25 سال قبل چھتیس سنگھ پورہ میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا، گرپتونت سنگھ
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
خالصتان تحریک کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے بھارت کے مکروہ چہرے کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا کہ بی جے پی کے وزیراعظم واجپائی کے دورمیں 25 سال قبل چھتیس سنگھ پورہ میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چھتیس سنگھ پورہ کے سانحہ کے وقت امریکی صدربل کلنٹن بھارت کے دورے پر آ رہے تھے، بل کلنٹن کی بھارت میں موجودگی کے وقت 5 مقامی افراد کو پاکستانی دہشتگرد قرار دیکر قتل کیا گیا تھا۔
رہنما خالصتان تحریک نے بتایا کہ 2006 میں سی بی آئی نے تسلیم کیا کہ مارے گئے پانچوں مقامی افراد بے گناہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ چھتیس سنگھ پورہ سانحہ کے حقائق 25 سال بعد منظرعام پر آگئے، چھتیس سنگھ پورہ آپریشن کو لیڈ کرنیوالے بھارتی فوج کےکیپٹن نے سانحہ کے حقائق بتائے۔
رہنما خالصتان تحریک بتایا کہ بھارتی فوج کا کپتان راٹھور کئی سال تک مفرور رہنے کے بعد مجھے امریکہ میں ملا، کیپٹن راٹھور نے میرے دفتر میں آ کر سانحہ چھتیس سنگھ پورہ کے ہوشربا انکشافات کئے۔
گرپتونت سنگھ پنوں نے بتایا کہ کیپٹن راٹھور نے بہت بار نیویارک میں میرے آفس میں ملاقات کی، بھارتی فوج کیپٹن راٹھور کو عرصہ دراز سے تلاش کررہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ کیپٹن راٹھور نے اعتراف کیا کہ چھتیس سنگھ پورہ میں سکھوں کو بیدردی سے قتل کیا گیا۔
کیپٹن راٹھور نے انکشاف کیا کہ 20مارچ 2000 کو ہمیں چھتیس سنگھ پورہ میں سکھوں کو مارنے کے احکامات ملے، میں بھارتی فوج کے فائرنگ اسکواڈ کو لیڈ کر رہا تھا۔
کیپٹن راٹھور نے مزید بتایا کہ بل کلنٹن کی آمد پر چھتیس سنگھ پورا کا فالس فلیگ آپریشن کیا گیا اس وقت میں مظفرآباد، آزاد کشمیر میں بھیس بدل کرخفیہ مشن پر تھاَ۔ چھتیس سنگھ پورہ میں ہم مجاہدین کے روپ میں پہنچے۔
اس نے بتایا کہ چھتیس سنگھ پورہ کے لوگوں نے ہم پر اعتبار کیا، بی جے پی حکومت بل کلنٹن کو یہ باور کرانا چاہتی تھی کہ پاکستان دہشتگردوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔
کیپٹن راٹھور نے کہا کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ چھتیس سنگھ پورہ کے تمام سکھوں کو قتل کرنا ہے، راشٹریہ رائفل کے بریگیڈیئر جے ایس نے آپریشن کو لیڈ کیا تھا۔
کیپٹن راٹھور نے بتایا کہ 20 مارچ کی شام کو ہم نے گاؤں کے 35 سکھوں کو ایک دیوارکے ساتھ کھڑا کر دیا، ہمیں یہ بولا گیا کہ کوئی بھی سکھ زندہ نہیں بچنا چاہئے۔
اس نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ احکامات ملنے کے بعد ہم نے چھتیس سنگھ پورہ کے سکھوں پر گولیاں برسانا شروع کردیں، گولیاں برسانے کے بعد ہم نے یقین دہانی کیلئے مرے ہوئے سکھوں پر دوبارہ فائرنگ کی اور سکھوں کو قتل کرنے کے بعد ہم نے جے ہند کے نعرے لگائے۔
کیپٹن راٹھور کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج نے فائرنگ اسکواڈ کے تمام اہلکاروں کو باری باری قتل کردیا، بھارتی حکومت نے چھتیس سنگھ پورہ کے سارے ثبوت مٹانے کیلئے فائرنگ اسکواڈ کو ٹھکانے لگا دیا۔
کیپٹن راٹھوربتایا کہ میں امریکہ آنے سے پہلے یورپ گیا، پھر وہاں سے جان بچا کر نکلا۔
رہنما خالصتان تحریک نے کہا کہ چھتیس سنگھ پورہ بی جے پی حکومت کا بربریت سے بھرپور سانحہ تھا۔
خالصتان تحریک نے کہا کہ سوال اب بھی وہیں پر موجود ہے کہ سانحہ چھتیس سنگھ پورا کاذمہ دارکون ہے؟
