اسلام آباد(طارق محمودسمیر)وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کاریلیف عوام کو منتقل کرنے کی بجائے بلوچستان کی بڑی شاہراہ این 25 کی تعمیر کے لئے رقم استعمال کرنے کافیصلہ اصولی طور پرغلط ہے اور پی ایس ڈی پی کس مرض کی دوا ہے؟اس میں سے بلوچستان کا احساس محرومی دورکرنے اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈزکیوں نہیں دیئے گئے،کیااس کاکوئی حساب دینے والاہے؟پھرقوم کو کوئی بتائے گاکہ اب تک این ایف سی ایوارڈ کا کتناپیسہ بلوچستان کو دیاگیااوروہاں کے نواب،سردارکتناپیسہ دبئی اور ملائشیالے کرگئے؟اس کاکسی نے پتہ چلانے کی کوشش کی ،ایک عام موٹرسائیکل اور چھوٹی گاڑی والے کاکیاقصورہے کہ اسے عالمی سطح پرقیمتوں میں کمی کا ریلیف نہ ملے ،جب مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کو منانے کے لئے پٹرول کی قیمتوں میں ایک موقع پر 30سے50روپے تک فی لٹراضافہ کیاتھاتووہ عوام نے ہی برداشت کیاتھاوزیراعظم شہبازشریف اکثریہ کہتے ہیں کہ اب براوقت ختم ہوگیاہے،مشکلات سہہ لی ہیں اب ریلیف وقت آگیاہے لیکن عملاًکچھ نہیں کیاجاتا،کبھی بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لئے پٹرول میں ریلیف دینے سے انکارکیاجاتاہے تو کبھی بلوچستان کی تعمیروترقی کے لئے ریلیف نہیں دیاجاتا،عوامی حلقوں میں گزشتہ رات کے وزیراعظم کے اعلان کو عوامی حلقوں کی طرف سے ناپسندیدہ قراردیاجارہاہے،یہ دلیل قابل قبول نہیں کہ اگرپٹرول کی قیمتیں کم ہوجاتیں کہ کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ کم نہیں ہونے تھے کیونکہ مڈل مین فائدہ اٹھالیتاہے،اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کی شبانہ روزمحنت کے نتیجیمیں معیشت میں بہت بہتری آئی ہے ،مہنگائی بڑھنے کی شرح میں بہت حدتک کم ہوئی ہے،وزیرخزانہ چندروزقبل خود اعتراف کرچکے ہیں کہ مہنگائی میں کمی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے،اس میں عوام کاقصورہے یاحکومتی مشینری صحیح کام نہیں کرتی،ہمیشہ عوام پرہی بوجھ منتقل کیوں کیاجاتاہے؟پٹرولیم لیوی 10روپے سے بڑھ کر70روپے تک ہوچکی ہے اورگزشتہ رات ایک آرڈیننس جاری کرکے اسے 78روپے تک پہنچادیاگیاہے،فرض کریں کہ آئندہ ایک دوماہ میں امریکی صدرٹرمپ کی پالیسیوں یادیگرعالمی حالات کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوجاتاہے توپھر ان ترقیاتی منصوبوں کاکیابنے گا؟ایک محتاط اندازے کے مطابق 58ارب روپے حکومت کواس مدمیں ملیں گے کیااتنی بڑی شاہراہ جو چمن،کوئٹہ،خضدارسے ہوتی کراچی تک جائے گی یہ ایک دوماہ میں بن جائے گی یہ کوئی نہ تو میٹرو ہے اور نہ ہی اسلام آبادکاکوئی انڈرپاس ہے جو ریکارڈ ایک دوماہ میں بن جاتاہے بلوچستان میں امن وامان کے مسائل ہیں اور بڑی تعمیراتی کمپنیاں وہاں جانے سے کتراتی ہیں ،حال ہی میں پی پی ایل کی طرف سے 60ارب روپے گیس رائلٹی کے دیئے گئے ہیں،این ایف سی ایوارڈ میں سے اربوں روپے صوبے کودیئے جاتیہیں اور اگرکبھی ریونیو وصولی میں شارٹ فال آجائے تو اس صورت میں بھی سندھ اورخیبرپختونخواکوکم پیسے ملتے ہیں لیکن بلوچستان کے حصے میں سے کوئی کٹوتی نہیں کی جاتی،دوبار قیمتوں میں اگرکمی کی جاتی تو یہ 18روپے72پیسے ہونی تھی اور اس کے نتیجیمیں عام غریب کو کافی ریلیف مل جاتا،قیمتیں کم ہونے سے پٹرول کااستعمال بڑھ جاتاہے اور سمگلنگ بھی کم ہوجاتی ہے،قیمتیں کم ہونے سے سمگلرز کو زیادہ فائدہ ہوتاہے اور ان کی چاندی ہوجاتی ہے،علی پرویزملک نوجوان وزیرپٹرولیم ہیں ،وہ وزیراعظم اور وزارت خزانہ کو قائل نہیں کرسکے ،ہماری طرف سے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ،بلوچستان کی ترقی کیلئے سونہیں دوسوارب مزیددیئے جائیں لیکن بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کے ریکارڈہیں ان پر بھی نظررکھی جائے مجھے دوواقعات یادآرہے ہیں ایک بارجب پیپلزپارٹی حکومت کی طرف بجٹ پیش کیاگیاتو پنک بک میں مختلف محکموں کیفنڈزدرج ہوتے ہیں تو اس وقت کے ایک وزیرنے کہاکہ میراحصہ ابھی سے علیحدہ کردو،تو ایک سینئربیوروکریٹ نے کہاکہ ٹینڈرکئے بغیروہ کچھ بھی نہیں کرسکتے اور بلوچستان کے ایک اہم سیاسی رہنمانے بیرون ملک ایک شخص کے نام پر کئی ارب کی سرمایہ کاری کی ،بعدازاں اس سیاسی شخصیت کے دوست نے دھوکہ دے دیااور حصہ دینے سے انکارکردیااوریہ قصہ بلوچستان میں کافی مشہورہوالہذابلوچستان کی تعمیر وترقی ہرپاکستانی کی خواہش ہے اور بعض عناصر بے بنیاد پروپیگنڈابھی کرتے ہیں کہ بلوچستان کاحصہ فلاں کھاگیافلاں کھاگیامگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کا جو پیسہ صوبے کو دیاجاتاہے وہ صوبہ ازخود استعمال کرتاہے اس میں وفاق کی طرف سے 18ویں ترمیم کے تحت مداخلت نہیں کی جاسکتی ،وہاں کرپشن کی روک تھام کے لئے اقدامات ناگزیرہیں۔

