انگریز نے 1849میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت ویران اور ناقابل کاشت تھا‘ دور دور تک بیابانی اور دھول ہوتی تھی یا پھر جنگل ہوتے تھے اور ان میں درندے پھرتے رہتے تھے‘ امیر تیمور نے 1398 میں ہندوستان پر حملہ کیا تھا‘ اس زمانے میں دیپال پور سے دہلی تک گھنے جنگل اور دلدلیں تھیں اور ان میں ہاتھیوں کے جھنڈ پھرتے تھے‘ امیر تیمور جیسا بے خوف شخص بھی ان گھنے جنگلوں سے گزرتے ہوئے خوف محسوس کر رہا تھا‘ یہ 6 سو سال پہلے تک پنجاب کی صورت حال تھی‘ انگریز اسے فتح کر کے پریشان ہو گیا‘ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پنجاب لینڈ لاکڈ ہے۔
اس کے ساتھ کوئی سمندر نہیں لہٰذا حکومت کے پاس ریونیو کا کوئی بڑا سورس نہیں تھا اور دوسرا پنجاب کی فتح کے بعد دہلی میں 1857 کی جنگ آزادی شروع ہو گئی اور دہلی سے لے کر کولکتہ تک انگریز افسروں کو بچانے کی ذمے داری پنجاب پر آ پڑی‘ انگریز نے لاہور سے فوج بھجوائی اور اس نے انگریز سرکار اور اہلکاروں کی جان بچائی‘ 1857 کی جنگ نے انگریز کو مالی لحاظ سے کم زور کر دیا‘ ان حالات میں سرچارلس ایچی سن لیفٹیننٹ گورنر بن کر پنجاب آیا‘ وہ لاہور کا ڈپٹی کمشنر اور کمشنر بھی رہا‘ اس نے پورے پنجاب کا دورہ کیا اوروہ اس نتیجے پر پہنچا اگر پنجاب میں نئی نہریں بنا دی جائیں تو ہزاروں میل زمینیں کاشت ہو سکتی ہیں جس سے سرکار کا ریونیو بھی بڑھے گا اور پنجاب میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
پنجاب میں اس سے قبل فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں نہریں بنی تھیں‘ وہ 1351 سے 1388 تک ہندوستان کا بادشاہ رہا اور اس نے تاریخ میں پہلی بار ہندوستان میں نہریں بنائیں‘ وہ اس وجہ سے تاریخ میں فادر آف کینالز کے نام سے مشہور ہوا ‘ بہرحال قصہ مختصر چارلس ایچی سن کی اسٹڈی پر انگریز نے 1882 میں نہروں کے تین منصوبے شروع کیے‘ 1892 میں لوئر چناب کینال شروع ہوئی‘ گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ میں خانکی ہیڈ ورکس بنا اور اس نے گوجرانوالہ ڈویژن کو ہریالہ کر دیا ‘ 1906میں اپر چناب کا منصوبہ شروع ہوا اور یہ 1917میں مکمل ہو ئی‘ ہیڈ مرالہ اسی پراجیکٹ کا حصہ تھا‘ اس نہر نے پنجاب کی چھ لاکھ 48 ہزار ایکڑ زمین سیراب کر دی‘ اپر جہلم تیسرا پراجیکٹ تھا‘یہ 1915 میں شروع ہوئی اور 1917میں مکمل ہو گئی‘ یہ دریائے جہلم سے نکل کر دریائے چناب میں گرتی ہے اور اس سے ضلع گجرات کی بنجر زمینیں آباد ہوئیں‘ انگریز نے ان نہروں پر 9 کالونیاں بنائیں۔
ان میں 10 لاکھ لوگ آباد کیے‘ انھیں سرکاری زمینیں دیں اور یہ لوگ انھیں آباد کرتے چلے گئے‘ سندیانی کالونی ملتان میں تھی‘ سوہاگ کالونی ساہیوال میں تھی جب کہ چونیاں‘ لائل پور اور سرگودھا بھی انگریزوں کی کالونیوں پر آباد ہوئے‘ پنجاب میں اس وقت ایسے 50 شہر ہیں جنھوں نے ان نہروں کی وجہ سے جنم لیا تھا‘ یہ تین نہریں آگے چل کر دنیا میں آب پاشی کا سب سے بڑا نظام بنیں اور ان کی وجہ سے چھ ہزار چار سو 73 میل کا رقبہ کاشت کاری کے قابل ہوا اور اس سے مشرقی اور مغربی دونوں پنجاب کے کروڑوں لوگ مستفید ہوئے‘ اب سوال یہ ہے اگر انگریز 1892 میں یہ قدم نہ اٹھاتا یا اس زمانے کے لوگ نہروں کے خلاف مظاہرے شروع کر دیتے تو کیا آب پاشی کا یہ نظام بنتا اور اگر یہ نہ بنتا تو آج پاکستان میں کیا صورت حال ہوتی! کیا ہم 25کروڑ لوگوں کی ضروریات زندگی پوری کر پاتے؟۔
