اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان اور بھارت کے تعلقات قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک غیر یقینی حالات کا شکار رہے ہیں۔ سفارتی روابط سے لے کر ثقافتی منصوبوں تک، دونوں ممالک کے تعلقات بار بار بحال ہوئے اور پھر ٹوٹ گئے۔ یہی حال دو طرفہ معاہدات کا بھی رہا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کے بعد، جس کا الزام بھارت نے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر پاکستان پر لگا دیا، نئی دہلی نے فوری طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔ پاکستان کے درمیان اب تک کون کون سے معاہدے طے پاچکے ہیں؟

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد دریائے جہلم اور نیلم کی کیا صورتحال ہے؟

1950 کا نہرو-لیاقت معاہدہ:

یہ معاہدہ  اقلیتوں کے تحفظ کے لیے تھا جس میں دونوں ممالک نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ یہ معاہدہ تقسیم ہند کے بعد فسادات کے تناظر میں طے پایا۔

1960 کا سندھ طاس معاہدہ:

  سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا۔ یہ  دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق تھا۔ اس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کو اور مشرقی دریاؤں کا پانی بھارت کو دیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ 65 سال تک نافذ رہا اور جنگوں کے باوجود برقرار رہا لیکن اب مودی سرکار نے اسے معطل کردیا ہے۔

پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ، آگے کیا ہوسکتا ہے؟ سی این این کی رپورٹ آگئی

1972 کا شملہ معاہدہ:

یہ  1971 کی جنگ کے بعد طے پایا۔ شملہ معاہدہ  دونوں ممالک کو باہمی طور پر مسائل حل کرنے کا پابند بناتا تھا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 ختم کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔

مذہبی زیارات کا معاہدہ:

سنہ 1974 کے مذہبی زیارات کے پروٹوکول کے تحت دونوں ممالک کے زائرین کو ایک دوسرے کے ممالک میں مقدس مقامات پر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان میں 15 اور انڈیا میں پانچ مذہبی مقامات کیلئے ویزے جاری کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔اس معاہدے کے تحت پاکستان نے سکھ زائرین کو تین ہزار ویزے جاری کرنے تھے لیکن رواں سال ریکارڈ چھ ہزار 751 ویزے جاری کیے جب کہ انڈیا نے صرف 100 پاکستانیوں کو ویزے دیے۔

باہمی رضا مندی کے بغیر مزید کوئی نہر نہیں بنائی جائے گی، وزیر اعظم شہباز شریف

جوہری تنصیبات کے تحفظ کا معاہدہ:

دونوں ملکوں میں 1988 میں جوہری تنصیبات پر حملوں کی ممانعت کا معاہدہ طے پایا جس کے تحت دونوں ممالک ہر سال اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست ایک دوسرے کو فراہم کرتے ہیں۔ اس معاہدے کا نفاذ 27 جنوری 1991 کو ہوا اور اس کے بعد سے دونوں ملک ہر سال یکم جنوری کو جوہری تنصیبات کی دستاویزات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی جوہری تنصیبات کا بلا واسطہ یا بالواسطہ نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

فضائی حدود کی خلاف ورزی کا معاہدہ:

لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کے درمیان میچ کا ٹاس ہو گیا

6 اپریل 1991 کو نئی دہلی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کا مقصد پڑوسی ممالک کے درمیان حادثاتی یا غیر ارادی ہوائی حدود کی خلاف ورزی کے خطرے کو کم کرنا تھا۔ اس معاہدے میں فوجی طیاروں کے لیے قواعد و ضوابط طے کیے گئے کہ وہ ایک دوسرے کی ہوائی حدود سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر رہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی بھی طیارہ دوسرے ملک کے  سرحدی پانیوں کی حدود میں بغیر  پیشگی اجازت کے داخل نہیں ہو سکتا۔

لاہور اعلامیہ:
یہ اعلامیہ فروری 1999 میں سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور ان کے ہم منصب نواز شریف کے درمیان بھارتی وزیر اعظم کے پاکستان کے دورے کے دوران دستخط ہوا۔ اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا کہ "امن اور سلامتی کا ماحول دونوں اطراف کے اعلیٰ قومی مفاد میں ہے اور تمام حل طلب مسائل، بشمول جموں و کشمیر کا حل اس مقصد کے لیے ضروری ہے"۔ انہوں نے یہ بھی اتفاق کیا کہ وہ "تمام مسائل، بشمول جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کو تیز کریں گے۔

پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت ہے:شاہد خاقان عباسی

بیلسٹک میزائل تجربات  کی پیشگی اطلاع کا معاہدہ:
یہ معاہدہ 2005 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان  طے پایا ۔ اس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک بیلسٹک میزائل کے تجربے سے کم از کم تین دن پہلے  ایک دوسرے کو اطلاع دیں گے۔ معاہدے کے مطابق ہر فریق کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ تجرباتی پرواز کا مقام بین الاقوامی سرحد یا کنٹرول لائن سے 40 کلومیٹر کے اندر نہ ہو، اور منصوبہ بند اثر والا علاقہ 75 کلومیٹر کے اندر نہ ہو۔ یہ معاہدہ اب بھی قابل عمل ہے۔ تاہم گزشتہ سال پاکستان نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ اس معاہدے کی مکمل پابندی نہیں کر رہا ۔

جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرے کو کم کرنے پر معاہدہ:
جوہری حادثات پر معاہدہ 21 فروری 2007 کو پانچ سال کی ابتدائی مدت کے لیے نافذ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت، دونوں ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت اور سلامتی کو بہتر بنانے،  ایک دوسرے کو کسی بھی جوہری حادثے کی اطلاع دینے، اور ایسے حادثے کے تابکاری اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا عہد کیا۔ مزید برآں دونوں ممالک میں سے ہر ایک جوہری حادثے کی صورت میں پابند ہے کہ وہ اپنے اقدامات کو دوسرے فریق کی طرف سے غلط سمجھے جانے سے روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ 2012 اور 2017 میں معاہدے کو پانچ پانچ سال کے لیے مزید بڑھا دیا گیا۔

لائن آف کنٹرول  (ایل او سی) پر جنگ بندی کا معاہدہ:
نومبر 2003 میں پاکستان اور بھارت نے کنٹرول لائن اور ورکنگ بارڈر پر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ معاہدہ کچھ سالوں تک قائم رہا لیکن 2008 سے باقاعدہ خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ دریں اثنا 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے  کے بعد جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ۔ سنہ 2021 میں دونوں ممالک نے دوبارہ معاہدے کی پابندی کا عہد کیا۔ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، دونوں اطراف نے موجودہ طریقہ کار  ہاٹ لائن رابطہ اور فلیگ میٹنگز  کو دوبارہ زندہ کرنے پر اتفاق کیا تاکہ "کسی بھی غیر متوقع صورت حال یا غلط فہمی" سے نمٹا جا سکے۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت اس معاہدے کے تحت سندھ طاس معاہدہ جوہری تنصیبات دونوں ممالک پاکستان کے کا معاہدہ ایک دوسرے کے درمیان یہ معاہدہ کی خلاف طے پایا کے بعد کے لیے

پڑھیں:

بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان پر اس کے مضمرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) جنوبی ایشیا کے جوہری طاقت رکھنے والے دو حریف بھارت اور پاکستان کے درمیان پچھلے پچہتر سال کے دوران کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں کے درمیان بیشتر اوقات تعلقات کشیدہ رہے ہیں، تاہم پانی کے ایک اہم وسیلے سے متعلق چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے قبل کیا گیا سندھ طاس آبی معاہدہ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔

لیکن، بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے اہم سیاحتی مقام پہلگام میں گزشتہ منگل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے، جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے، نے اس معاہدے کو بھی متاثر کردیا۔ بھارت نے اپنی طرف سے اس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

