE:چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کئی غیر حل شدہ تنازعات اب بھی متحرک ہیں جو کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے یہ بات سنگاپور میں جاری شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران ایک اہم خطاب میں کہی۔
جنرل ساحر شمشاد نے کہا کہ ایشیا پیسیفک اب اکیسویں صدی کا جیوپولیٹیکل کاک پٹ بن چکا ہے، جہاں اسٹریٹیجک کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خطے میں بحرانوں سے نمٹنے کے ادارہ جاتی نظام نہ صرف نازک ہیں بلکہ غیر مساوی بھی ہیں، جس کی وجہ سے تنازعات کی شدت کم کرنے کے لیے مؤثر مکالمہ اور تعاون کا فقدان ہے۔
انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا کو ایشیا پیسیفک کی استحکام سے متعلق مکالمے سے الگ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہاں تنازع کشمیر سمیت کئی بنیادی مسائل حل طلب ہیں۔
جنرل ساحر کا کہنا تھا کہ ایسے فعال تنازعات کسی بھی وقت بھڑک سکتے ہیں، جن سے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
خطاب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس نے کہا کہ پائیدار کرائسس مینجمنٹ کے لیے باہمی برداشت، واضح ریڈ لائنز اور مساوی رویہ ناگزیر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک فریقین کو برابری کا درجہ نہیں دیا جاتا، کوئی بھی اسٹریٹجک فریم ورک مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ایڈہاک اقدامات ناکافی ہیں۔ خطے کو ایسے ادارہ جاتی پروٹوکولز، فعال ہاٹ لائنز، کشیدگی میں کمی کے لیے طے شدہ طریقہ کار، اور مشترکہ کرائسس مینجمنٹ مشقوں کی ضرورت ہے۔
جنرل ساحر نے زور دیا کہ مصنوعی ذہانت، سائبر حملے اور رئیل ٹائم بیٹل فیلڈ سرویلنس جیسے جدید حربے اسٹریٹجک فیصلوں پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، اس لیے کرائسس مینجمنٹ میکنزم میں ان جدید حقیقتوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔
خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر طاقت اور مفادات اب اخلاقیات، اصولوں، ریاستی خودمختاری، علاقائی سالمیت، انسانی حقوق اور انصاف جیسے اقدار سے بالاتر ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نظریاتی یا علاقائی اختلافات کو دبانے سے نہیں، بلکہ پُراعتماد مکالمے اور مؤثر اسٹریٹجک کمیونیکیشن سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ غلط فہمیاں اور گمراہ کن معلومات کشیدگی کو ہوا دیتی ہیں، اس لیے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کو بہتر بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