میں مزید آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دنیا میں میٹھے پانی کے سب سے بڑے سورس قطب شمالی اور قطب جنوبی ہیں‘ دونوں قطبوں پر لاکھوں میل لمبے گلیشیئرز ہیں‘ سردیوں میں ان پر برفیں پڑتی ہیں اور گرمیوں میں یہ گلیشیئرز تھوڑے تھوڑے پگھل کر زیرزمین پانی میں بھی اضافہ کرتے ہیں اور دریاؤں میں بھی پانی بڑھاتے ہیں‘ پانی کا تیسرا بڑا سورس ہمالیہ‘ قراقرم اور کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے ہیں‘ یہ تینوں سلسلے خوش قسمتی سے پاکستان میں جگلوٹ کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں‘ قدرت کے اس عظیم جغرافیائی معجزے کی وجہ سے شمالی اور جنوبی قطبوں کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں‘ بیافو (Biafo) گلیشیئر پاکستان کا طویل ترین گلیشیئر ہے‘ اس کی لمبائی 67 کلومیٹر ہے اور یہ گلگت بلتستان میں قراقرم کے سلسلے میں واقع ہے۔
دریائے سندھ ہزاروں سال سے ان گلیشیئرز سے پانی لیتا ہے اور یہ پاکستان کی لائف لائین ہے‘ دریائے سندھ کے پانی کا سب سے بڑا سورس سیاچن گلیشیئر ہے‘ یہ 22 ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کا بلند ترین میدان جنگ ہے‘ اس پر 1984 سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں موجود ہیں‘ سیاچن کی برفیں 2000 تک سخت ترین ہوتی تھیں لیکن فوجوں کی موجودگی‘ مسلسل گولہ باری اوربرف پر چولہے جلانے‘ کیمپس بنانے اور ہیلی کاپٹروں اوربھاری مشینری کی آمدورفت کی وجہ سے گلیشیئر نرم پڑ رہا ہے وہاں اب باقاعدہ پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب بن رہے ہیں اور گلیشیئر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے یہاں تک کہ 2012ء میںگیاری کے مقام پر برف کا بہت بڑا تودہ فوجی کیمپ پر گر گیا اور 140 جوان شہید ہو گئے‘ سیاچن پاکستان کے لیے پانی کا بہت بڑا سورس ہے‘ ہمیں فوری طور پر اسے بھی بچانا ہو گا اور اس کے لیے سیاچن کی جنگ روکنا ہوگی۔
یہ یاد رکھیں پانی آنے والے وقتوں میں دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہو گا اور اس کی بنیاد پر جنگیں ہوں گی اور پاکستان کا شمار پانی کی کمی کے شکار پہلے دس ملکوں میں ہوتا ہے‘ ہم نے اگر خشک سالی سے بچنا ہے تو پھر ہمیں جنگی پیمانے پر پانی بچانے کی حکمت عملی بنانا ہو گی لیکن آپ المیہ دیکھیے‘ ہم سال کے آٹھ ماہ پانی کی کمی کا شکار رہتے ہیں اور مون سون کے چار مہینے ہم سیلابوں کا لقمہ بنتے ہیں یعنی ہم پانی کی کمی اور زیادتی دونوں کا شکار ہیں‘اب سوال یہ ہے ہم اس پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ ہم پانی کے ذخائر کیوں نہیں بناتے اور ہم سیلاب کے پانی کو محفوظ کیوں نہیں کرتے؟یہ بلین ڈالر کا سوال ہے‘ہمیں چاہیے ہم فوری طور پر آبی گزر گاہوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز‘ تالاب اور خشک نہریں بنائیں تاکہ سیلاب کے دنوں میں پانی ان ذخائر کی طرف موڑ دیاجائے‘ اس سے زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو جائے گی اور خشک اور ویران علاقے بھی کاشت کے قابل ہو جائیں گے۔
