اسلام آباد، لاہور اور پشاور سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب کے دارالحکومت لاہور سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے، اس کے علاوہ دیرلویر میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ملک کے دیگر شہروں کی طرح لاہور اور اسکے گرد نواح میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، لوگ استغفار اور درود کا ورد کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے۔
خیبر پختوخوا کے ضلع باجوڑ، چارسدہ، سوات، مینگورہ شہر، مالا کنڈ، بونیر، پبی، تخت بھائی، صوابی، رستم اور گردونواح میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے۔
زلزلے کے بعد شہریوں میں خوف وہراس پھیل گیا، شہری گھروں سے باہر نکل آئے اور کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں میں محسوس کیے گئے زلزلے کے جھٹکے کی شدت ریکٹر سکیل پر5.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے
پڑھیں:
پنجاب میں فتنۃ الخوارج ٹی ٹی پی کی موجودگی اور کارراوئیوں میں اضافہ، رپورٹ
انکشاف کیا گیا ہے کہ بعض مقامات پر وہ شناختی کارڈ چیک کرنے اور معمولی نوعیت کے مقامی تنازعات میں مداخلت جیسی سرگرمیوں میں بھی مصروف پائے گئے ہیں گویا وہ خود ساختہ سیکیورٹی فورس بنے بیٹھے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آئی آن فرنٹ لائنز نامی ادارے کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فتنۃ الخوارج کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جنوبی اور مغربی پنجاب کے اضلاع میں اپنی سرگرمیوں کا دائرہ نمایاں طور پر بڑھا لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کالعدم تنظیم نے حالیہ چند برسوں میں اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی کرتے ہوئے قبائلی اور سرحدی علاقوں کی بجائے اب ملک کے اندرونی حصوں، خصوصاً پنجاب میں اپنی تنظیمی سرگرمیوں کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد اس وقت ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف اور میانوالی کے گردونواح میں فعال ہیں۔ مقامی ذرائع اور سیکیورٹی رپورٹس کے مطابق، ان علاقوں میں سورج غروب ہوتے ہی ریاستی عمل داری تقریباً غیر مؤثر ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں دہشت گرد بلاخوف و خطر نقل و حرکت کرتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پس پردہ کارروائیوں تک محدود نہیں رہیں۔
انکشاف کیا گیا ہے کہ بعض مقامات پر وہ شناختی کارڈ چیک کرنے اور معمولی نوعیت کے مقامی تنازعات میں مداخلت جیسی سرگرمیوں میں بھی مصروف پائے گئے ہیں گویا وہ خود ساختہ سیکیورٹی فورس بنے بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی و مضافاتی علاقوں میں طالبان دہشت گرد 15 سے 20 کلومیٹر کے علاقے میں متحرک ہیں، جبکہ میانوالی اور دیگر دیہی علاقوں میں بھی ان کی موجودگی کے واضح شواہد ملے ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گرد موٹر سائیکلوں پر گشت کرتے ہیں، اور ان کی نقل و حرکت مختلف علاقوں میں باقاعدہ نظم و ضبط کے ساتھ جاری ہے۔ آئی آن فرنٹ لائنز کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب میں ٹی ٹی پی کا منظم نیٹ ورک سرگرم ہے، جس میں 300 سے 500 کے درمیان دہشت گرد شامل ہیں۔ یہ افراد چھوٹے چھوٹے گروپوں میں منقسم ہو کر مختلف علاقوں میں اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران باجھا اور وجن کے علاقوں میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ تنظیم نے نہ صرف اپنی موجودگی کو فعال بنایا ہے بلکہ سیکیورٹی اداروں کی موجودگی کے باوجود اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مقامی آبادی کی ایک قابلِ ذکر تعداد طالبان جنگجوؤں کی موجودگی کو جرائم میں کمی کا سبب قرار دے رہی ہے۔
بعض شہریوں نے میڈیا کو بتایا کہ ان جنگجوؤں کی آمد کے بعد چوری، ڈکیتی اور قبائلی جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ ان کے بقول طالبان دہشت گرد مقامی افراد کو نقصان نہیں پہنچاتے اور بعض مقامات پر علاقے کا نظم و نسق سنبھالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں جو کہ پولیس کی موجودگی کے دوران بدامنی اور بڑھتے جرائم کے تناظر میں ایک متضاد منظرنامہ پیش کر رہا ہے۔