کلاسیکی تحریک کے اردو اد ب پر اثرات
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
فنون لطیفہ ہو یا شعرو ادب ،کلاسیکل تحریک ایسی تحریک کو کہا جاتا ہے جو قدیم یونانی ،رومی اور تاریخ کے ابتدائی ادوار کے اصولوں، جمالیات اور فکری اقدارو روایات کو اپنا موضوع بناتی ہے۔اردو ادب کی تاریخ لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’اردو ادب میں کلاسیکی تحریک براہ راست،تو مغرب کی طرح ایک منظم تحریک کے طور پر نہیں آئی،لیکن اس کا اثر فارسی اور عربی کلاسیکی ادب کے ذریعے ابتدا ہی سے اردو شاعری اورنثر میں موجود رہا‘‘۔
کلاسیکی تحریک کے زیر اثرتخلیق ہونے والے ادب کابنیادی وصف یہ رہا ہے کہ اس میں سادگی ،توازن ،ترتیب و تہذیب اور اخلاقی اقدار و روایات کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ اردو کے شعری ادب میں خصوصاً غزل میں عشق و محبت اور اخلاقیات جیسے موضوعات باندھے جاتے رہے ہیں ۔ جسے عرف عام میں کلاسیکی روایت کانام دیا جاتا ہے۔ اردو داستان اور مثنوی میں بھی مذکورہ روایات کا اثر بہر حال ملتا ہی ہے خصوصاً قصہ گوئی میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا رہا ۔
کلاسیکی ادب میں عموماً فطرت ،انسانی کردار ،اخلاقی روایات اور فلسفیانہ حیات کے مستقل اصولوں پر ارتکاز کیا گیا۔شمالی ہندوستان کے شعرا میر انیس ،ولی دکنی ،میر تقی میر ،سودا اور نظیر اکبر آبادی کے اسلوب نگارش میں جوسادگی،اور تہذیبی تواز ن جھلکتا ہے وہ کلاسیکیت کے فارسی اسلوب کا آئینہ دار ہے۔
انیسویں صدی میں جب بدیشی ادب کے تراجم کے چل چلائو کا زمانہ آیا تو مغربی کلاسیکی تحریک کے قواعد و ضوابط اپنے جلو میں لئے ہوئے ہی آیا۔ یوں معروضیت کی روایت کو بھی تقویت حاصل ہوئی اور اردو ادب میں تنقیدی اصول بھی اسی تناظر میں مرتب کئے گئے اور یہ کلاسیکی شعور کی بیداری کا سنہری دور تھا جس میں قدیم ادب کی آبیاری و پاسداری کا رواج عام ہوا۔ادب قدیم ہو یا جدید اس میں اگر فکری اور تہذیبی شعور کا فقدان ہو تو ہم اسے عمدہ ادب نہیں کہہ سکتے ۔کیونکہ انسانی تہذیب کی قدیم ادبی روایات کی بنیاد عقل ، منطق ،اصول پسندی اور اعتدال پر مبنی رہی ہے۔جو آج بھی توازن اور اعتدال کو معیاری ادب کا مستحکم حوالہ تصور کیا جاتا ہے ۔
یو نان اور روم کی قدیم تہذیب جہاں افلاطون ،ارسطو ،ہیروڈس،ہومراور سافیکل جیسے نابغہ روزگار لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے ادب و فن کے لئے اصول وضع کئے ،ان کے نکتہ نظر کے مطابق ’’ادب کا مقصد کردار سازی ،اخلاقی تربیت اور فطرت کے حسن و توازن کا اظہار تھا‘‘۔
رومی ادب کے امتزاج اس حسن کو دوبالاکردیا۔پھر اس کے بعد جب مغر ب نے نئی کروٹ لی جسے نشاہ الثانیہ (Renaissance) کہا جاتا ہے تو مغرب نے نئے تہذیبی شعور کے ساتھ کلاسیکی اقدار کو گلے لگایا،یوں سترھویں اور اٹھارہویں صدی میں انگلستان اور فرانس میں کلاسیکی تحریک کے طفیل ایک بار پھر اد بی ماحول کی فضا بنی اور ڈرائیڈن ودیگر معتبر ادیبوں نے کلاسیکی تحریک کے زیر سایہ نئے ادبی اصول مرتب کئے ۔ اور ادب جو عقل و شعورسے ماورا جذباتیت کے اظہار کاذریعہ بن کے رہ گیا تھا اس میں ایک عقل و خرد اور استدلال نے جگہ پالی ۔
