آئی پی ایل میں کروڑوں روپے میں خریدے جانیوالا کھلاڑی تنقید کی زد میں کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
آئی پی ایل میں 4.2 کروڑ بھارتی روپے میں خریدے گئے پنجاب کنگز فرینچائز کے آسٹریلوی آل راؤنڈر گلین میکسویل کی اس سیزن میں اب تک کی پرفارمنس انتہائی ناقص رہی ہے۔ 6 میچز میں صرف 41 رنز اسکور کرنے والے آل راؤنڈر کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
سابق بھارتی بلے باز چتیشور پجارا کا کھلاڑی پر تنقید کرتے ہوئے کا کہنا تھا کہ گلین میکسویل کی بیٹنگ کا طریقہ بدلا نہیں ہے۔ جس طرح وہ آئی پی ایل میں آئے انہوں نے وہ طریقہ نہیں بدلا۔ بعض اوقات وہ تھوڑے معمولی ہوجاتے ہیں۔ وہ ویسے ہی ہیں جیسے وہ آٹھ دس برس پہلے تھے۔ بعض اوقات آپ کو بطور کھلاڑی جاگنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
آئی پی ایل میں گلین میکسویل کی فارم میں تسلسل نہیں رہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے پنجاب کنگز اور رائل چیلنجرز بینگالورو کی جانب سے کچھ زبردست اننگز کھیلی ہیں لیکن کارکردگی میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ماہرین اور مداح ان پر تنقید کر رہے ہیں۔
چتیشور پجارا کا کہنا تھا کہ آپ کو یہ احساس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ آپ کو ایک فرینچائز کا حصہ بننے اور کھیلنے کا موقع مل رہا ہے جہاں چیزیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ اور بعض اوقات کھلاڑی معمولی برتاؤ نہیں رکھ سکتے۔ انہیں فکر نہیں ہوتی کہ کیا ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پرفارم کرنا چاہتے ہوں گے لیکن جب آپ سے پرفارم نہیں ہو رہا ہوتا تو آپ چیزوں کو ایسے ہی نہیں چھوڑ دیتے بلکہ کوشش کرتے ہیں۔ انہیں یہ توازن ڈھونڈنا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئی پی ایل میں
پڑھیں:
معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔
کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟
کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔
کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟
اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟
یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !
بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔
قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔
تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔
نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟
یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں