سپریم کورٹ کی جانب سے 9 مئی ملزمان کے مقدمات کا 4 ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکمنامہ جاری کردیا گیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان یحیی آفریدی کی جانب سے 3 صحفات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا گیا ہے، ٹرائل کورٹس 4 ماہ میں 9 مئی ملزمان کے مقدمات کا فیصلہ کریں،عدالتیں ملزمان کے فئیر ٹرائل کے حق کو یقینی بنائیں۔

یہ بھی پڑھیں:شہباز شریف کی قیادت میں معیشت بحال، 9 مئی کا بیانیہ دفن ہوچکا، عطا تارڑ

ایک سے زائد مقدمات کے ملزمان کی حاضری سے استثنی کی درخواستوں پر قانون کے مطابق فیصلے کئے جائیں، انسداد دہشتگردی ایکٹ کیمطابق ٹرائل کا سات روز میں فیصلہ ہونا ہوتا ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ 4 ماہ کی مدت فیصلے کی موصول ہونے کے دن سے شروع ہوگی، بہت سے ملزمان نے ایک سے زائد مقدمات میں نامزد ہونے کا موقف اپنایا، بہت سے ملزمان نے چالان اور ریکارڈ فراہم نہ کرنے کا موقف اپنایا۔

یہ بھی پڑھیں: 9مئی واقعات میں ملوث 19 مجرمان کے لیے معافی کا اعلان بڑی پیش رفت نہیں، بیرسٹر گوہر

حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کی عدم دستیابی بھی ٹرائل کورٹس کیلئے توجہ طلب معاملہ ہے، ہائیکورٹس چیف جسٹسز اور انتظامی ججز پندرہ روزہ میں رپورٹس عدالتوں سے طلب کرسکتے ہیں، ہائیکورٹس اور مانیٹرنگ ججز شفاف ٹرائل جلد مکمل ہونے کو یقینی بنائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

9مئی ٹرائل we news پاکستان حکمنامہ جاری سپریم کورٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان سپریم کورٹ گیا ہے

پڑھیں:

کیا اب بھی آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کا آئینی بینچ پہلے ہی کام کررہا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد بھی الگ سے ایک آئینی عدالت کی کوئی ضرورت ہے؟

پولرائزڈ سماج میں سیاسی عصبیت کی بنیاد پر آپ کوئی سا بھی مؤقف اختیار کر سکتے ہیں، لیکن قانون اور دلیل کے ساتھ معاملے کو دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ جی ہاں! آئینی بینچ کے باوجود آئینی عدالت کی ضرورت موجود ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پہلے سے بڑھ گئی ہے۔

آئینی بینچ مسئلے کا حل نہیں، حل آئینی عدالت ہی ہے، آئینی بینچ تو دستیاب حالات میں اختیار کیا گیا، ایک اضطراری متبادل تھا کیونکہ اس وقت آئینی عدالت کی وجہ سے ہی 26ویں آئینی ترمیم پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔

تاہم جن مسائل کی وجہ سے الگ سے آئینی عدالت بنانا مقصود ہے، وہ مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ آئینی بینچ انہیں حل نہیں کر سکا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آئینی بینچ بنانے سے وہ مزید الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اگر مطلوبہ اکثریت میسر ہو تو ایک مکمل آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے۔

معاملے کو سمجھنے کے لے آئیے دیکھتے ہیں کہ آئینی عدالت کا قیام کیوں ضروری ہے۔

یہ اس لے ضروری ہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کا زیادہ تر وقت سیاسی لوگوں کے آئینی معاملات کو سننے میں صرف ہو جاتا تھا جبکہ عام لوگوں کے مقدمات کی سالوں تک باری ہی نہیں آتی تھی۔

آئینی مقدمات کی تعداد صرف 15 فیصد تھی اور ان 15 فیصد مقدمات کی سماعت میں سپریم کورٹ کا 90 فیصد وقت صرف ہوتا تھا۔

دوسری جانب عام مقدمات کی تعداد 85 فیصد تھی مگر ان 85 فیصد مقدمات کے لیے سپریم کورٹ کا دستیاب وقت 10 فیصد تھا۔

عام آدمی کا برا حال تھا، نہ اسے کوئی ’گڈ ٹو سی یو‘ کہنے والا تھا نہ اس کے مقدمات کی باری آتی تھی۔ اگر عام مقدمات کی تعداد 85 فیصد تھی تو ان کے لیے وقت بھی 85 فیصد ہونا چاہیے تھا مگر وہ صرف 10 فیصد تھا۔

سیاسی اور آئینی مقدمات تو اہتمام سے سنے جاتے تھے، رات گئے بھی پیٹیشنز دائر ہو جایا کرتی تھیں۔ چھٹی والے دن سماعت ہو جایا کرتی تھی۔ مقدمے کی کارروائی ساری قوم کو لائیو دکھانے کا اہتمام بھی ہو جاتا تھا، ٹکرز بھی چلتے تھے، رات گئے تک ٹاک شوز بھی ہوتے تھے۔ کورٹ رپورٹرز کو بھی انہی مقدمات پر لمبے لمبے خطبے دینے اور تجزیے فرمانے میں لطف آتا تھا، سماعت والے دن گویا میلے کا سا سماں ہوتا تھا، لیکن میلے کی ان رونقوں میں عام آدمی کی کوئی کسی کو پرواہ نہیں تھی جس کے مقدمات لٹک گئے تھے۔