یہ ایک ادبی معجزہ تھا جس میں نئے اخلاقی قواعدوضوابط ترتیب دیئے گئے ،زندگی کی صداقتوں کو ادب کا موضوع بنایا گیا۔ادب اور فنون لطیفہ کے نئے سانچے ڈھالے گئے اور پیش پا افتادہ خیالات کے کہنہ پیریوں معیوب سمجھ کر ان سے انحراف کو ادبی مزاج کا لازمہ بنایا گیا۔ حقیقت پسندی کو شعار بنایا گیا ۔ زندگی کی تلخیاں ادب کا تازہ موضوع بنیں ۔پھر جب اظہار پر پابندیوں کی روش چلی تو علامت و تجرید بھی ہتھیار بنے ۔
مگر جو حسن کلاسیکی ادب میں ہے اس کا نکھار کوئی نہیں چھین سکا۔اردو ادب نے فقط کلاسیکی تحریک کا اثر ہی قبول نہیں کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر شعرو ادب ، فلسفہ و نفسیات میں جو بھی معروضی تبدیلیاں آئیں انہیں اپنی روح میں جذب کیا ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کی کوئی تحریک کامیاب ہوگی، شرجیل میمن
حیدرآباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سندھ کے سینئر وزیر نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اپنی اسٹیٹ کے خلاف بیانیے کو تبدیل کریں، واحد حل بات چیت ہے، بات چیت کے ذریعہ اپنی بات کریں۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ کے سینئر وزیر برائے اطلاعات و ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ حکومت کو کسی بھی تحریک سے کوئی خطرہ نہیں، مجھے نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کی کوئی تحریک کامیاب ہوگی۔ حیدرآباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ پاک بھارت لڑائی میں فوجی اور سویلین شہدا کو یاد رکھیں، فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو یاد رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ عید کا دن نمازوں اور قربانی کے ساتھ اتحاد کا دن ہوتا ہے، میری زندگی میں یہ پہلی عید ہے جو فاتح قوم کےطور پر منارہے ہیں، بھارت کو پاکستان نے عبرتناک شکست سے دوچار کیا، یہ جنگ ہماری بہادر افواج، سیاسی قیادت اور عوام نے مل کر لڑی۔ ان کا کہنا ہے کہ عید کے روز 2022ء کے سیلاب متاثرین کو یاد رکھیں گے، سیلاب متاثرین کےلیے بلاول بھٹو کی ہدایت پر 21 لاکھ گھر بنارہے ہیں، مئی میں ہم 8 لاکھ گھر بنانے کا ریکارڈ توڑ چکے ہیں، سولر سسٹم بھی مفت تقسیم کیے جارہے ہیں۔
شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ کا بجٹ 13 جون کو پیش ہوگا، کوشش ہے عوام کو ریلیف دیں، وفاقی حکومت بھی کوشش کرے گی کہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ بجٹ میں صحت اور تعلیم کو خصوصی توجہ دی ہے، ایم کیو ایم کی شعلہ بیانی اس کی مجبوری ہے، ہم سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اپنی اسٹیٹ کے خلاف بیانیے کو تبدیل کریں، واحد حل بات چیت ہے، بات چیت کے ذریعہ اپنی بات کریں۔ انہوں نے بتایا کہ علیم خان آئے تھے، وعدہ کیا تھا کہ حیدرآباد سکھر موٹروے بنانے جارہے ہیں، اس سڑک پر سندھ کی نہیں پورے ملک کی ٹرانسپورٹ چلے گی، اسی سال حیدرآباد کو ای وی بسیں ملیں گی، مفت پنک اسکوٹر بھی بہنوں اور بچیوں کو دینے جارہے ہیں۔