دوسرا ہم مدت سے نئی نہروں کے منصوبے بنا رہے ہیں لیکن سیاسی افراتفری کی وجہ سے حکومتیں ان پر توجہ نہیں دے سکیں‘ 2023 میں آرمی چیف نے گرین پاکستان کا منصوبہ شروع کیا‘ اس کے تحت پاکستان میں چھ نہریں بن رہی ہیں اور ان نہروں سے ہزاروں میل کا علاقہ کاشت کے قابل بن رہا ہے لیکن یہ منصوبہ بھی اب سیاست کی نذر ہو رہا ہے‘ سندھ میں احتجاج شروع ہو گیا ہے‘ لوگ سڑکیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں‘ ان کا کہنا ہے پنجاب سندھ کا پانی چوری کر رہا ہے‘آپ اندازہ کریں انگریز نے 1892 سے 1917 تک موجودہ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بنا دیا لیکن ہم 2025 میں ایک نہر کے لیے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر بیٹھے ہیں‘ ملک ایک طرف پانی کی شدید قلت کا شکار ہے اور دوسری طرف ہم نہریں روکنے کے لیے سڑکیں بند کر رہے ہیں‘کیا یہ عقل مندی ہے؟ آپ تین ماہ بعد تماشا دیکھ لیجیے گا۔
جولائی اگست میں بارشیں شروع ہوں گی اور نہروں کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ سیلاب میں غوطے کھا رہے ہوں گے اور اسی فوج سے مدد کی اپیل کر رہے ہوں گے جس پر یہ اس وقت نہر بنانے کا الزام لگا رہے ہیں‘ یہ کھیل آخر کب تک چلے گا‘ ہم کب تک بنیادی ایشوز پر سیاست کرتے رہیں گے؟ پانی‘ نہریں اور ڈیمز ماہرین کے کام ہیں‘ عوام ان کی حساسیت نہیں سمجھ سکتے چناں چہ حکومتوں کو چاہیے یہ فوری طور پر ماہرین اکٹھے کریں‘ ملک کے لیے جامع واٹر پالیسی بنائیں اور ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کریں تاکہ ہم کم از کم پانی کے مسئلے سے تو نکل سکیں‘ پنجاب‘ سندھ‘ کے پی‘ بلوچستان اور کشمیر یہ سب پاکستان ہیں‘ کسی ایک صوبے کا فائدہ یا نقصان پورے ملک کا نقصان یا فائدہ ہو گا‘ ہم یہ حقیقت کیوں نہیں سمجھتے‘ ہم آخر کب تک حماقتوں کے جنگلوں میں بھٹکتے رہیں گے اور کب تک نفرت کے گندے تالاب میں غوطے کھاتے رہیں گے؟ ڈھلوانوں کا یہ سفر اب تو رک جانا چاہیے۔
نوٹ:کراچی کی ایک بزرگ خاتون کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی‘ خواب میں روضہ رسولؐ سے متعلق ایک پیغام ہے‘ خاتون گھریلو عورت ہیں‘ عبادت گزار ہیں‘ ان کا سعودی حکومت کے ساتھ کوئی رابط نہیں اگر کسی صاحب کی سعودی ولی عہد تک رسائی ہو تو یہ مہربانی فرما کر خاتون کا خط ان تک پہنچا دیں‘ اس میں خاتون کی کوئی ذاتی حاجت شامل نہیں ‘ اگر کوئی صاحب اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکتے ہوں تو وہ مہربانی فرما کر میرے نمبر 0300-8543103 پر واٹس ایپ کر دیں‘ میں ان کا خاتون سے رابطہ کرا دوں گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں کا سب سے بڑا کیوں نہیں کی وجہ سے نہروں کے بڑا سورس پانی کی رہے ہیں شروع ہو ہیں اور پانی کے ہے اور رہا ہے کے لیے اور یہ اور ان اور اس
پڑھیں:
بارشوں اور سیلاب سے بھارتی پنجاب میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان
امرتسر(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 ستمبر ۔2025 )ریکارڈ مون سون بارشوں میں بھارتی پنجاب میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے بھارتی ریاست پنجاب میں مرجھائی ہوئی فصلوں سے بھرے کھیت، ہوا میں سڑتی ہوئی فصلوں اور مویشیوں کی بدبو بھری ہوئی ہے برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ریاست پنجاب کو بھارت کا ”غلہ گھر“ کہا جاتا ہے تاہم رواں سال طوفانی بارشوں اور سیلاب نے کھیتوں کو نگل لیا ہے ، متاثرہ کھیتوں کا رقبہ لندن اور نیویارک سٹی کے برابر بنتا ہے.(جاری ہے)