نوبت یہاں جا پہنچی کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 57 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔ ان کی سماعت کے لیے مناسب وقت ہی دستیاب نہ تھا، عدالت کا 85 فیصد وقت تو آئینی مقدمات کھا جاتے تھے۔

حالت یہ تھی کہ ملزمان سپریم کورٹ سے بری ہوتے تو پتا چلتا انہیں پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ 20،20 سال مقدمے چلتے رہے اور پھر جا کر سپریم کورٹ نے ملزمان کو بری کردیا اور اب کسی کے پاس ان 20 سالوں کا کوئی جواب نہ تھا، فیصلے بروقت ہوتے تو یہ نہ ہوتا۔

صرف مقدمات کا التوا ہی پریشان کن نہ تھا، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے بینچ میں موجود ایک جج کو فیصلہ لکھنے کی ذمہ داری دی اور جج صاحب نے فیصلہ لکھنے میں بھی 223 دن لگا دیے۔

وقت کے چیف جسٹس نے متعلقہ جج کا نام لے کر اپنے نوٹ میں لکھا کہ اتنی زیادہ تاخیر اس کی وجہ سے ہوئی ہے۔

چنانچہ اس سیاق و سباق سے یہ سوچ پیدا ہونے لگی کہ سیاسی اشرافیہ کے آئینی جھگڑوں کی وجہ سے عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میں بہت زیادہ تاخیر ہو رہی ہے تو مناسب ہوگا کہ ایک الگ سے آئینی عدالت بنا لی جائے تاکہ وہ آرام سے ان سیاسی اور آئینی مقدمات کو دیکھتی رہے اور سپریم کورٹ معمول کے مطابق کام کرے تاکہ لوگوں کو بروقت انصاف ملے۔

آئینی عدالت بنانے کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ماضی قریب میں ہم نے اور سب نے دیکھا کہ اکثر اہم آئینی مقدمات 3 رکنی بینچ ہی سنا کرتا تھا۔ اس بینچ کی ایک زمانے میں دیو مالائی کہانیوں جیسی شہرت تھی۔

پھر یہ قباحت بھی موجود تھی کہ بینچ چیف جسٹس نے بنانا ہوتا تھا اور اہم آئینی مقدمات میں بینچ بنتے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ بینچ کی تشکیل کے حوالے سے موجود قباحتوں کے ازالے سے کچھ کام تو ہوا ہے مگر یہ ناکافی ہے، ہمہ جہت اصلاح کے حوالے سے مزید کام کی ضرورت ہے۔

چنانچہ یہ منطقی بات تھی کہ الگ سے ایک وفاقی آئینی عدالت بنا دی جائے جو آئینی معاملات کو دیکھتی رہے اور سپریم کورٹ ان زیر التوا مقدمات پر توجہ دے سکے جن کا انبار بڑھتا جا رہا ہے۔

آئینی عدالت میں مقدمات کو ایک مکمل عدالت سنے گی، نہ وہاں افسانوی شہرت والا 3 رکنی بینچ ہوگا، نہ مرضی کے ججوں پر مشتمل بینچ بن سکے گا، نہ مخصوص جج مخصوص مقدمات کی سماعت کریں گے، بلکہ تمام صوبوں سے آئے جج بیٹھ کر وفاقی آئینی عدالت میں مقدماات کی سماعت کریں گے۔

آئینی بنچ اس مسئلے کا حل نہیں، اس کا حل آئینی عدالت ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سارا بیانیہ اشرافیہ کے مسائل اور مفادات کے گرد گھوم رہا ہے، اور عام لوگ اور ان کے مسائل کہیں زیر بحث ہی نہیں، بھلے ان کے زیر التوا مقدمات نصف لاکھ سے زیادہ ہو جائیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

wenews آئینی بینچ آئینی عدالت سیاسی عصبیت مرضی کے ججز وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • کیا اب بھی آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟
  • سپریم کورٹ کا متاثرہ خاتون کو نان نفقہ فوری ادا کرنے کا حکم
  • سپریم کورٹ بار: نو منتخب اور رخصت ہونے والی کابینہ کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات
  • سپریم کورٹ کا 24سال بعد فیصلہ، ہائیکورٹ کا حکم برقرار،پنشن کے خلاف اپیل مسترد
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے
  • سپریم کورٹ میں خانپور ڈیم کیس کی سماعت، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری کر دیا
  • سپریم کورٹ کراچی رجسٹری  نے ڈاکٹر کے رضاکارانہ استعفے پر پنشن کیس کا24سال بعد فیصلہ سنا دیا
  • سپریم کورٹ؛ خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ کے فریقین کو نوٹسز جاری
  • پراپرٹی ٹیکسوں کے نفاذ اور بلدیاتی انتخابات سےمتعلق تحریری حکمنامہ جاری