—فائل فوٹو

وزیر اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد شرمندگی اور خفت مٹانے کا طریقہ ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو قومیں اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوتی ہیں وہ اسپورٹس میں سیاست کو لے آتی ہیں۔

عطاء اللّٰہ تارڑ کا کہنا ہے کہ ان کے 6 جہاز گر گئے، وہ جنگ بھی ہار گئے، یہ وہ لوگ کرتے ہیں جن کی کوئی اخلاقیات ہوتی ہیں نہ کوئی عزت ہوتی ہے۔

اینڈی پائی کرافٹ معاملہ، پی سی بی مؤقف پر قائم، درمیانی راستہ نکالنے کی کوششیں

بھارتی میڈیا کے مطابق ایشین کرکٹ کونسل معاملہ سلجھانے کے لیے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عزت دار لوگ ہیں، ہم جنگ جیتے ہیں، ہم کھیل کے میدان میں بھی یقین رکھتے ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں اسپورٹس مین اسپرٹ زندہ رہنی چاہیے، میچ ریفری کو صرف ریفری کے طور پر ایکٹ کرنا چاہیے تھا۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

خوف اور حزن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خوف کے معنی ہیں ڈر یا اندیشہ کہ کچھ ہو جائے گا‘ جو ملنے والا ہے وہ نہیں ملے گا‘ یا کوئی ایسی چیز مل جائے گی جو ناخوش گوار اور ناقابل برداشت ہو گی اور نقصان کا باعث ہوگی۔
حزن سے مراد اس بات کا غم کہ کچھ چھن گیا یا نقصان ہوگیا‘ کوئی ضرب پڑگئی‘ کوئی چیز ملنا چاہیے تھی نہ ملی اور جو چیز نہ ملنا چاہیے تھی وہ مل گئی۔ غم کی اس کیفیت کو حزن وملال کہا جاتا ہے۔
دراصل نفس کے اندر کی یہ وہ کیفیات ہیں جن سے اصل رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر آدمی خوف اور اندیشوں پر پہلے سے قابو نہ پائے تو جن چیزوں کا خوف و اندیشہ اس کو لاحق رہتا ہے وہ اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ خدشات کہ اگر میں نے ایسا کیا تو یہ ہوجائے گا‘ ایک چیز جو ہاتھ لگنے والی ہے اگر ہاتھ نہ لگی تو یہ بڑا نقصان ہو جائے گا‘ میری عزت کو‘ میری دولت کو‘ معاشرے میں میرے مقام ومرتبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘ سیاسی‘ مادی‘ مالی یا جو کچھ بھی حیثیت ہے‘ ہاتھ سے نکل جائے گی ۔۔۔ یہ خوف وخدشات جب آدمی کے اوپر طاری ہوتے ہیں‘ تو پھر بالآخر وہ ان کے ڈر سے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔
دوسرا پہلو غم اور حزن کا ہے‘ یعنی یہ کہ جو چیز حاصل تھی وہ ہاتھ سے نکل گئی‘ کوئی مرگیا یا مال کا نقصان ہوگیا‘ یا کسی نے عزت کے اوپر حملہ کردیا‘ گالی دے دی وغیرہ۔ جب کوئی نقصان ہوجاتاہے یا عزت تک ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو آدمی کو اس کا غم ہوتا ہے۔ غم ہو تو پھر غصہ بھی آتا ہے۔ غم وغصہ کا لفظ تو ہماری زبان میں‘ اردو ادب میں استعمال ہوتا ہے۔ جہاں غم پیدا ہوتا ہے وہاں غصہ بھی لازماً آتا ہے‘ کہ یہ چیز کیوں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی‘ میری عزت پہ یہ حملہ کیوں ہو گیا‘ جو چیز مجھے ملنے والی تھی وہ کیوں کوئی چھین کے لے گیا۔ اس طرح ایک طرف تو غم ہوتا ہے جو غصے کے اندر تبدیل ہو جاتا ہے‘ اور پھر غصہ بالآخر اشتعال دلاتا ہے اور اس اقدام پر مجبور کرتا ہے جو صبر کے منافی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نیک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کی اس صفت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ نہ خوف اور اندیشے کا شکار ہوں گے اور نہ کسی غم کے اندر مبتلا ہوں گے۔ جنت کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ جنت کی زندگی کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ وہاں نہ مستقبل کا اندیشہ ہو گا اور نہ کسی چیز کے چھننے کا خدشہ ہوگا (البقرۃ: 38)۔ کوئی مصیبت پڑنے کا خوف بھی دل کے اوپر طاری نہیں ہوگا‘ اور نہ کوئی چیز ہاتھ سے نکل جانے کا غم وغصہ ہوگا بلکہ اطمینان ہوگا کہ صحیح زندگی گزار آئے اور صلہ پالیا۔ کوئی حسرت نہیں ہوگی کہ یہ کام کیوں نہیں کیا اور اگر یہ کرتے تو یہ پیش نہ آتا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہی دو چیزیں ہیں جو صبر کے سرچشمے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں‘ اور صبر کے راستے میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان کا اظہار بھی انھی دو باتوں سے ہوتا ہے‘ یعنی خوف اور حزن۔

 

خرم مرادؒ گلزار

متعلقہ مضامین

  • چمن بارڈر سے ایک روزمیں 10 ہزارسے زائد افغان مہاجرین کو واپس بھیج دیا گیا
  • آئی سی سی اجلاس میں میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے، محسن نقوی
  • مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
  • نوکری سے نکالنے پر ملازم نے بریانی سینٹر کے مالک پر فائرنگ کردی
  • ٹی ایل پی پر پابندی اچھی بات ہے، کسی دہشتگرد تنظیم سے بات نہیں کرنی چاہیے: اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • سام سنگ کا پَتلے اسمارٹ فونز کی پروڈکشن بڑھانے کا فیصلہ
  • واٹس ایپ میں بیک-اَپ کیلئے اب کوئی پاسورڈ کی ضرور نہیں، نیا طریقہ متعارف
  • خوف اور حزن
  • سندھ یونیورسٹی کا مقصد جدیدو معیاری تعلیم کو فروغ دینا ہے، ڈاکٹر فتح مری
  • انسان کو اس جگہ کی عزت کرنی چاہیے جہاں اسے عزت، دولت، شہرت ملی ہو: مشی کی صبا پر تنقید