یوکرین اور روس میں رواں ہفتے ہی معاہدے کی امید، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز یوکرین تنازعے سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا "امید ہے کہ" ایک معاہدہ "رواں ہفتے" ہی ہو جائے گا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ معاہدہ کیا ہو گا اور اس میں کیا اہم نکات شامل ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر نے اس کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر لکھا: "امید ہے کہ روس اور یوکرین اس ہفتے ایک معاہدہ کر لیں گے۔
اس کے بعد دونوں ملک ترقی کی راہ پر گامزن امریکہ کے ساتھ بڑے کاروبار شروع کریں گے اور دولت کمائیں گے۔"ٹرمپ نے حال ہی میں کییف اور ماسکو پر زور دیا تھا کہ وہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے سمجھوتہ کرنے پر آمادگی ظاہر کریں، جو فروری 2022 میں شروع ہوئی تھی۔
(جاری ہے)
ہفتے کے روز روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایسٹر کی تعطیل کے لیے ایک مختصر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، لیکن اس کے بعد دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے تنقید کی۔
جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزاماتروس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر ایسٹر کے موقع پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے اور دونوں نے بڑے پیمانے پر ڈرون اور توپ خانوں سے حملوں کی اطلاعات دی ہیں۔
کییف کے کمانڈر انچیف اولیکسینڈر سیرسکی نے کہا کہ روس کی جانب سے حملے کے لیے گولہ باری اور ڈرونز کے استعمال کا مشاہدہ کیا گیا، جبکہ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے ماسکو پر 2000 بار جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا۔
واضح رہے کہ روسی صدر نے اتوار کے روز ایسٹر کے موقع پر 30 گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، لیکن فریقین نے ایک دوسرے پر اس کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ کییف نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ صرف دفاعی حملے کر رہا ہے۔
دوسری جانب روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس نے مختصر جنگ بندی کے دوران یوکرین کی جانب سے ہونے والے حملوں کو "پسپا" کر دیا۔
ماسکو نے کییف پر ڈرون اور گولے برسانے کا الزام بھی لگایا، جس سے عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
جنگ بندی میں توسیع کا مطالبہزیلنسکی نے جنگ بندی میں ممکنہ توسیع کی وکالت کرتے ہوئے کہا، "کم از کم 30 دنوں کے لیے شہری انفراسٹرکچر پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرونز اور میزائلوں کے استعمال والے کسی بھی حملے کو روک دیا جانا چاہیے۔
"انہوں نے کہا، "جنگ بندی کے اس فارمیٹ کو حاصل کر لیا گیا ہے اور اس میں توسیع کرنا سب سے آسان کام ہے۔ اگر روس ایسے اقدام پر راضی نہیں ہوتا، تو یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ وہی کام جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو انسانی جانوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کو طول دینے کا سبب بنتے ہیں۔"
ایسٹر پر روس کی طرف سے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان
جنگ بندی میں توسیع نہیںامریکی محکمہ خارجہ نے اتوار کے روز کہا کہ ایسٹر کے موقع پر جو صرف ایک روز جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا، اس میں وہ مزید توسیع کا خیر مقدم کرے گا۔
تاہم کریملن کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے۔روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ٹی اے ایس ایس نے اطلاع دی ہے کہ جب جنگ بندی میں توسیع کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اتوار کی شام کو کہا: "اس ضمن میں کوئی اور حکم نہیں آیا ہے۔"
یوکرین پر روسی ڈرون حملےیوکرین کی فوج نے گزشتہ رات کے دوران کئی علاقوں پر روس کی جانب سے ڈرون حملوں کی اطلاع دی ہے۔
جنوبی شہر مائکولائیو کے میئر اولیکسینڈر سینکیوچ نے کہا کہ شہر میں "دھماکے کی آوازیں سنی گئیں"۔ تاہم فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا کوئی جانی نقصان ہوا ہے یا نہیں۔امریکہ کے ساتھ مذاکرات: کیا یورپ یوکرین کے معاملے میں اہمیت اختیار کر گیا ہے؟
آج پیر کے روز دارالحکومت کییف سمیت متعدد شہروں کے رہائشیوں پر مقامی حکام نے ڈرون حملوں کے خطرے کے پیش نظر فوری طور پر قریبی پناہ گاہوں میں پناہ لینے کی تاکید کی۔ البتہ روسی فوج نے ان تازہ حملوں سے متعلق ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ادارت: رابعہ بگٹی
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنگ بندی کا اعلان جنگ بندی کی خلاف کی جانب سے میں توسیع نے اتوار کا الزام کے روز کے لیے روس کی نے ایک
پڑھیں:
پاک افغان کشیدگی اور ٹرمپ کا کردار
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے خاتمے، جنگ بندی جاری رکھنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے استنبول میں قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سردست اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ دونوں ممالک جنگ بندی جاری رکھیں گے۔ چھے روزہ مذاکرات کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس کے مطابق 25 سے 30 اکتوبر تک پاک افغان مذاکرات کا اول مقصد دوحہ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی معاہدے کو مزید مستحکم بنانا تھا۔
استنبول اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ جنگ بندی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی کا مشترکہ نظام تشکیل دیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے ملک پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ جنگ بندی کے قواعد و ضوابط طے کرنے اور دو طرفہ امن کو یقینی بنانے کے لیے مذاکرات کا تیسرا دور 6 نومبر سے استنبول میں ہوگا جس میں معاملات کو حتمی شکل دیے جانے کا امکان ہے۔
افغان طالبان کے ساتھ دوحہ قطر سے استنبول ترکیہ تک ہونے والے دو مذاکراتی دورکے بعد بھی معاملات کا طے نہ پانا، اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ افغان طالبان دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے جائز مطالبات پر بالخصوص کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف موثر، ٹھوس اور عملی اقدام کے حوالے سے پوری طرح سنجیدہ نہیں ہیں۔
پاکستان کی جانب سے دو ٹوک لفظوں میں افغان حکومت پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کی گئی تو پاکستان کسی صورت برداشت نہیں کرے گا اور اپنی سلامتی و دفاع کو یقینی بنانے کے لیے افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
باخبر اطلاعات کے مطابق پاک افغان مذاکرات کے دوران اگرچہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے واضح موقف اختیار کیا جب کہ افغان مذاکرات کار اپنے رویوں، لہجے اور موقف میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے مذاکراتی عمل کے دوران ٹھوس بات کرنے سے گریزاں نظر آئے جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ افغان طالبان معاہدہ کرنے کے باوجود اس کی تمام شقوں پر کماحقہ عمل درآمد کرانے میں سنجیدہ نہیں ہیں جس کا اندازہ طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے اس بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں انھوں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں کشیدگی پیدا کرنے کے بجائے اپنے اندرونی سیکیورٹی مسائل کو حل کرے۔ افغان سفیر نے بھی ایک غیر سنجیدہ بیان دے کر سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی جس پر پاکستان نے احتجاج کیا جو ناقابل فہم نہیں۔
6 نومبر کو استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ مذاکرات کے باوجود جنگ بندی تو ہو گئی لیکن پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ نہ رک سکا۔ چار روز پیشتر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں بھارتی پراکسی فتنہ الہندوستان کے اہم کمانڈر سمیت 24 دہشت گرد ہلاک ہو گئے، اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔
دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے بڑی وضاحت کے ساتھ ایک مرتبہ پھر یہ کہا ہے کہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ عسکری قیادت کا یہ دو ٹوک اعلان ہے کہ ملک کے دونوں اہم صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرکے دونوں صوبوں کو دہشت گردی سے پاک کیا جائے گا۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بھی اعتراف کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کے پی کے عوام کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور صوبے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے میں سب کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ افغان طالبان کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بھارتی پشت پناہی میں اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا کر خود اپنی راہ میں مشکلات کھڑی کر رہا ہے بعینہ خطے کے امن کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے، قطر اور ترکیہ کی ثالثی قابل تعریف لیکن خطے کے امن کے لیے چین، ایران، روس اور امریکا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی میں جو کردار ادا کیا پاکستان اور دنیا اس کی معترف ہے۔ ٹرمپ کو پاک افغان جنگ بندی میں بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