رہنما خالصتان تحریک گرپتونت سنگھ ہرکوئی جانتا ہے کہ انصاف کی کوئی مقررہ میعاد نہیں ہوتی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی
معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی WhatsAppFacebookTwitter 0 4 November, 2025 سب نیوز
گلگت(آئی پی ایس) 1948 کی جنگِ آزادی میں گلگت بلتستان کے جانبازوں نے اپنی جرات، بہادری اور قربانیوں کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔
اسی معرکے کے ایک غازی، علی مدد نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے اس تاریخی جدوجہد کی جھلک پیش کی۔
غازی علی مدد کے مطابق ’’میں 1948 میں گلگت اسکاؤٹس میں بھرتی ہوا۔ جنگ آزادی کے دوران بھارت کی جانب سے ہم پر بمباری کی جاتی تھی۔ دشمن نے اسپتالوں، پلوں اور دیگر اہم مقامات کو نشانہ بنایا، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ اس وقت گلگت اسکاؤٹس کے پاس جدید ہتھیار موجود نہیں تھے، مگر ایمان، عزم اور وطن سے محبت کے جذبے نے انہیں ناقابلِ شکست قوت بخشی۔ ڈمبوداس کے مقام پر ہم نے گلگت اسکاؤٹس کے ساتھ مل کر دشمن پر حملہ کیا۔ کئی دشمن مارے گئے اور تقریباً 80 کو قیدی بنا کر ان کے ہتھیار قبضے میں لے لیے۔
غازی علی مدد نے مزید بتایا کہ گلگت کے جانبازوں نے دشمن کو اسکردو سے پسپا کرتے ہوئے کھرمنگ اور پھر لدّاخ تک کا سفر کیا۔ ہم لدّاخ پہنچے تو دشمن وہاں سے فرار ہو چکا تھا، تین سال بعد ہم واپس گلگت لوٹے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جنگ کے آغاز سے پہلے مہاراجا کی فوج گلگت چھوڑ کر جا چکی تھی، جس کے بعد علاقے کی دفاعی ذمہ داری گلگت اسکاؤٹس کے سپرد کی گئی۔
غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’دشمن کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بونجی کے پل کو جلانے کی ذمہ داری ایک پلٹن کو دی گئی، جس کے بعد مختلف مقامات پر شدید لڑائیاں ہوئیں اور دشمن کو شکست فاش ہوئی۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران انہوں نے دشمن کے ٹھکانوں اور دکانوں پر قبضہ کیا اور مقامی علاقوں کو محفوظ بنایا۔
غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’میری خواہش تھی کہ میں شہادت کا رتبہ حاصل کروں، مگر یہ اعزاز میرے بیٹے کو نصیب ہوا۔ میرے تین بیٹے اب بھی پاک فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وطن کے لیے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
غازی علی مدد اور ان جیسے بے شمار جانبازوں کی قربانیوں کے نتیجے میں 1948 میں گلگت بلتستان نے آزادی حاصل کی۔ آج بھی یہ غازیانِ وطن پاکستان کے دفاع اور آزادی کی علامت ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپی آئی اے کا فلائٹ آپریشن بحال، انتظامیہ نے پروازوں کے لیے متبادل راستے اپنانا شروع کر دیے پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن بحال، انتظامیہ نے پروازوں کے لیے متبادل راستے اپنانا شروع کر دیے غزہ میں بین الاقوامی فورسزکی تعیناتی کیلئے متفقہ فریم ورک تیارکر رہے ہیں، ترک وزیرخارجہ آرٹیکل 53 شق 3 اور آرٹیکل 61 کے تحت سینیٹر سیدال خان قائم مقام چیئرمین سینیٹ مقرر معروف سیاسی و سماجی شخصیت میر مصطفی مدنی گلگت بلتستان کو قائم مقام وزیراعلی بنائے جانے کا امکان وفاقی وزیرِ ریلوے سے ریکٹر نمل یونیورسٹی کی ملاقات، مارگلہ اسٹیشن کے ترقیاتی مواقع اور ریلوے کی جدید کاری و ڈیجیٹلائزیشن پر تبادلہ خیال افغانستان سے دراندازی کی کوشش ناکام، افغان سرحدی فورس کے اہلکار سمیت تین خوارج ہلاکCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم