مودی کا دورہ سعودی عرب: تیل، تجارت اور اسٹریٹیجک شراکت داری کی نئی راہیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی منگل کو سعودی عرب کے شہر جدہ پہنچے، جو بطور وزیر اعظم ان کا تیل سے مالا مال اس خلیجی مملکت کا تیسرا دورہ ہے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب بھارت اپنی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے لیے توانائی کے وسائل کو یقینی بنانے اور سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دورے کا پس منظرنریندر مودی کا یہ دورہ ایک روز قبل نئی دہلی میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے ساتھ اعلیٰ سطحی بات چیت کے بعد شروع ہوا ہے، جس میں بھارت نے واشنگٹن کے ساتھ ایک ممکنہ تجارتی معاہدے پر تبادلہ خیال کیا اور امریکی محصولات سے بچنے کی حکمت عملی اپنائی۔
(جاری ہے)
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مودی کے سعودی عرب کے اس دورے سے بھارت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات واضح ہوتی ہیں، جو انرجی سکیورٹی، معاشی ترقی اور علاقائی تعاون پر مبنی ہیں۔
نئی دہلی میں وزیر اعظم مودی کے دفتر کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''بھارت سعودی عرب کے ساتھ اپنے طویل اور تاریخی تعلقات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جو حالیہ برسوں میں اسٹریٹیجک گہرائی کے ساتھ ساتھ تیز رفتار بھی ہو چکے ہیں۔ ہم نے باہمی طور پر فائدہ مند اور مضبوط شراکت داری قائم کی ہے۔‘‘
توانائی اور تجارت جیسے شعبوں میں تعاونسعودی عرب کئی برسوں سے بھارت کے لیے تیل کا ایک اہم سپلائر رہا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق سعودی عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت کے لیے تیل کا تیسرا بڑا فراہم کنندہ ملک ہے۔ بھارت کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بڑے پیمانے پر پٹرولیم کی درآمدات پر انحصار کرتی ہے اور سعودی عرب اس ضرورت کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔نریندر مودی نے اپنے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ دونوں ممالک ریفائنریز اور پیٹروکیمیکلز کے شعبوں میں مشترکہ منصوبوں پر غور کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ''ہم بھارت، سعودی عرب اور وسیع تر خطے کے درمیان بجلی کے گرڈ اسٹیشنوں کی باہمی ربط کاری کے لیے فیزیبیلٹی اسٹڈیز پر کام کر رہے ہیں۔‘‘ مبصرین کے مطابق یہ منصوبے دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں بھارتی کمیونٹی کا کردارسعودی عرب میں 20 لاکھ سے زائد بھارتی شہری مقیم ہیں، جو سعودی لیبر مارکیٹ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
یہ بھارتی ورکرز سعودی عرب کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر و تکمیل میں شامل رہے ہیں اور ہر سال اربوں ڈالر کی ترسیلات زر بھارت بھیجتے ہیں۔ مودی اپنے دو روزہ دورے کے دوران جدہ میں بھارتی کمیونٹی کے ارکان سے ملاقات کریں گے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان سماجی اور معاشی رابطوں کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اسٹریٹیجک تعلقات اور عالمی تناظرسعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور نریندر مودی کے درمیان قریبی روابط کی بدولت حالیہ برسوں کے دوران بھارت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات نمایاں طور پر مضبوط ہوئے ہیں۔
ان دونوں رہنماؤں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے دوران گہرے باہمی تعلقات کی بنیاد رکھی تھی۔ صدر ٹرمپ اگلے ماہ سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں، جو ان کا اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران پہلا غیر ملکی دورہ ہو گا۔ یہ امر بھارت، سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان سہ فریقی اسٹریٹیجک تعاون کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب میں بھارتی کمیونٹی کی اہمیت اور نئے مشترکہ منصوبوں کی پلاننگ اس دورے کی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ دورہ نہ صرف بھارت کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے بلکہ خطے میں اس کے اسٹریٹیجک اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوششوں کا حصہ بھی ہے۔
ادارت: مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سعودی عرب کے کے درمیان میں بھارت کے مطابق کے دوران کی اہمیت کے ساتھ رہے ہیں رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی، بھارتی ریاست کی بوکھلاہٹ آشکار
مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں عوامی نمائندوں کو نظر بند کر کے نام نہاد جمہوریت کو بے نقاب کر دیا۔
کشمیری شہداء کی توہین ہندوتوا نظریے کے تحت مسلم شناخت کو دبانے کی گھناؤنی سازش ہے۔
بھارتی اخبار دی وائر کے مطابق جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے 13 جولائی کو منتخب سرکاری عہدیداران بشمول وزیر اعلیٰ کو گھروں میں نظر بند کر دیا۔
دی وائر نیوز کے مطابق حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور یوم شہداء کی سرکاری تعطیل ختم کر دی گئی تھی، 1931 کا واقعہ کشمیری عوام کی خود مختار سیاسی اور آئینی تشخص کی نمائندگی کرتا ہے۔ بی جے پی کے اپوزیشن لیڈر نے 1931 میں ڈوگرہ حکمران کے ہاتھوں مارے گئے 22 افراد کو غدار قرار دیا۔
بھارتی اخبار کے مطابق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، بی جے پی جلد از جلد جموں و کشمیر کو باقی ملک کے قوانین کے تحت ضم کرنے کی کوشش میں ہے، لیفٹیننٹ گورنر کے آئینی طور پر مشکوک اقدامات جموں و کشمیر کے ساتھ دیگر ریاستوں کے لیے بھی باعث تشویش ہونے چاہئیں۔
دی وائر کے مطابق بی جے پی کے اقدامات کا پہلا مسئلہ قوم پرست تاریخ اور شناخت کی یک جہتی کی سوچ سے جڑا ہے، بی جے پی مرکزی حکومت وفاقی اکائیوں پر اپنا تاریخی بیانیہ تھوپ رہی ہے۔
بی جے پی کا 1931 کے شہداء کو ’’غدار‘‘ کہنا کشمیری جدوجہد کو دبانے کوشش ہے، کشمیریوں کے یادگار دنوں پر پابندی لگانا مودی سرکار کی ذہنی شکست کی علامت ہے۔
مقبوضہ کشمیر پر زبردستی حکمرانی مودی سرکار کی غیر جمہوری سوچ اور آمریت کی عکاس ہے۔ مودی سرکار کے ان جارحانہ اقدامات سے مقبوضہ جموں و کشمیر پر گرفت مضبوط نہیں بلکہ غیر مستحکم ہو رہی ہے۔