بھارت جنگ ہار گیا، کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد خفت مٹانا ہے: عطا تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 16th, September 2025 GMT
بھارت جنگ ہار گیا، کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد خفت مٹانا ہے: عطا تارڑ WhatsAppFacebookTwitter 0 16 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد جنگ ہارنے کی خفت مٹانا ہے۔
اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب میں عطا تارڑ نے کہا کہ بھارت جنگ ہار گیا اور ان کے 6 جہاز گرے، اب بھارتی ٹیم کی جانب سے کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد جنگ ہارنے کی خفت مٹانا ہے۔
وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ عسکری میدان میں شکست کے بعد بھارت اب کھیل کے میدان میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہاہے، اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار قومیں اسپورٹس میں سیاست لے آتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میچ ریفری کو صرف ریفری کے طور پر ایکٹ کرنا چاہیے تھا، جیسے بھی حالات ہوں، اسپورٹس مین اسپرٹ زندہ رہنی چاہیے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسامعہ حجاب نے حسن زاہد کو معاف کرنے کی وجہ بتا دی جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری کیس میں بڑی پیشرفت وزیراعظم کی ایرانی صدر سے ملاقات،امت مسلمہ کے اتحاد پر زور کابینہ ڈویژن نے نیا توشہ خانہ ریکارڈ جاری کردیا ،تحائف کی مکمل فہرست سب نیوز پر دستیاب پنجاب میں مون سون کا 11واں اسپیل، کن شہروں میں بارش کا امکان؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کا سی ڈی اے کو (ایچ-16 )ایوارڈ پر کام سے روکنے کا حکم وزیراعظم شہباز شریف کی امیر قطر سے ملاقات، قریبی روابط برقرار رکھنے پر اتفاقCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عطا تارڑ
پڑھیں:
خوف اور حزن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خوف کے معنی ہیں ڈر یا اندیشہ کہ کچھ ہو جائے گا‘ جو ملنے والا ہے وہ نہیں ملے گا‘ یا کوئی ایسی چیز مل جائے گی جو ناخوش گوار اور ناقابل برداشت ہو گی اور نقصان کا باعث ہوگی۔
حزن سے مراد اس بات کا غم کہ کچھ چھن گیا یا نقصان ہوگیا‘ کوئی ضرب پڑگئی‘ کوئی چیز ملنا چاہیے تھی نہ ملی اور جو چیز نہ ملنا چاہیے تھی وہ مل گئی۔ غم کی اس کیفیت کو حزن وملال کہا جاتا ہے۔
دراصل نفس کے اندر کی یہ وہ کیفیات ہیں جن سے اصل رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر آدمی خوف اور اندیشوں پر پہلے سے قابو نہ پائے تو جن چیزوں کا خوف و اندیشہ اس کو لاحق رہتا ہے وہ اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ خدشات کہ اگر میں نے ایسا کیا تو یہ ہوجائے گا‘ ایک چیز جو ہاتھ لگنے والی ہے اگر ہاتھ نہ لگی تو یہ بڑا نقصان ہو جائے گا‘ میری عزت کو‘ میری دولت کو‘ معاشرے میں میرے مقام ومرتبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘ سیاسی‘ مادی‘ مالی یا جو کچھ بھی حیثیت ہے‘ ہاتھ سے نکل جائے گی ۔۔۔ یہ خوف وخدشات جب آدمی کے اوپر طاری ہوتے ہیں‘ تو پھر بالآخر وہ ان کے ڈر سے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔
دوسرا پہلو غم اور حزن کا ہے‘ یعنی یہ کہ جو چیز حاصل تھی وہ ہاتھ سے نکل گئی‘ کوئی مرگیا یا مال کا نقصان ہوگیا‘ یا کسی نے عزت کے اوپر حملہ کردیا‘ گالی دے دی وغیرہ۔ جب کوئی نقصان ہوجاتاہے یا عزت تک ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو آدمی کو اس کا غم ہوتا ہے۔ غم ہو تو پھر غصہ بھی آتا ہے۔ غم وغصہ کا لفظ تو ہماری زبان میں‘ اردو ادب میں استعمال ہوتا ہے۔ جہاں غم پیدا ہوتا ہے وہاں غصہ بھی لازماً آتا ہے‘ کہ یہ چیز کیوں ہمارے ہاتھ سے نکل گئی‘ میری عزت پہ یہ حملہ کیوں ہو گیا‘ جو چیز مجھے ملنے والی تھی وہ کیوں کوئی چھین کے لے گیا۔ اس طرح ایک طرف تو غم ہوتا ہے جو غصے کے اندر تبدیل ہو جاتا ہے‘ اور پھر غصہ بالآخر اشتعال دلاتا ہے اور اس اقدام پر مجبور کرتا ہے جو صبر کے منافی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نیک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کی اس صفت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ نہ خوف اور اندیشے کا شکار ہوں گے اور نہ کسی غم کے اندر مبتلا ہوں گے۔ جنت کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ جنت کی زندگی کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ وہاں نہ مستقبل کا اندیشہ ہو گا اور نہ کسی چیز کے چھننے کا خدشہ ہوگا (البقرۃ: 38)۔ کوئی مصیبت پڑنے کا خوف بھی دل کے اوپر طاری نہیں ہوگا‘ اور نہ کوئی چیز ہاتھ سے نکل جانے کا غم وغصہ ہوگا بلکہ اطمینان ہوگا کہ صحیح زندگی گزار آئے اور صلہ پالیا۔ کوئی حسرت نہیں ہوگی کہ یہ کام کیوں نہیں کیا اور اگر یہ کرتے تو یہ پیش نہ آتا۔ اگر غور کیا جائے تو دراصل یہی دو چیزیں ہیں جو صبر کے سرچشمے کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں‘ اور صبر کے راستے میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان کا اظہار بھی انھی دو باتوں سے ہوتا ہے‘ یعنی خوف اور حزن۔