پٹرولیم مصنوعات پرغیر دانشمندانہ فیصلہ ،عوام نالاں ،معاشی ماہرین برس پڑے
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کاریلیف عوام کو منتقل کرنے کی بجائے بلوچستان کی بڑی شاہراہ این 25 کی تعمیر کے لئے رقم استعمال کرنے کافیصلہ اصولی طور پرغلط ہے اور پی ایس ڈی پی کس مرض کی دوا ہے؟اس میں سے بلوچستان کا احساس محرومی دورکرنے اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈزکیوں نہیں دیئے گئے،کیااس کاکوئی حساب دینے والاہے؟پھرقوم کو کوئی بتائے گاکہ اب تک این ایف سی ایوارڈ کا کتناپیسہ بلوچستان کو دیاگیااوروہاں کے نواب،سردارکتناپیسہ دبئی اور ملائشیالے کرگئے؟اس کاکسی نے پتہ چلانے کی کوشش کی ،ایک عام موٹرسائیکل اور چھوٹی گاڑی والے کاکیاقصورہے کہ اسے عالمی سطح پرقیمتوں میں کمی کا ریلیف نہ ملے ،جب مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کو منانے کے لئے پٹرول کی قیمتوں میں ایک موقع پر 30سے50روپے تک فی لٹراضافہ کیاتھاتووہ عوام نے ہی برداشت کیاتھاوزیراعظم شہبازشریف اکثریہ کہتے ہیں کہ اب براوقت ختم ہوگیاہے،مشکلات سہہ لی ہیں اب ریلیف وقت آگیاہے لیکن عملاًکچھ نہیں کیاجاتا،کبھی بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لئے پٹرول میں ریلیف دینے سے انکارکیاجاتاہے تو کبھی بلوچستان کی تعمیروترقی کے لئے ریلیف نہیں دیاجاتا،عوامی حلقوں میں گزشتہ رات کے وزیراعظم کے اعلان کو عوامی حلقوں کی طرف سے ناپسندیدہ قراردیاجارہاہے،یہ دلیل قابل قبول نہیں کہ اگرپٹرول کی قیمتیں کم ہوجاتیں کہ کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ کم نہیں ہونے تھے کیونکہ مڈل مین فائدہ اٹھالیتاہے،اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کی شبانہ روزمحنت کے نتیجیمیں معیشت میں بہت بہتری آئی ہے ،مہنگائی بڑھنے کی شرح میں بہت حدتک کم ہوئی ہے،وزیرخزانہ چندروزقبل خود اعتراف کرچکے ہیں کہ مہنگائی میں کمی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے،اس میں عوام کاقصورہے یاحکومتی مشینری صحیح کام نہیں کرتی،ہمیشہ عوام پرہی بوجھ منتقل کیوں کیاجاتاہے؟پٹرولیم لیوی 10روپے سے بڑھ کر70روپے تک ہوچکی ہے اورگزشتہ رات ایک آرڈیننس جاری کرکے اسے 78روپے تک پہنچادیاگیاہے،فرض کریں کہ آئندہ ایک دوماہ میں امریکی صدرٹرمپ کی پالیسیوں یادیگرعالمی حالات کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوجاتاہے توپھر ان ترقیاتی منصوبوں کاکیابنے گا؟ایک محتاط اندازے کے مطابق 58ارب روپے حکومت کواس مدمیں ملیں گے کیااتنی بڑی شاہراہ جو چمن،کوئٹہ،خضدارسے ہوتی کراچی تک جائے گی یہ ایک دوماہ میں بن جائے گی یہ کوئی نہ تو میٹرو ہے اور نہ ہی اسلام آبادکاکوئی انڈرپاس ہے جو ریکارڈ ایک دوماہ میں بن جاتاہے بلوچستان میں امن وامان کے مسائل ہیں اور بڑی تعمیراتی کمپنیاں وہاں جانے سے کتراتی ہیں ،حال ہی میں پی پی ایل کی طرف سے 60ارب روپے گیس رائلٹی کے دیئے گئے ہیں،این ایف سی ایوارڈ میں سے اربوں روپے صوبے کودیئے جاتیہیں اور اگرکبھی ریونیو وصولی میں شارٹ فال آجائے تو اس صورت میں بھی سندھ اورخیبرپختونخواکوکم پیسے ملتے ہیں لیکن بلوچستان کے حصے میں سے کوئی کٹوتی نہیں کی جاتی،دوبار قیمتوں میں اگرکمی کی جاتی تو یہ 18روپے72پیسے ہونی تھی اور اس کے نتیجیمیں عام غریب کو کافی ریلیف مل جاتا،قیمتیں کم ہونے سے پٹرول کااستعمال بڑھ جاتاہے اور سمگلنگ بھی کم ہوجاتی ہے،قیمتیں کم ہونے سے سمگلرز کو زیادہ فائدہ ہوتاہے اور ان کی چاندی ہوجاتی ہے،علی پرویزملک نوجوان وزیرپٹرولیم ہیں ،وہ وزیراعظم اور وزارت خزانہ کو قائل نہیں کرسکے ،ہماری طرف سے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ،بلوچستان کی ترقی کیلئے سونہیں دوسوارب مزیددیئے جائیں لیکن بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کے ریکارڈہیں ان پر بھی نظررکھی جائے مجھے دوواقعات یادآرہے ہیں ایک بارجب پیپلزپارٹی حکومت کی طرف بجٹ پیش کیاگیاتو پنک بک میں مختلف محکموں کیفنڈزدرج ہوتے ہیں تو اس وقت کے ایک وزیرنے کہاکہ میراحصہ ابھی سے علیحدہ کردو،تو ایک سینئربیوروکریٹ نے کہاکہ ٹینڈرکئے بغیروہ کچھ بھی نہیں کرسکتے اور بلوچستان کے ایک اہم سیاسی رہنمانے بیرون ملک ایک شخص کے نام پر کئی ارب کی سرمایہ کاری کی ،بعدازاں اس سیاسی شخصیت کے دوست نے دھوکہ دے دیااور حصہ دینے سے انکارکردیااوریہ قصہ بلوچستان میں کافی مشہورہوالہذابلوچستان کی تعمیر وترقی ہرپاکستانی کی خواہش ہے اور بعض عناصر بے بنیاد پروپیگنڈابھی کرتے ہیں کہ بلوچستان کاحصہ فلاں کھاگیافلاں کھاگیامگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کا جو پیسہ صوبے کو دیاجاتاہے وہ صوبہ ازخود استعمال کرتاہے اس میں وفاق کی طرف سے 18ویں ترمیم کے تحت مداخلت نہیں کی جاسکتی ،وہاں کرپشن کی روک تھام کے لئے اقدامات ناگزیرہیں۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بلوچستان کی قیمتوں میں کی قیمتوں کی طرف سے کے لئے ہے اور
پڑھیں:
138قیمتی گاڑیوں کی خریداری کا معاملہ: سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
---فائل فوٹوجماعتِ اسلامی کے ایم پی اے محمد فاروق نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 138 قیمتی گاڑیوں کی خریداری کے معاملے پر سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ عثمان فاروق نے عدالت کو بتایا کہ 28 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ نے گاڑیوں کی خریداری کے خلاف درخواست مسترد کی، حکومت سندھ کی جانب سے بیوروکریسی کے لیے 138 گاڑیاں خریدی جارہی ہیں، یہ گاڑیاں عوام کے ادا کردہ ٹیکس کی رقم سے خریدی جائیں گی، عوام کے ٹیکس کے پیسے کو عوام کی بہبود کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