بھارت کے وزیر زراعت نے حالیہ دورہ پنجاب میں کہا کہ فصلیں تباہ اور برباد ہو گئی ہیں جب کہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اس تباہی کو دہائیوں میں بدترین سیلابی آفت قرار دیا ہے امرتسر سے 30 کلومیٹر شمال میں واقع شہزادہ گاﺅں کے رہائشی 70 سالہ بلبیر سنگھ نے کہا کہ پرانی نسل کے لوگ بھی اتفاق کرتے ہیں کہ آخری بار ایسا سب کچھ تباہ کرنے والا سیلاب ہم نے 1988 میں دیکھا تھا ابلتے پانی نے بلبیر سنگھ کے دھان کے کھیت کو دلدل میں بدل دیا اور ان کے مکان کی دیواروں میں خطرناک دراڑیں ڈال دی ہیں. جون سے ستمبر کے دوران برسات کے موسم میں سیلاب عام ہیں لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی اور غیر منصوبہ بند ترقی ان کی تعداد، شدت اور اثرات کو بڑھا رہی ہے. محکمہ موسمیات کے مطابق اگست میں پنجاب میں اوسط کے مقابلے میں بارش تقریباً دو تہائی بڑھ گئی جس سے کم از کم 52 افراد ہلاک اور 4 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پنجاب کے لیے تقریباً 18 کروڑ ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے تور گاﺅں تباہ حال ہے، جہاں اجڑے کھیت، مویشیوں کی لاشیں اور گرے ہوئے مکانات کا ملبہ ہر طرف بکھرا ہے، کھیت کے مزدور سرجن لال نے بتایا کہ 26 اگست کو نصف شب کے بعد پانی آیا یہ چند منٹوں میں کم از کم 10 فٹ تک پہنچ گیا. سرجن لال نے کہا کہ پنجاب کے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع گرداس پور کا یہ گاﺅں تقریباً ایک ہفتے تک پانی میں گھرا رہا ہم سب چھتوں پر تھے ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ پانی سب کچھ بہا لے گیا ہم جانور اور بستر تک سے محروم ہوگئے ان کے قریبی سرحد کے آخری بھارتی گاﺅں لَسیا کا کسان راکیش کمار اپنے نقصان گن رہا تھا اپنی زمین کے علاوہ میں نے اس سال کچھ زمین لیز پر بھی لی تھی میری ساری سرمایہ کاری برباد ہو گئی. راکیش کمار کو مستقبل دھندلا لگ رہا ہے، اسے خدشہ ہے کہ اس کے کھیت وقت پر گندم بونے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، جو پنجاب کی پسندیدہ ربیع کی فصل ہے، انہوں نے کہا کہ پہلے یہ سارا کیچڑ سوکھے گا اور پھر ہی بڑی مشینیں آ کر مٹی کو صاف کر سکیں گی عام حالات میں بھی، یہاں بھاری مشینری لانا ایک مشکل کام ہے کیونکہ یہ علاقہ مرکزی زمین سے ایک عارضی پل (پونٹون برج) کے ذریعے جڑتا ہے جو صرف خشک مہینوں میں چلتا ہے. زمین سے محروم مزدور 50 سالہ مندیپ کور کی غیر یقینی اور بھی زیادہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم بڑے زمینداروں کے کھیتوں میں مزدوری کر کے روزی کماتے تھے مگر اب وہ سب ختم ہو گئے اس کا مکان پانی میں بہہ گیا اور اسے صحن میں ترپال کے نیچے سونا پڑ رہا ہے یہ خطرناک صورت حال ہے کیوں کہ سانپ ہر طرف نم زمین پر رینگتے ہیں پنجاب بھارت کے غذائی تحفظ پروگرام کے لیے چاول اور گندم کا سب سے بڑا سپلائر ہے جو 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو رعایتی اناج فراہم کرتا ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کے نقصانات سے اندرونِ ملک سپلائی کو خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ بڑے ذخائر موجود ہیں، مگر اعلیٰ درجے کے باسمتی چاول کی برآمدات متاثر ہونے کا امکان ہے نئی دہلی میں انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اویناش کشور نے کہا کہ اصل اثر باسمتی چاول کی پیداوار، قیمتوں اور برآمدات پر ہوگا کیونکہ بھارتی اور پاکستانی پنجاب دونوں میں پیداوار کم ہوگی.