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بلوچستان کی قیمتوں میں کی قیمتوں کی طرف سے کے لئے ہے اور

پڑھیں:

نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہر سال مختلف کمپنیوں کی جانب سے درجنوں نئے اینڈرائیڈ فونز متعارف کرائے جاتے ہیں جن میں قیمت اور خصوصیات کی بنیاد پر نمایاں فرق موجود ہوتا ہے، تاہم ایک عام صارف جب نیا فون خریدنے جاتا ہے تو اکثر چند بنیادی غلطیاں کر بیٹھتا ہے جو آگے چل کر پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق صارفین کی بڑی تعداد اپنے فون کی اسٹوریج کی ضرورت کا درست اندازہ نہیں لگاتی۔ آج کل ایپس، تصاویر اور ویڈیوز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث زیادہ اسٹوریج کی اہمیت واضح ہے۔ بہت سے افراد کم اسٹوریج والے فون خرید لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد بار بار ڈیٹا اور ایپس کو ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح صارفین سافٹ ویئر سپورٹ کے معاملے کو بھی عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں۔ متعدد اینڈرائیڈ فونز ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپریٹنگ سسٹم کے نئے ورژنز بہت محدود عرصے تک یا پھر بالکل نہیں ملتے۔ اس وجہ سے نہ صرف سیکیورٹی خدشات بڑھ جاتے ہیں بلکہ جدید ایپس کے اہم فیچرز بھی استعمال کرنے میں رکاوٹ آتی ہے۔ مارکیٹ میں موجود چند معروف برانڈز 4 سے 7 سال تک اپ ڈیٹس فراہم کرتی ہیں، جبکہ بعض کمپنیاں صرف ایک سے دو سال تک اپ ڈیٹ دیتی ہیں، اس لیے ماہرین کے مطابق نئے فون کا انتخاب کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کمپنی کی اپ ڈیٹ پالیسی کتنی مضبوط ہے۔

دوسری جانب بہت سے صارفین فون کی خصوصیات کے نمبرز کو دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں اور کمپنی کے بتائے گئے اعداد و شمار پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کر بیٹھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 108 میگا پکسل کیمرا ضروری نہیں کہ 48 میگا پکسل یا 12 میگا پکسل سے بہتر ہو، اسی طرح زیادہ mAh والی بیٹری لازمی نہیں کہ زیادہ دیر تک ہی چلے۔ اصل فرق سافٹ ویئر آپٹمائزیشن اور برانڈ کی انجینئرنگ میں ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ فون خریدنے سے پہلے ریویوز کو دیکھا جائے اور ممکن ہو تو کسی ایسے شخص کی رائے ضرور لی جائے جو وہ فون پہلے سے استعمال کر رہا ہو۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ صارفین اکثر اپنی حقیقی ضرورت اور بجٹ کے بجائے مارکیٹ میں مقبولیت کی بنیاد پر فون منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے کام درمیانی قیمت والے فون بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں، اس لیے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ فون کا بنیادی استعمال کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بہت سے افراد جلد بازی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور فون کے لانچ ہوتے ہی فوراً خریداری کر لیتے ہیں، حالانکہ زیادہ تر اینڈرائیڈ فونز چند ہفتوں بعد ہی رعایتی قیمت پر دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ خریدار کچھ وقت انتظار کرے تاکہ بہتر قیمت میں بہتر فون حاصل کر سکے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی فورسز کا غزہ جاکر حماس کے مقابل کھڑا ہونا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا، حافظ نعیم
  • بلوچستان اس وقت سنگین امن و امان کے بحران سے دوچار ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • پنجاب حکومت کا عارضی بنیادوں پر طبی ماہرین بھرتی کرنے کا فیصلہ
  • پنجاب میں عارضی بنیادوں پر طبی ماہرین بھرتی کرنے کا فیصلہ
  • نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا
  • پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • بلوچستان حکومت کا نوعمر قیدیوں کیلئے علیحدہ جیل بنانے کا فیصلہ
  • لاہور میں بلوچستان کا مقدمہ عوام کے سامنے رکھیں گے، مولانا ہدایت الرحمان