پاک بھارت سندھ طاس معاہدے سے متعلق تنازعہ ہے کیا؟

بھارتی وزارت خارجہ کے سکریٹری وکرم مصری نے معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، "1960 کا سندھ آبی معاہدہ اب سے اس وقت تک غیر نافذ العمل رہے گا، جب تک کہ پاکستان قابل اعتبار اور ٹھوس طور پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا"۔

(جاری ہے)

سن 1960 کا سندھ طاس آبی معاہدہ دونوں دیرینہ حریف پڑوسیوں کو دریائے سندھ کے پانی تک مشترکہ رسائی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

سندھ طاس آبی معاہدہ کیا ہے؟

ملک کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس آبی معاہدہ ستمبر 1960 میں عمل میں آیا تھا۔

سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کو تشریح کا حق نہیں، بھارت

اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے عوام اور بالخصوص کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہو گا۔

معاہدے کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس پر کنٹرول دیا گیا جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر کنٹرول سونپا گیا۔ اس کے تحت ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

یہ معاہدہ بھارت کو مغربی دریاؤں پر ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس تیار کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے، لیکن ان منصوبوں کو سخت شرائط پر عمل کرنا چاہیے۔ انہیں "رن آف دی ریور" پروجیکٹ ہونا چاہیے، مطلب یہ ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ یا ذخیرہ کو نمایاں طور پر تبدیل نہیں کر سکتے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ پاکستان کے پانی کے حقوق بہاو والے ملک کے طور پر بری طرح متاثر نہ ہوں۔

یہ معاہدہ پاکستان کو کسی ایسے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھانے کی بھی اجازت دیتا ہے جو پانی کے بہاؤ کو متاثر کر سکتا ہو۔

معاہدے کی معطلی کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟

پاکستان، جو معاہدے کے ت‍‍حت دریائے سندھ سے تقریباً 80 فیصد پانی حاصل کرتا ہے، ان دریاؤں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ سسٹم میں موجود 16.8 کروڑ ایکڑ فٹ پانی میں سے بھارت کو تقریباً 3.3 کروڑ ایکڑ فٹ پانی مختص کیا گیا ہے۔

اس وقت، بھارت اپنے اجازت شدہ حصے کا 90 فیصد سے کچھ زیادہ استعمال کرتا ہے، جس کی وجہ سے باقی ماندہ حصہ پر پاکستان کا بہت زیادہ انحصار ہے۔

یہ انحصار انتہائی اہم بلکہ ناگزیر ہے۔ یہ دریا پاکستان کے زرعی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کروڑوں افراد کی آبادی کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ملک کی 23 فیصد زرعی پانی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے جب کہ تقریباً 68 فیصد دیہی معاش کی براہ راست مدد کرتا ہے۔

اس سپلائی میں کوئی بھی رکاوٹ بڑے پیمانے پر منفی نتائج کو جنم دے سکتی ہے۔ مثلاﹰ فصلوں کی پیداوار میں کمی، غذائی عدم تحفظ، اور مزید معاشی عدم استحکام، خاص طور پر ان خطوں میں جو پہلے ہی غربت اور جاری مالیاتی بحران کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیموں کا مشترکہ لائیو اسٹوریج صرف 14.4 ملین ایکڑ فٹ ہے جو کہ معاہدے کے تحت پاکستان کے سالانہ استحقاق کا محض 10 فیصد ہے۔

پانی کے بہاؤ میں کمی یا موسمی تغیر کے وقت، ذخیرہ اندوزی میں یہ کمی پاکستان کو شدید خطرات سے دوچار کر دیتی ہے۔ بھارتی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

پردیپ کمار سکسینہ، جنہوں نے چھ سال سے زائد عرصے تک بھارت کی جانب سے سندھ آبی کمشنر کے طور پر کام کیا، کا کہنا ہے کہ "اگر حکومت (ہند) نے ایسا فیصلہ کیا ہے تو یہ معاہدہ منسوخ کرنے کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔

"

انہوں نے کہا،"اگرچہ معاہدے میں اس کی منسوخی کے لیے کوئی واضح شق موجود نہیں ہے، لیکن معاہدوں کے قانون سے متعلق ویانا کنونشن کا آرٹیکل 62 کافی گنجائش فراہم کرتا ہے جس کے تحت حالات کی بنیادی تبدیلی کے پیش نظر معاہدے کو رد کیا جا سکتا ہے جو کہ اس معاہدے کے اختتام کے وقت موجود ہیں"۔

سابق بھارتی انڈس واٹر کمشنر سکسینہ کا کہنا تھا کہ دریا چونکہ بھارت کی طرف سے پاکستان کی جانب بہتے ہیں، اس لیے بھارت کو متعدد اختیارات حاصل ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال، بھارت نے پاکستان کو ایک باضابطہ نوٹس بھیجا تھا، جس میں اس معاہدے پر نظرثانی اور ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پاکستانی ماہرین کی رائے

سابق پاکستانی سفارت کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی 1960 میں عالمی بینک کی ضمانت میں طے پانے والے دو طرفہ سندھ آبی معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار نہیں ہو سکتا۔

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایک پاکستانی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر نہ تو معطل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

انہیں خیالات کی تائید کرتے ہوئے، پاکستان کے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا کیونکہ وہ "سازش کے تحت پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے"۔

انہوں نے ایک پاکستانی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ سندھ طاس معاہدہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان دو طرفہ بین الاقوامی معاہدہ ہے اور ا"گر مودی کی زیر قیادت حکومت پاکستان کا پانی روکتی ہے تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور جنگ کے مترادف ہو گا۔"

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا، "سندھ طاس معاہدہ تو جنگ میں بھی معطل نہیں ہوتا، پانی تو جنگ میں بھی بند نہیں ہوتا لیکن لگتا ہے بھارت معاملہ انتہا کی طرف لے کر جا رہا ہے۔

" کیا معاہدہ ختم کرنا ممکن ہے؟

جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے تنازع پر ایک کتاب کے مصنف اور سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے مصنف پروفیسر امت رنجن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے اگر دونوں میں سے کوئی ایک ملک بھی یکطرفہ طور پر نکلنا چاہے تو وہ نہیں نکل سکتا۔

وہ کہتے ہیں کہ ویانا کنونشن کے تحت معاہدہ ختم کرنا یا اس سے الگ ہونے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس پہلو کا اطلاق سندھ طاس معاہدے پر نہیں ہو گا۔

پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسلام آباد حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا ختم نہیں کر سکتا۔

پاکستانی حکومتی ذرائع نے خبردار کیا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان پر پاکستان عالمی بینک سے ثالثی عدالت کے لیے رجوع کر سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگست 2019 میں بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں نمایاں تنزلی آئی ہے۔

تب سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد میں مزید کمی آئی ہے۔ اس تیزی سے غیر مستحکم جغرافیائی سیاسی حالات میں آگے بڑھنے کا سب سے قابل عمل راستہ تعاون کے اس جذبے کی طرف واپسی ہے جس میں سندھ طاس آبی معاہدہ پر دستخط کیے گئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ طاس معاہدہ کیا ہے، کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
  • بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد دریائے جہلم اور نیلم کی کیا صورتحال ہے؟
  • بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان پر اس کے مضمرات
  • سندھ طاس معاہدہ کیا ہے ؟ مکمل تفصیل جانئے
  • بھارت کا سندھ طاس معاہدہ معطل ، واہگہ بارڈر بند کرنے کا اعلان
  • بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا، نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن بند کرنے کا اعلان
  • پاکستان بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا، بھارت میں موجود پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم
  • چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے، امریکی صدر
  • پاکستانی وزیراعظم آج ترکی کے دورے پر